0
Thursday 8 Jul 2021 19:37

مسئلہ افغانستان کا حل کیا ہے؟

مسئلہ افغانستان کا حل کیا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

تہران میں منعقدہ بین الافغان اجلاس کے شرکاء نے افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نیک نیتی، خیرسگالی اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقدہ دو روزہ بین الافغان اجلاس  آج اختتام پذیر ہوگیا۔ اس اجلاس کے اعلامیے میں اجلاس میں شریک دونوں فریقوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے افغانستان میں قیام امن میں مدد، اس کی نیک نیتی اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فریقین افغانستان میں جاری جنگ کے خطرات اور ملک کو اس سے ہونے والے نقصانات کو سمجھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسئلہ افغانستان کا حل جنگ نہیں ہے، بلکہ سب کو مل کر پرامن اور سیاسی راہ حل تلاش کرنا چاہیئے۔ تہران کے بین الافغان اجلاس کے اعلامیے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ مذاکرات پرخلوص ماحول میں انجام پائے اور تمام مسائل تفصیل سے پیش کئے گئے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فریقین، تہران اجلاس کو مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کو مضبوط بنانے کے لئے ایک نیا موقع سمجھتے ہیں۔

تہران میں منعقدہ دو روزہ بین الافغان اجلاس آج اختتام پذیر ہوگیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران قیام امن کے بعد افغانستان کی ہمہ گیر ترقی میں مدد کے لئے تیار ہے۔ گذشتہ روز ایسے حالات میں تہران، بین الافغانی مذاکرات کا میزبان بنا کہ جب نشست میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ایران میں بیک وقت افغان حکومت اور اپوزیشن کے چار مختلف وفود موجود تھے۔ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی طاقت اور جنگ میں شدت کی وجہ سے افغانستان کے حالات کی جانب سے اس ملک کے پڑوسیوں خاص طور پر ایران جیسے ملکوں کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے، کیونکہ افغانستان میں سکیورٹی بحران، مشترکہ سرحدوں پر حالات خراب کرسکتا ہے۔

افغانستان کی حکومت کے اعلیٰ وفد نے سابق وزیر داخلہ یونس قانونی کی سربراہی میں تہران کا دورہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی طالبان نے بھی اعلیٰ سطحی وفد تہران بھیجا ہے، جس کی قیادت شیر محمد استنکزئی نے کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان بھی بین الافغانی مذاکرات میں شرکت کا سنجیدہ عزم رکھتے ہیں۔ پہلی بار سن دو ہزار اٹھارہ کے اواخر میں طالبان کی میزبانی کا ایران نے اعلان کیا تھا اور یہ بھی بتایا گیا کہ افغانستان کی حکومت کو اس کی اطلاع تھی اور تہران کی جانب سے طالبان کی میزبانی کا مقصد، افغانستان میں سکیورٹی حالات میں بہتری بتایا گیا تھا۔ اسی دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک نیوز ایجنسی سے گفتگو میں اعتراف کیا تھا کہ خانہ جنگي اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے طالبان، اپنے اقتدار کے دور میں ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہيں کر پائے۔

پاکستان سے شائع ہونے والے اخبار جنگ کے شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق
افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی دو عشروں سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے اثرات کا شمار ممکن نہیں، انسانی ہلاکتوں اور معاشی لاگتوں کے اعداد و شمار تو ممکن ہے، لیکن اس کے دیگر نقصانات کا شمار کیسے ہو۔ اکتوبر 2001ء سے اپریل 2021ء تک ان 20 برس کے دوران جنگ میں دو لاکھ 41 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں 71 ہزار 344 شہری، دو ہزار 442 امریکی فوجی، 78 ہزار 314 افغان سکیورٹی اہلکار اور 84 ہزار 191 عسکریت پسندوں کی ہلاکتیں شامل ہیں۔ پاکستان میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 67 ہزار ہے۔ جنگ پر اب تک امریکہ کے تین ہزار چھے سو کھرب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے ”کاسٹ آف وار پروجیکٹ“ کے مطابق اخراجات میں افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے آپریشنز بھی شامل ہیں۔ ان میں پینٹاگون کے بجٹ میں 443 ارب ڈالرز کا اضافہ، سابق فوجیوں کی دیکھ بھال کے لیے تین سو ارب ڈالرز، جنوبی ایشیائی ممالک میں فوجی تعیناتیوں کے لیے 530 ارب ڈالر، قرض اور بیرون ملک ہنگامی فنڈز کی مد میں خرچ کیے جانے والے ساٹھ ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔

معروف تجزیہ نگار محمود شام کے مطابق افغان شہری جو 40 سال سے جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کی قومی کرنسی بہت مستحکم ہے۔ ایک افغانی 0.013 ڈالر کے برابر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی 8 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ امریکہ یہاں مجموعی طور پر 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکا ہے۔ صرف جنگی اخراجات 933 ارب ڈالر ہیں۔ امریکی ذرائع کے مطابق ان 20 سال میں 241000 انسان مارے گئے۔ 71344سویلین، 2400 امریکی، 78314 افغان فوجی اور پولیس اہل کار اور 84191 امریکہ کے مخالف جو امارات اسلامیہ کے نزدیک شہدائے افغانستان ہیں، جن کیلئے ملک میں جگہ جگہ الگ شہداء قبرستان ہیں۔ 20 ہزار امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد معذور ہوگئی ہے۔ یہ تو امریکی قوم، دانشور، تجزیہ کار سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ یہ جو 20 سال، دو ٹریلین ڈالر اور اتنے انسان ضائع ہوئے ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق تین کروڑ 90 لاکھ آبادی پر مشتمل 421 اضلاع میں سے ایک تہائی سے زیادہ پر ’’طالبان‘‘ باقاعدہ حکومت کر رہے ہیں۔

پوری دنیا میں"خدشہ" ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوتے ہی افغانستان پر طالبان کا راج قائم ہو جائے گا۔ یہی امارت اسلامیہ کا ترجمان ماہنامہ "شریعت" کہتا ہے، اس میں تو ان تیاریوں کی تفصیلات بھی دی جا رہی ہیں کہ استعمار سے آزادی کے بعد امارت اسلامیہ کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ ان کے موجودہ سربراہ کا کہنا ہے: ’’افغانستان سے بیرونی قوتوں کے انخلا کے بعد امارات اسلامیہ چاہتی ہے کہ ایک خالص اسلامی نظام کے سائے تلے ملک کی تعمیر نَو اور ترقی کے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ملک کے اعلیٰ مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار کیا جائے، تاکہ ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے۔ شہر اور دیہات آباد ہوں۔ ہم وطن شہریوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔‘‘ امارت اسلامیہ کا ایک کمیشن برائے دعوت و ارشاد سارے ملک میں بطور خاص اسی سلسلے میں زبانی اور عملی طور پر کوششیں کر رہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھی یہ متفقہ پیش گوئی ہے کہ ’’امریکی فوج کے جاتے ہی 6 ماہ کے اندر افغان حکومت زمیں بوس ہو جائے گی۔‘‘

مستقبل کی قیادت ملا محمد عمر کے صاحبزادے 30 سالہ ملا محمد یعقوب کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ طالبان پاکستان، ایران، چین، بھارت۔ کسی کو بھی افغان معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امارات اسلامیہ آئندہ نظام حکومت کے بارے میں بالکل واضح ہے۔ انتخابات اور جمہوریت کو وہ افغان قوم کی تمنّا نہیں قرار دیتی۔ وہ قاطعیت سے کہتے ہیں کہ افغان قوم کی آرزو اسلامی نظام ہے، جو ساری افغان اکائیوں سے مل کر قائم کیا جائے گا۔ پاکستان کی پالیسیوں کے لئے امارات اسلامیہ کا تاثر کیا ہے۔ اس کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کے افغان ٹی وی سے انٹرویو کا یہ آخری جملہ ملاحظہ کریں۔ ’’اگر ہمارے فیصلے پاکستان کے ہاتھ میں ہوتے تو امریکہ کب کا اپنے مشن میں کامیاب ہوچکا ہوتا اور ہمیں سرنڈر کرکے کب سے ہاتھ پیر باندھ کر کسی کے حوالے کر دیا گیا ہوتا۔" بہرحال ان کشیدہ حالات میں تہران میں منعقدہ بین الافغان اجلاس ایک روشنی کی کرن اور افغانستان میں قیام امن کے لئیے بہتر قدم ثابت ہوسکتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ متعلقہ فریق کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 942328
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش