7
Monday 28 Jun 2021 16:30

صدر جوزف بائیڈن کے حکم پر عراق و شام میں امریکی فوجی جارحیت

صدر جوزف بائیڈن کے حکم پر عراق و شام میں امریکی فوجی جارحیت
تحریر: محمد سلمان مہدی

جوزف بائیڈن کے دور صدارت میں بھی یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی حکومت شام اور عراق میں اپنی غیر قانونی موجودگی اور مداخلت ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ تاحال بین الاقوامی تعلقات میں لاقانونیت کے راج کی زندہ اور عملی مثال امریکی زایونسٹ سعودی عربی غربی بلاک ہی ہے۔ انٹرنیشنل لاء کی بدترین خلاف ورزیوں کے عالمی مقابلے میں دور دور تک اس مغربی زایونسٹ امریکی سعودی بلاک کا کوئی حریف نظر نہیں آتا۔ آج ہی کی بات ہے کہ علی الصبح امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان نے عراق و شام کی سرحد پر فضاء سے زمین پر میزائل حملوں میں عراق کی قانونی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کو نقصان پہنچانے کا فخریہ اعلان کیا۔ پینٹاگون کے ترجمان اور امریکی زایونسٹ سعودی بلاک کے زرخرید میڈیا کی غلط رپورٹنگ سے یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی کہ شام کے اندر امریکی بلاک کی موجودگی مکمل طور پر سو فیصد غیر قانونی ہے۔ عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی عراق کی قانونی رضاکار فورس ہے۔ اسکے کمانڈر ابو مھدی المھندس اور عراقی حکومت کی دعوت پر بغداد تشریف لانے والے ایرانی فوجی جرنیل حاج قاسم سلیمانی کو جنوری 2020ء میں امریکی افواج نے فضاء سے زمین پر میزائل حملے کرکے شہید کر دیا تھا، وہ حملے بھی غیر قانونی تھے۔ عراق کی پارلیمنٹ امریکا سے باضابطہ مطالبہ کرچکی ہے کہ امریکی و دیگر غیر ملکی افواج عراق سے مکمل انخلاء کریں۔ پوری دنیا پر لازم ہے کہ وہ ان ناقابل تردید مستند زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں کہ امریکی زایونسٹ سعودی بلاک عراق اور شام میں لاقانونیت کا راج مسلط کرچکا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جون کربی نے جو بیان جاری کیا ہے، یہ انتہائی مضحکہ خیز موقف ہے کہ امریکی صدر جوزف بائیڈن نے آرٹیکل دو کے تحت حاصل اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ان حملوں کا حکم دیا تھا۔ یہ کس ملک پر امریکی صدر کو اختیار حاصل ہے۔؟ کیا امریکی صدر اپنے ملک کے آئین اور قانون کے تحت حاصل اختیار کے تحت کسی بھی آزاد اور خود مختار مملکت کے کسی بھی علاقے پر امریکی افواج کو حملوں کا حکم دے سکتا ہے۔؟ یاد رہے کہ جب روسی صدر پوٹن سے امریکی صدر بائیڈن نے جنیوا میں بحیثیت صدر پہلی ملاقات کی تو شکوہ کیا کہ فلاں سائبر حملہ روس کی ایسی کسی تنصیبات پر ہوتا تو آپ پر کیا گزرتی۔؟   شام اور عراق کی طرف سے بھی امریکی صدر بائیڈن کے لیے یہی سوال ہے کہ اگر کوئی اسی طرح امریکا کے اندر فوجی حملے کرے اور جانی و مالی نقصان پہنچائے تو ان کے دل پر کیا گزرے گی۔؟ سب سے پہلے تو امریکی صدر اور امریکی عوام و خواص کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ عراق اور شام کو امریکا کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا شوق نہیں ہے۔ حشد الشعبی عراق اپنے ملک کے دفاع میں مصروف ہے۔ شام کی حکومت اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے، جبکہ شام اور عراق دونوں ملکوں ہی میں امریکی افواج کی موجودگی ان دونوں ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔ امریکی افواج کی وہاں موجودگی دونوں ملکوں کی آزادی اور خود مختاری کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

جب قانونی پوزیشن یہ ہے تو امریکی صدر آرٹیکل دو کے تحت حاصل اختیار کا غیر قانونی استعمال کرنے سے باز رہے اور اپنی افواج کو اپنے ملک کے اندر آنے کا حکم جاری کرے۔ جب جوزف بائیڈن کی حکومت کسی اور ملک کی فوج کی امریکا میں اس نوعیت کی موجودگی، جیسی امریکا نے عراق و شام میں اختیارکر رکھی ہے، اس کو اپنے لیے پسند نہیں کرتی تو دوسرے ممالک میں بھی اپنی فوجوں کی زبردستی کی موجودگی کا سلسلہ ختم کر دے اور جون کربی سمیت موجودہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے سارے آفیشلز اور میڈیا پرسنز کو چاہیئے کہ پہلے عراق کی تاریخ اور اس میں امریکی زایونسٹ سعودی عربی غربی بلاک کی غیر قانونی مداخلت سے متعلق حقائق کو مدنظر رکھ کر موجودہ صورتحال سے متعلق کوئی عادلانہ موقف پیش کریں۔ سی آئی اے کے سابق افسر جمیز کرچفیلڈ نے پبلک براڈ کاسٹنگ سروس کو انٹرویو میں یہ حقیقت بیان کر دی تھی کہ عراقی ڈکٹیٹر صدام نے عراق میں امریکی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے امریکی حکومت، سفارتکاروں، انٹیلی جنس افسران اور انرجی کمپنیوں کے ساتھ ملکر سخت جانفشانی سے کام کیا۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ شاہ ایران کے فرار کے بعد خطے میں امریکی مفادات کے لیے شاہ ایران کا اصل متبادل صدام بنا۔ یعنی یہ بات واضح ہے کہ شاہ ایران کے بعد اس خطے میں طاقت کا توازن امریکا کے حق میں نہیں تھا اور صدام نے امریکی سامراجی مفادات کا تحفظ کیا۔ حتیٰ کہ صدام جیسا مہرہ بھی جب کویت پر چڑھ دوڑا اور خلیجی عرب اتحادیوں سے وابستہ امریکی مفادات زیادہ اہم ہوگئے تو امریکا نے صدام کے خلاف اسی کے اپنوں کے اندر سے ففتھ کالم ڈھونڈ نکالے۔ اس کی تفصیل سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ نے اپنی تصنیف آئی آف دی اسٹارم میں بیان کی ہے۔

محض ان دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے اب جوزف بائیڈن کی امریکی حکومت کو آئینہ دکھایا جائے کہ عراق کی تمام تر مشکلات کی اصل ذمے داری امریکا اور اس کے مغربی زایونسٹ بلاک کے دوسرے اہم ملک برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔ دیگر ممالک پر چڑھ دوڑنے کی شہہ بھی امریکی بلاک ہی نے صدام کو دی تھی، کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ امریکی بلاک اس کو دیگر پر ترجیح دیتا ہے۔ عراق میں مذہبی انتہاء پسندی کا ٹھیکہ امریکی بلاک کی طرف سے سعودی عرب کو ملا۔ زیادہ تر وہ خودکش بمبار جو عراق میں گھسے اور پھٹے، انکا تعلق سعودی عرب اور اردن سے تھا اور سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان ایم بی ایس نے واشنگٹن پوسٹ کے دفتر کے دورے کے وقت جو گفتگو کی اور جو واشنگٹن پوسٹ میں شائع بھی ہوئی، اس میں ایم بی ایس نے تاریخی اعتراف کیا کہ مغربی بلاک (یعنی امریکی یورپی بلاک، یعنی نیٹو بلاک) کے کہنے پر سعودی عرب نے وہابیت کو ایکسپورٹ کیا یا باالفاظ دیگر مسلمانوں کو گمراہ کیا اور بے وقوف بنایا، تاکہ امریکی زایونسٹ سامراجی مفادات کا تحفظ ہو۔ یہاں پھر امریکی مغربی زایونسٹ سعودی بلاک اور اس کے حامی جواب دیں کہ ان کے ساتھ بھی اگر کوئی اسی طرح کرتے، جیسا انہوں نے دیگر ممالک کے ساتھ کیا ہے، تو ان کے دل پر کیا گزرے گی۔؟

امریکا کی دیکھا دیکھی سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور دیگر ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد بنا کر یمن پر غیر قانونی یلغار کر دی۔ سعودی فوجی اتحاد کی یمن پر غیر قانونی فوجی جارحیت ساتویں سال میں داخل ہوچکی ہے۔ یمن میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور جب یمن کی نمائندہ ریاست صنعا کی حکومت جوابی کارروائی کرتی ہے تو سعودی عرب سے ذاتی فائدے اٹھانے والے مذمتی بیانات جاری کرنے لگتے ہیں۔ یہ طرز عمل کھلی منافقت ہے۔ جس طرح کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم اور فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے، بالکل اسی طرح یمن پر سعودی فوجی جارحیت اور جنگ کی بھی کھل کر مذمت کی جانی چاہیئے۔ عرب و مسلمان خطے میں امریکی زایونسٹ سعودی عربی غربی بلاک ایک طویل عرصے سے غیر قانونی مداخلت اور سامراجی منصوبوں کی پالیسی پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ اس کی ایک بدترین مثال افغانستان ہے۔ امریکی افواج کی طویل فوجی موجودگی کے بعد بھی یہاں آج تک مرکزی حکومت کی رٹ قائم نہ ہوسکی۔ جونہی امریکی افواج کے انخلاء کا مرحلہ شروع ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر طالبان کنٹرول کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ افغانی میڈیا کی رپورٹس میں گالیاں پاکستان کو دی جا رہی ہیں جبکہ افغانستان پر حملہ امریکا نے کیا تھا اور تاحال افغانستان پر کنٹرول امریکی حکومت ہی کا ہے۔ اشرف غنی کی حکومت کی حیثیت تو ماہ جون 2021ء ہی میں دنیا کے سامنے آشکارا ہوچکی ہے۔

عراق ہو یا شام ہو، یمن ہو یا افغانستان، ہر جگہ امریکی سعودی بلاک مسئلے کی جڑ ہے۔ یہ بلاک نہ تو کہیں پائیدار امن قائم کرسکا ہے اور نہ ہی یہ نمائندہ حکومتیں بنانے کی کوئی مثال قائم کرسکا ہے۔ درحقیقت یہ امریکی زایونسٹ سعودی عرب غربی بلاک کا اصل ہدف کبھی نہیں رہا کہ امن قائم کریں۔ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود امریکی بلاک ہے، کیونکہ بحرین، سعودی عرب، متحدہ امارات میں جمہوریت قائم ہو جائے تو امریکا کی ان ممالک سے رخصتی کا قومی مطالبہ سامنے آئے گا۔ فلسطین میں عوام نے حماس کو مینڈیٹ دے کر حکمران بنا دیا تو امریکی سعودی بلاک نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایران کے عوام نے ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کر لیا تو امریکی زایونسٹ سعودی عربی غربی بلاک بلبلا رہا ہے۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا، سعودی عرب اور ان کے دیگر اتحادی ممالک پر لازم ہے کہ کچھ وقت خود احتسابی کریں اور اس لاقانونیت کے سلسلے کو یہیں ختم کر دیں۔ یعنی یہ کہ سعودی فوجی اتحاد یمن پر جارحیت اور مداخلت کو فوری ختم کرے۔

امریکا اور اس کے اتحادی عراق اور شام میں مداخلت کی پالیسی ختم کر دیں۔ جب تک پورا امریکی بلاک عراق، شام، یمن سمیت دیگر ممالک کی آزادی و خود مختاری کے احترام کو عمل سے ثابت نہیں کرتا، تب تک ان متاثرہ ملکوں کو بھی ردعمل کا حق حاصل ہے۔ اب اگر عراق کی حشد الشعبی کی جانب سے امریکا کے غیر قانونی حملوں کے جواب میں کوئی کارروائی کی جائے تو یہ ان کا قانونی حق ہے۔ انٹرنیشنل لاء نے کسی ملک کے اسٹیٹ یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ کسی بھی آزاد و خود مختار مملکت پر کسی بھی بہانے سے چڑھ دوڑے۔ افسوس یہ ہے کہ روس اور چین نے بھی امریکی بلاک کی اس لاقانونیت کو لگام ڈالنے کے لیے کوئی قابل ذکر نمایاں کارروائی نہیں کی ہے۔ اگر یہ دونوں ملک بین الاقوامی سطح پر امریکی اقتصادی پابندیوں سمیت بلیک میلنگ کے دیگر حربوں کو ناکام بنانے کے لیے عملی اقدامات کرتے تو آج دنیا ان مشکلات سے دوچار نہ ہوتی۔ شام میں روس کی فوجی موجودگی کے باوجود امریکی مداخلت روس کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
خبر کا کوڈ : 940516
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش