1
Tuesday 6 Jul 2021 22:28

متحدہ عرب امارات، تل ابیب کا ٹروجن ہارس

متحدہ عرب امارات، تل ابیب کا ٹروجن ہارس
تحریر: ہادی محمدی
 
دنیا کے بڑے بڑے صہیونی سرمایہ دار افراد، چاہے وہ مقبوضہ فلسطین میں مقیم ہوں یا کسی اور مغربی ملک میں رہتے ہوں، ہمیشہ سرمایہ کاری کیلئے ایسی جگہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں مکمل امن و امان اور سکیورٹی پائی جاتی ہو۔ یہ صہیونی سرمایہ دار اپنا پورا سرمایہ ہر گز مقبوضہ فلسطین میں نہیں لاتے اور مقبوضہ سرزمین کو اپنی اقتصادی سرگرمیوں کا محور و مرکز قرار نہیں دیتے۔ اس کی اصلی اور بنیادی وجہ صہیونی رژیم میں پائے جانے والا سیاسی عدم استحکام اور مبہم مستقبل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حتی صہیونی سرمایہ دار افراد بھی صہیونی رژیم اور مقبوضہ فلسطین میں اپنا سرمایہ محفوظ محسوس نہیں کرتے اور دنیا کے مختلف کونوں میں سرمایہ کاری کیلئے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
 
ان صہیونی سرمایہ دار افراد نے 1970ء کے عشرے سے متحدہ عرب امارات کو اپنی طویل المیعاد اقتصادی سرگرمیوں کیلئے توجہ کا مرکز قرار دے رکھا ہے۔ لہذا خفیہ طور پر متحدہ عرب امارات کے حکام سے تعلقات قائم کر کے اسے خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ثقل بنانے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں۔ مزید برآں، ان صہیونی سرمایہ دار افراد نے غاصب صہیونی رژیم کے ذریعے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے گہرے انٹیلی جنس تعلقات بھی قائم کئے ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر تجارتی اور سیاسی تعلقات بھی استوار ہو چکے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد اپنی سرمایہ کاری کیلئے مناسب فضا فراہم کرنا ہے۔ مذکورہ بالا مطالب سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم یمن کے خلاف جاری فوجی جارحیت میں کیوں دلچسپی لے رہی ہے؟
 
یمن کی دو بندرگاہیں یعنی عدن اور حدیدہ، ایسی ہیں جو انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل بین الاقوامی تجارتی آبراہوں پر واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم نہ صرف انٹیلی جنس اور فوجی شعبوں میں یمن کے خلاف جارحیت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے میں مصروف ہے بلکہ سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب پر قابض ہو کر خطے کے اقتصادی مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ لہذا متحدہ عرب امارات اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان اعلانیہ طور پر سفارتی تعلقات کا قیام درحقیقت دو ممالک کے درمیان تعلقات کا قیام نہیں بلکہ صہیونی رژیم کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو اپنے اقتصادی، تجارتی، سیاسی اور سکیورٹی مقاصد کیلئے ایک کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرنا ہے۔
 
اگر ہم گذشتہ چند ماہ کے دوران تجارتی، انٹیلی جنس، ٹیکنالوجی، سکیورٹی، انرجی، میڈیا، سافٹ ویئر اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے درمیان انجام پانے والے معاہدوں کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ان تمام معاہدوں میں صہیونی رژیم نے متحدہ عرب امارات کو اپنی مصنوعات کے شو کیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یوں صہیونی رژیم اور صہیونی سرمایہ کار نہ صرف بڑے پیمانے پر سود کمانے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے متعلق سماجی، سکیورٹی اور سیاسی معلومات حاصل کر کے انٹیلی جنس کے شعبے میں بھی بہت کچھ حاصل کر چکے ہیں۔ ان ممالک میں سے ایک عراق ہے۔ سعودی حکمرانوں کے برعکس، صہیونی رژیم کا طریقہ کار نرم جنگ پر استوار ہے۔
 
آل سعود رژیم کا طریقہ کار شدت پسندی، دہشت گردی اور بدامنی کو فروغ دینے پر مبنی ہے۔ عراق، شام، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں تکفیری دہشت گردی کو فروغ دے کر مذموم اہداف حاصل کرنے کی کوشش سعودی حکمرانوں کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کا طریقہ کار انتہائی مکارانہ اور فریبکارانہ ہے۔ وہ اپنے اہداف ایک ملک کے ساتھ مختلف شعبوں میں معاہدے انجام دے کر حاصل کرتی ہے۔ کمیونیکیشن، سائبر اسپیس، انرجی، انٹیلی جنس، سکیورٹی، فوجی، اقتصادی، تجارتی اور حتی بینکاری شعبوں میں معاہدوں کے ذریعے صہیونی حکمران ایک ملک کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خطے میں صہیونی سرمایہ دار افراد اور کمپنیاں متحدہ عرب امارات کا نقاب استعمال کر رہے ہیں اور اماراتی کمپنیوں کے روپ میں دیگر ممالک میں اپنا انٹیلی جنس، اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔
 
صہیونی رژیم اور سرمایہ دار شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے اسلامی ممالک میں یہ ہتھکنڈہ بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ یوں صہیونی حکمران کسی قسم کی فوجی جارحیت اور اس پر ہونے والے اخراجات کے بغیر بہت خوبصورت اور پیارے انداز میں خطے کے ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس پورے منصوبے میں متحدہ عرب امارات ٹروجن ہارس کا کردار ادا کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات ایک خودمختار ریاست نہیں رہی بلکہ غاصب صہیونی رژیم کی کالونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب جبکہ گریٹر اسرائیل کی آرزو فوجی جارحیت اور مہم جوئی کے ذریعے تقریباً ناممکن ہو چکی ہے، صہیونی رژیم اور تھنک ٹینکس نے اس آرزو تک پہنچنے کیلئے یہ انتہائی چالاکی پر مبنی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لہذا خطے کے ممالک کو متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور مختلف شعبوں میں معاہدے انجام دینے سے پہلے اس حقیقت کا بخوبی جائزہ لے لینا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 941954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش