7
Monday 5 Jul 2021 01:49

پاکستان تاحال امریکی بلاک کا اٹوٹ انگ؟

پاکستان تاحال امریکی بلاک کا اٹوٹ انگ؟
تحریر: محمد سلمان مہدی

ویسے تو امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے کا معاملہ جنرل ایوب خان کے دور حکومت سے ناقابل تردید سچ بن کر ہمیشہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہوچکا، لیکن اس تحریر کو جنرل پرویز مشرف حکومت کے دور حکومت اور آج کی صورتحال سے اس کے ربط و تعلق تک محدود رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے امریکی جنگ میں تعاون کرنے کی پالیسی کی یہ کہہ کر حمایت کی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی چوائس نہیں تھی۔ سوشل میڈیا پر ان کے بیان پر مبنی ایک وڈیو کلپ آج کل وائرل ہے۔ سال 2002ء کے الیکشن ہی میں عمران خان پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ یہ وہ الیکشن تھے جس میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے الیکشن لڑنے پر پابندی تھی۔ خود سابق جرنیل صدر پرویز مشرف نے اپنی یادداشتوں بعنوان ان دی لائن آف فائر میں امریکا کے پاکستان کو پیش کیے گئے سات مطالبات کو بیان کیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں امریکی خاتون سفیر وینڈی چیمبرلن نے بھی یہ پیش کی تھیں اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستانی وزارت خارجہ کو بھی ارسال کی گئیں تھیں۔ پاکستان میں امریکی اڈوں سے متعلق جو گرما گرم بحث ہو رہی ہے، اس کا پس منظر یہی ہے جو یہاں تحریر کیا۔ اس کی مزید تفصیل محض ایک پیراگراف میں اس وقت کے امریکی فوجی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ٹومی فرینکس نے اپنی تصنیف بعنوان امریکن سولجر (جنرل ٹومی فرینکس کمانڈر انچیف یونائٹڈ اسٹیٹس سینٹرل کمانڈ) کے ساتویں باب بعنوان ایک نئی قسم کی جنگ میں بیان کر دی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان کی سرزمین کو امریکا نے اسی کے تحت استعمال کیا ہے، خواہ شہباز ایئربیس جیکب آباد ہو یا شمسی اڈہ بلوچستان اور وہ فریم ورک آف کوآپریشن تو آج بھی نافذ العمل ہے۔ جنرل ٹومی فرینکس کے مطابق انہیں سفیر وینڈی چیمبرلن نے بتایا کہ جنرل پرویز مشرف نے کوالیشن طیاروں کو پاکستان سے اوور فلائی کی اجازت دی اور بہت اہم نکتہ جو انہوں نے بتایا کہ اس کے اندر (از خود یہ نکتہ پوشیدہ تھا اس کے تحت) ٹوماہاک لینڈ اٹیک میزائل اوورشوٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ اہم نکتہ جو واضح ٹومی فرینکس نے بیان کیا، وہ یہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے (امریکی قیادت میں لڑنے والی فوجی کوالیشن کے لیے) پاکستان میں 74 بیسنگ اور اسٹیجگ سرگرمیوں پر بھی اتفاق کیا۔ بیسنگ اور اسٹیجنگ کا مطلب وہی اڈوں کا استعمال ہی ہے۔ اس میں کمبیٹ، سرچ اینڈ ریسکیو سے لے کر ری فیولنگ (ایندھن) اور مواصلاتی ریلے سائٹس کو آپریٹ کرنا اور افغان بارڈر کے قریب طبی امداد کا ایک مرکز بنانا بھی شامل تھا۔ بقول جنرل ٹومی فرینکس، اس کے بدلے میں جنرل پرویز مشرف نے درخواست کی کہ امریکا کسی طور اپنے لڑائی منصوبوں میں بھارت کی فوج یا حکومت کو اس طرح اپنے ساتھ نہ ملائے کہ وہ پاکستان کی فضائی یا سمندری حدود میں آئیں۔ مشرف صاحب نے یہ درخواست بھی کی کہ امریکیزیر قیادت فوجی کوالیشن بھارت کی سیاسی انوالومنٹ کی تشہیر بھی نہ کرے، ورنہ یہ پاکستان میں حساسیت کو مزید شدت بخشے گی۔ یہ ہوا سینٹکام کے اس وقت کے کمانڈر کا موقف۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان میں جاری موجودہ بحث کا جائزہ لیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے 24 مئی2021ء کی شب دس بجکر چھپن منٹ پر دو حصوں میں اپنا موقف ٹویٹ کیا اور اس ٹویٹ کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بہت صاف اور واضح ٹویٹ تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کے ٹویٹ کا دوسرا حصہ یہ تھا:
Pakistan and the U.S. have a framework of cooperation in terms of Air Lines of Communication (ALOC) and Ground Lines of Communication (GLOC) in place since 2001. No new agreement has been made in this regard. 2/2 بہت ہی آسان اردو میں کہوں تو پاکستان حکومت کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اور امریکا کے مابین زمینی اور فضائی مواصلاتی (یعنی لائن آف کمیونیکیشنز) کے حوالے سے تعاون کا ایک فریم سال2001ء سے نافذ العمل ہے۔ اس ضمن میں کوئی نیا ایگریمنٹ نہیں ہوا۔ اب اس بیان کے بعد کوئی یہ بتائے کہ کیا امریکا نے ایئر اور لینڈ لائنز آف کمیونیکیشن کے فریم ورک آف کوآپریشن سے ہٹ کر پاکستان میں اڈے استعمال کیے تھے؟ یا اسی کے تحت؟ یہ ہے ملین ڈالر کا سوال۔

اس کے بعد ہوا کچھ یوں کہ اگلے دن یعنی 25 مئی2021ء کو سینیٹر مشاہد حسین سید نے سینیٹ سیکریٹریٹ میں کالنگ اٹینشن نوٹس جمع کروا دیا۔ اس میں انہوں نے ڈان اخبار میں 24 مئی کو پاکستان میں امریکی افواج کو زمینی اور فضائی رسائی دینے سے متعلق خبر کا حوالہ دیا اور یاد دلایا کہ اگر ایسا ہے تو یہ سال 12 اپریل 2012ء کی متفقہ منظور شدہ پارلیمانی قرارداد بعنوان رولز آگ انگیجمنٹ فار امریکن فارین فورسز کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے تناظر میں سال 2001ء کے فریم ورک آف کوآپریشن سے متعلق بھی حکومت سے وضاحت طلب کی۔ یاد رہے کہ سینیٹر مشاہد حسین سید پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین بھی ہیں اور ساتھ ہی پڑوسی دوست ملک چین کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم کرنے کی نیت سے ایک تھنک ٹینک کے بانی بھی ہیں۔ عام الفاظ میں انہیں پاکستان میں چائنا کا لابسٹ کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ تو مشاہد صاحب کی تشویش کو چائنا کے پس منظر میں دیکھیں تو بھی غلط نہیں، کیونکہ چائنا امریکا تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ امریکی مقننہ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے اجلاسوں میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے متعلق تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ ان اجلاسوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں امریکی اڈوں سے متعلق افواہوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ آرمڈ سروسز کمیٹی کے کھلے اجلاس میں تو یہ بات نہیں ہوئی، لیکن آرمڈ سروسز کمیٹی نے کلوزڈ سیشن بھی منعقد کیا تھا، یعنی اس کی روداد خفیہ ہی ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں کوئی بات ہوئی ہو اور لیک ہوئی ہو، آن ریکارڈ ایسا نہیں ہوا ہے۔

آٹھ جون 2021ء کو اسلام آباد سے وائس آف امریکا کے ایاز گل نے ایک رپورٹ دی ہے۔ اس کے مطابق اعلیٰ پاکستانی حکومتی عہدیداروں نے انہیں بتایا کہ پاکستان نے رسمی طور پر امریکا کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ امریکا کو اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بہت ہی زبردست قسم کی شہہ سرخی کے ساتھ خبر کچھ یوں ہے کہ:
US Not Seeking Pakistani Bases, 'Nor Is it Possible,' Pakistani Officials Tell VOA
Pakistan has formally conveyed to the United States that Islamabad will not provide military bases to Washington for counterterrorism operations in Afghanistan after all international troops exit the war-torn country, and the U.S. side has stopped raising the issue, senior Pakistani officials said. Several top Pakistani government officials, privy to a flurry of recent high-level bilateral talks, shared some details Tuesday of the discussions with VOA
.....

اس خبر میں بھی میں تو دعویٰ یہ ہے کہ امریکا نے اڈے مانگے ہی نہیں ہیں۔ اسی خبر میں امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس کے ایک روزہ خفیہ دورہ پاکستان کا بھی تذکرہ ہے۔ ولیم برنس نے 6 جون کو پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یہ خبر نیویارک ٹائمز نے بریک کی تھی۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی سمجھ لیں کہ اب تک امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن اور وزیر دفاع آسٹن جیمز لائڈ نے پاکستان کی قیادت سے ٹیلیفونک رابطہ قائم کر رکھا ہے، جبکہ جوزف بائیڈن کے صدر بننے کے بعد امریکا پاکستان حکومت کی پہلی اعلیٰ ترین سطح کی بالمشافہ ملاقات دونوں ملکوں کے مشیران برائے امور قومی سلامتی نے جنیوا میں کی تھی۔ یعنی جیک سلیوان اور معید یوسف کی جنیوا میں ملاقات 24 مئی2021ء کو ہوئی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا ٹویٹ 24 مئی کی شب 10:56 پر پوسٹ ہوا۔ تین جولائی 2021ء کو دی نیوز کی خبر کے مطابق معید یوسف نے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں کہا کہ اس ملاقات میں اڈوں کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن نیویارک ٹائمز نے سات جون 2021ء کو ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اڈہ مانگا ہے لیکن معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ جب حکومتی سطح پر موقف یہ ہے کہ اڈہ مانگا ہی نہیں ہے تو پھر اڈہ دینے سے انکار کے بیان کی اپنی حیثیت کیا ہے۔؟ یہ ایک سوال تھا جو ایکسی اوس آن ایچ بی او پروگرام کے لیے انٹرویو میں پوچھا گیا تھا اور وزیراعظم عمران خان نے اس کا جواب دیا تھا، ہرگز نہیں۔ پاکستان کے سرکاری نشریاتی اداروں نے اس کے کچھ اقتباسات 21 جون2021ء کو نشر کیے تھے۔

اسی صورتحال کو چائنا فیکٹر کے تناظر میں دیکھیں تو جنوبی چینی سمندر اور مشرقی چینی سمندر کی طرف صدر جوزف بائیڈن کی امریکی حکومت نے فوجی کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ جاپان و جنوبی کوریا و بھارت کو تو امریکا پہلے سے ہی چائنا کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے، اب ایک اور مرتبہ فلپائن کو بھی للچا رہا ہے۔ چائنا کی اقتصادی ترقی، بیلٹ روڈ منصوبہ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیشرفت کے خلاف امریکی حکومت آن ریکارڈ موقف دیتی آرہی ہے۔ پاکستان میں جب امریکی اڈوں سے متعلق افواہوں کا بازار گرم ہوا، تب امریکا چائنا سمندر میں اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ فی الحال ہم تائیوان، ہانگ کانگ، تبت اور کاشغر ایشوز کو شامل نہ بھی کریں، تب بھی امریکی حکومت کا چائنا سمندر میں اور بحر ہند میں فوجی صف بندی میں چائنا کے پڑوسی ممالک کو اور حتیٰ کہ آسٹریلیا کو بھی سمندر کی تھانیداری میں اپنا اتحادی بنا لیا ہے۔ جاپان کے ساتھ ساؤتھ چائنا سمندر میں بحری فوجی مشقیں کر رہا ہے، جبکہ چائنا پاکستان تعلقات کی اڑچنوں میں امریکا فیکٹر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان حکومت نے ٹرمپ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے قرضہ مانگا تو اس وقت امریکی حکومت نے سی پیک اور چائنا کے قرضوں سے متعلق تفصیلات مانگ لیں اور چائنا اسپیسیفک شرائط پر ہی قرضہ منظور کیا تھا۔ عمران خان کی انصافین حکومت نئے قرضے لے لے کر پرانے قرضوں کی اقساط ادا کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے چائنا سے قرض مانگا۔ چائنا سے بارہا قرض قسط ادائیگی کی درخواستیں بھی کر رہی ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے چینی یونٹس کو تین بلین ڈالر کی قسط ادا کرنے میں تعطل سے چائنا بھی ناراض ہو، یہ ممکن ہے۔

اب اسی میں روس فیکٹر اور پاکستان حکومت کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی یا جیو اکنامکس خارجہ پالیسی کا اضافہ کرکے صورتحال پر غور فرما لیں۔ امریکی نیٹو بلاک بحر اسود (سیاہ سمندر) میں سی بریز فوجی مشق کر رہا ہے۔ ان سالانہ فوجی مشقوں کا آغاز 1997ء سے ہوا، لیکن اس برس اس فوجی مشق کی نئی آن بان شان دیدنی ہے۔ امریکی چھٹا بحری بیڑہ اور یوکرین شریک میزبان ہیں۔ امریکی نیٹو بلاک کا ہدف اس خطے کے اہم ترین ملک روس کے خلاف بحری فوجی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ اس برس سی بریز بحری فوجی مشق نادان پاکستانیوں کے لیے موجودہ انصافین حکومت کے دور میں ریاست پاکستان کے قول و فعل کے تضاد اور ہشیار و خبردار کرنے کا ایک ذریعہ بن کر سامنے آئی ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ امریکا کو نہ کہنے کی بڑھک مارنے والے وزیراعظم کے دور حکومت میں پاکستان اس بحری فوجی مشق میں شریک ہوا ہے کہ جس میں اسرائیل بھی شریک ہے۔ امریکی افواج نے اسے نمایاں طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ سی بریز 2021ء ایکسرسائز میں پاکستان کی شرکت چہ معنی دارد!؟ یہ اس ناقابل تردید حقیقت کو ظاہر کرچکی ہے کہ کوئی غیر جانبدار خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ روس کے خلاف اس مشق میں 32 ممالک میں پاکستان امریکی نیٹو بلاک کے ساتھ کھڑا ہے۔

ذرا نقشہ اٹھا کر دیکھیے کہ بحر اسود کہاں ہے۔؟ ہمارا بحر اسود سے کیا ربط و تعلق بنتا ہے۔ یعنی پہلے پاکستان کا بحری جہاز بحر ہند میں یمن کے عرب سمندر کی طرف جائے، وہاں سے بحر احمر (سرخ سمندر) سے نہر سوئز (مصر کے قریب) بحیرہ روم (بحر متوسط) پہنچے، وہاں سے ترکی کے سمندر تک پہنچے، وہاں سے ایجین سمندر (بحر ایجہ) پہنچے اور وہاں سے بحر اسود۔ یہ اتنا لمبا چکر کونسی جیو اکنامکس ہے۔؟  اور یہاں کے ممالک میں بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین، ترکی، روس و جارجیا ہیں۔ پاکستان کی ستر برس کی تاریخ میں سمندری راستے سے ان ممالک سے کتنی مالیت کی تجارت کی ہے۔؟  اور بحر اسود کے ممالک تک بھی کم ترین وقت اور کم ترین خرچے پر پہنچنے کا راستہ ایران کے علاوہ تو اور کوئی بھی نہیں۔ اس تناظر میں واقعی عمران خان کی انصافین حکومت بہت خوش قسمت ہے کہ حالیہ دنوں اس پر داد و تحسین کے پھول رم جھم بارش کی طرح برسے۔ حیرت انگیز کہ مداحان عمران حکومت میں بہت سارے نام ور انقلابی اور نسبتاً اچھے امیج والے نیتا، خواص اور مبصرین بھی اگلی صف میں چوکس نظر آئے۔ لیکن برا نہ مانیں تو بہت معذرت کے ساتھ کہ بہت افسوس ہوا اتنی سطحی معلومات اور اتنی سطحی نتیجہ گیری اور اس بنیاد پر حکومت کی داد و تحسین پر کہ جو بنتی نہیں تھی۔ دعا ہے کہ اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کو اس کج فہمی اور عدم زیرکی کے شر سے محفوظ رکھے۔
خبر کا کوڈ : 941594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش