0
Sunday 4 Jul 2021 17:11

امام رضا سر چشمہء علم و معرفت(2)

امام رضا سر چشمہء علم و معرفت(2)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آسمان امامت کے آٹھویں تاجدار امام علی رضا علم و معرفت کا وہ عظیم الشان سرچشمہ تھے، جس سے طالبان علم اور تشنگان معرفت ہمیشہ سیراب ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے علم کی حد یہ تھی کہ آپ کو عالم آل محمد کا لقب دیا گیا۔ امام موسیٰ کاظم نے فرمایا: "میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد سے سنا ہے کہ آل محمد تمہارے صلب میں ہے، اے کاش میں انہیں دیکھتا، وہ امیر المومنین کے ہم نام ہیں۔ امام رضا کی علمی تجلیات کی یہ حالت تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں اور دل آپ کی طرف جھک جاتے تھے۔ (اس علمی تجلی کا) خاص انداز تھا، اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ آپ مدینے سے خراسان کی طرف جا رہے تھے، جونہی نیشا پور پہنچے تو زائرین کا ایک ہجوم آگیا، جو آپ کی زیارت کا مشتاق اور آپ کے ارشادات سننے کا متمنی تھا۔ اس موقع پر آپ نے ایک حدیث قدسی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اے لوگو! مجھ سے میرے پدر بزرگوار امام موسیٰ کاظم نے اپنے آباء و اجداد کے سلسلے سے روایت کی ہے کہ حضرت محمدۖ سے جبرائیل  نے کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ کلمہ "لا الہ الا اللہ" میرا قلعہ ہے، جو میرے قلعے میں داخل ہوا، وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوا۔

یہ کہہ کر امام خاموش ہوگئے، آپ کی سواری چند قدم آگے بڑھی، آپ نے سواری روکی اور فرمایا: "لوگو! آگاہ ہو جائو کہ میں نے جو کچھ کہا وہ چند شرطوں کے ساتھ ہے اور میں بھی انہیں شرائط میں سے ایک ہوں۔" امام کے اس ارشاد کا مقصد یہ تھا کہ کلمہ توحید عذاب الہیٰ سے محفوظ رہنے کی ضمانت ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک شرط آنحضرت ۖ کی رسالت کا اقرار اور دیگر آئمہ معصومین کی ولایت کو تسلیم کرنا ہے، جو توحید کے ساتھ رسالت اور امامت کی شرائط کو تسلیم کرے گا، وہی عذاب الہیٰ سے محفوظ رہے گا۔ اس وقت مجمع میں جو لوگ قلم و دوات لے کر اس حدیث کو لکھ رہے تھے، اُن کی تعداد بیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس مقام پر امام نے اس علاقے کے لوگوں کی فرمائش پر کہ یہاں خشک سالی تھی اور پانی کا مسئلہ تھا تو با اذن خدا ایک چشمہ جاری فرمایا، جس سے لوگوں کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے، یہ چشمہ آج بھی زائرین کرام کی عقیدتوں کا ساماں لئے ہوئے سیراب کر رہا ہے، یہاں پر زائرین کے قافلے آتے ہیں اور حاضری دیتے ہیں۔ نیشا پور جہاں یہ چشمہ موجود ہے مشہد سے 125 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

امام رضا علیہ السلام کی زندگی بھی دیگر آئمہ کی طرح آسان نہ تھی، بہت سی مشکلات کا سامنا تھا، بالخصوص حکمرانوں کی طرف سے جو آپ کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ محسوس کرتے تھے، ان کے اندر چور تھا، لہذا بظاہر آپ سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا جاتا، جو سراسر دکھلاوا ہوتا، مگر اندر کھاتے آپ کے وجود مبارک سے ڈر اور خوف محسوس کیا جاتا تھا۔ وہ حکمران جو اپنے اقتدار و حکومت کیلئے اپنے بھائی، اپنے چچائوں حتیٰ باپ کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، وہ بھلا کیونکر آپ کو اپنا جانشین یا ولی عہد کے طور پر قبول کرسکتے تھے، لہذا ولی عہدی بھی ایک سیاسی چال تھی، ولی عہدی کے مسئلہ پر صاحبان نظر نے روشنی ڈالی ہے جو پیش خدمت ہے۔

 مامون الرشید جب اپنے بھائی امین کا قتل کرکے حکومت پر متمکن ہوا (تو کئی داخلی مسائل سے دوچار تھا)، اس کو کئی داخلی مسائل کا سامنا تھا۔ ایک طرف عباسیوں اور اُن کے حواریوں کی طرف سے مشکلات تھیں تو دوسری طرف آئے دن مملکت میں علویوں کی طرف سے حکومت کے خلاف قیام برپا ہوتے رہتے تھے۔ یہ مامون کی حکومت کیلئے بڑا خطرہ تھا۔ اس نے علویوں کو خاموش کرنے کیلئے ایک نہایت خطرناک چال چلی اور وہ یہ کہ امام کو مدینہ سے خراسان لایا اور آپ سے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی۔ تاریخ نے اس واقعہ کو اس طرح لکھا ہے۔
مامون، اے فرزند رسول ۖ ! منصب خلافت کیلئے میں اپنے سے زیادہ آپ کو شائستہ سمجھتا ہوں، لہٰذا میں اسے آپ کے سپرد کرکے اس سے علیحدہ ہونا چاہتا ہوں۔
حضرت علی بن موسیٰ رضا نے فرمایا! اگر یہ منصب خدا نے تمہیں دیا ہے اور تمہارا حق ہے تو اس سے دست بردار ہونا اور اسے دوسرے کے سپرد کرنا صحیح نہیں ہے اور اگر یہ تمہارا حق نہیں ہے تو غیر کی چیز تم کسی دوسرے کو کیسے دے سکتے ہو۔

مامون!  ہر صورت میں آپ کو یہ منصب قبول کرنا ہے۔
امام رضا!  میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔
مامون! واقعاً آپ مائل نہیں ہیں۔
امام! طعاً مائل نہیں ہوں۔
مامون! میری ولی عہدی قبول کر لیجئے۔
امام! میں اسے بھی قبول کرنے سے معذور ہوں۔
مامون! خواہ نہ خواہ یہ قبول کرنا ہی پڑے گا، اسے قبول کرنے کیلئے میں آپ کو مجبور کروں گا۔
امام ! میں ان شرائط کے ساتھ قبول کرتا ہوں کہ میں سیاسی اور حکومتی امور میں دخل نہیں دوں گا، سیاسی امور کے علاوہ میں تمہاری ولی عہدی قبول کرسکتا ہوں، میں کسی حاکم کو معزول کروں گا اور نہ کسی کو حاکم مقرر کروں گا، کسی کام میں مداخلت نہیں کروں گا۔

ولی عہدی قبول کرنے کے اسباب:
 امام نے ولی عہدی کو کیوں قبول کیا، اس کی چند وجوہات بھی صاحبان نظر نے پیش کی ہیں، ان کو جاننا بھی ہر عقیدت مند کیلئے ضروری اور لازم ہے کہ کوئی بھی اعتراض کرے تو اسے مسکت جواب دیا جا سکے۔
1۔ سب سے پہلے امام نے ولی عہدی کو مجبوراً قبول کیا، نہ اپنے اختیار سے اور دوسرا یہ فرمایا کہ میں تمہارے حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کروں گا، کیونکہ سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کا مطلب یہ تھا کہ آپ ان کے برے اعمال میں بالکل شریک نہیں ہیں۔
2۔ مامون چاہتا تھا کہ امام کی شخصیت کو خراب کیا جائے۔ عام سی بات ہے کہ جب انسان حکومت سے باہر ہوتا ہے، مقدس اور پاک ہوتا ہے مگر جب حکومت میں آجاتا ہے تو تقویٰ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی، مگر امام نے مامون کے اس باطل خیال کو اس طرح ختم کر دیا کہ جب آپ کو شاہی محل میں ٹھہرنے کیلئے کہا گیا، آپ وہاں بالکل نہ رکے اور ایک عام سے مکان میں رہے، آپ کے دروازے غرباء، فقراء اور مساکین کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔

3۔ امام، علم غیب کا عالم ہوتا ہے، امام نے حقیقی اسلام کی ترویج اور عظمت اہلبیت کو بیان کرنے کیلئے مصلحت اس میں دیکھی کہ ولی عہدی کو قبول کیا جائے، مگر اس شاہی دربار کو اسلام کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنایا جائے، کیونکہ آج کی طرح نشر و اشاعت اور میڈیا میں وسعت نہیں تھی۔ نشر و اشاعت اور اپنے افکار پھیلانے کا سب سے موثر ترین ذریعہ شاہی دربار تھا، کیونکہ مختلف جگہوں سے سفراء، امراء، علماء، دانشور اور حکومتی کارندے اس جگہ آتے اور پھر واپس جاتے تو یقیناً اپنے علاقوں میں یہاں کے حالات بتاتے ہوں گے۔ یہاں پر رہ کر امام نے کئی شبہات کے جوابات دیئے، جو عام علماء کے بس سے باہر تھے۔ پھر اہم بات یہ کہ خراسان میں اہلبیت کے ماننے والوں کی کثیر تعداد تھی، جن تک آپ کا پیغام آسانی سے پہنچ سکتا تھا۔

مختصر زندگی نامہ امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام:
آسمان ولایت کے آٹھویں تاجدار کی ولادت باسعادت 11 ذی القعدہ 148 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک علی، کنیت رضا ہے۔ آپ کا دور بنی عباس کی حکومت میں گزرا، آپ کی ولادت کے وقت منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ اس کے بعد 157ہجری میں مہدی عباسی، پھر 169 ہجری میں ہادی عباسی، پھر 170 ہجری میں ہارون الرشید، 194 ہجری میں مامون الرشید تخت سلطنت پر قابض ہوئے۔ بنو عباس کے ان تمام حکمرانوں کی اہل بیت سے دشمنی اور سادات کشی تاریخ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے (یہی وجہ ہے کہ مامون جو بظاہر اہلبیت کا حامی نظر آتا ہے، اسی نے آپ کو زہر کے ذریعے شہید کیا)۔ 23 ذیقعد پاکستان میں امام ہشتم کے یوم شہادت کے طور پہ منایا جاتا ہے، اسی نسبت سے یہ مضمون پیش کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 941299
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش