8
Wednesday 14 Jul 2021 19:46

افغانستان کی صورتحال سے متعلق جواب طلب سوالات

افغانستان کی صورتحال سے متعلق جواب طلب سوالات
تحریر: محمد سلمان مہدی

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی قیادت میں نیٹو ایساف افواج پچھلے بیس برسوں سے افغانستان میں موجود ہیں۔ نائن الیون 2001ء کو امریکا میں دہشت گردی کے واقعات میں اڑھائی تا تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی حکومت نے اس کا الزام القاعدہ پر لگایا۔ چونکہ القاعدہ کے سربراہ سعودی عرب کے شہری اسامہ بن لادن ان دنوں افغانستان میں پناہ گزین تھے اور افغانستان پر ان دنوں طالبان کا کنٹرول تھا۔ اس لیے افغانستان پر امریکا نے جنگ مسلط کر دی۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دنیا کے وہ تین ممالک تھے، جنہوں نے طالبان کو افغانستان کا حکمران مان لیا تھا۔ بین الاقوامی سیاست میں یہ تینوں ممالک امریکی بلاک کا حصہ رہتے آئے ہیں۔ نائن الیون حملوں سے پہلے ہی ان ممالک کی طرف سے پہلے سے ہی کوششیں کی جا رہی تھیں کہ طالبان اسامہ بن لادن کو ملک بدر کر دیں یا حوالے کر دیں۔ کیونکہ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں میں بھی بم دھماکے ہوئے تھے۔ ان کا الزام پہلے سے ہی القاعدہ پر تھا۔ سال 1996ء تک اسامہ بن لادن نے پانچ برس سوڈان میں زندگی بسر کی۔ افغانستان سے وہ سوڈان آئے تھے اور جب سوڈانی حکومت نے انہیں ملک بدر کر دیا تو وہ دوبارہ افغانستان آدھمکے۔ یاد رہے کہ افغانستان 1970ء کے عشرے کے آخری تین برسوں سے 1980ء کے پورے عشرے تک امریکی سرمایہ دارانہ بلاک کی پراکسی جنگ کا اکھاڑہ بنا رہا اور سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے انہی نام نہاد مجاہدین ہی کی صفوں میں سے ایک نیا ٹولہ بنام طالبان دنیا کے سامنے آیا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو امریکی بلاک کی افغانستان میں موجودگی کی کہانی نائن الیون کے بعد سے شروع نہیں ہوتی بلکہ 1970ء کے عشرے سے شروع ہوتی ہے۔

یعنی افغانستان کوئی ایسی سرزمین نہیں کہ جو امریکی بلاک کے ممالک کی حکومت، افواج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے لیے اجنبی یا نئی ہو۔ تو کیا وجہ ہے کہ نائن الیون 2001ء کے بعد افغانستان پر جنگ مسلط کرکے قابض ہو جانے والی امریکی و اتحادی افواج یعنی نیٹو ایساف فورسز افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام رہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جونہی امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا عمل ہونے لگا تو یکایک طالبان افغانستان کے مختلف اضلاع پر کنٹرول کرتے چلے گئے۔ وہ حکومت جسے انٹرنیشنل کمیونٹی اتفاق رائے سے قبول کرتی چلی آرہی ہے اور وہ سکیورٹی فورسز جنہیں نیٹو ایساف عنوان کے تحت امریکا کی قیادت میں تیار کیا گیا ہے، وہ اتنی بے بس دکھائی دے رہی ہے کہ طالبان یکے بعد دیگرے ان کے زیر انتظام علاقوں پر قابض ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کے پچاسی فیصد حصے پر ان کا کنٹرول قائم ہوچکا ہے۔ تاجکستان کی سرحد پر واقع شمالی افغانستانی علاقوں سے لے کر پاکستان کی سرحد پر واقع افغانستان کے قندھار صوبے کے ضلع اسپن بولدک تک طالبان نے جھنڈے لہرا دیئے ہیں۔ ایران ازبکستان و ترکمانستان کی سرحدوں پر واقع افغانستانی علاقوں میں بھی ان کے کنٹرول کی خبریں آرہی ہیں۔ یعنی چین و تاجکستان کی سرحد سے ملحق صوبہ بدخشاں سے قندھار تک پاکستان کی سرحد سے ملحق علاقوں تک پے درپے طالبان فاتح بن کر ابھر رہے ہیں۔ یہ صرف افغانستان کی حکومت اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی نہیں ہے بلکہ ان سے بھی بڑھ کر امریکی بلاک کے ممالک کی حکومتوں اور اداروں کی ناکامی ہے، بلکہ یہ اس انٹرنیشنل کمیونٹی کی ناکامی ہے، جو افغانستان میں امریکی نیٹو ایساف فورسز اور امریکی حکومت کو لگام ڈالنے میں ناکام رہی۔

امریکا سمیت پورا نیٹو بلاک اور اس کے نان نیٹو اتحادی مل جل کر بھی افغانستان کو ایک کامیاب ماڈل بنانے میں ناکام رہے۔ نہ تو وہ افغانستان میں مستحکم و مضبوط سکیورٹی ادارے اور فورسز قائم کرکے دے سکے اور نہ ہی وہ طالبان کو قانون کی حکمرانی کا پابند بناسکے۔ لیکن اسے ناکامی تب کہا جا سکتا ہے کہ اگر واقعی امریکی نیٹو ایساف فورسز افغانستان میں کسی نیک مقصد اور ان اہداف کے حصول کے لیے وارد ہوئی تھی کہ جو اس نے دنیا کے سامنے پیش کیے۔ امریکی حکومت نے انسداد دہشت گردی اور انسداد بغاوت و شورش کے عنوان سے خطیر رقم مختص کی اور دیگر ممالک کو بھی دی۔ اتنے بڑے خرچے کے بعد بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن جب صدر اوبامہ دور حکومت میں نائب صدر تھے، تب بھی افغانستان کا محاذ گرم تھا۔ اب اگر اس صورتحال کو دوسرے رخ سے دیکھیں تو لگتا یہ ہے کہ امریکا کا اصل ہدف، اصل مقصد افغانستان کو مستحکم کرنا تھا ہی نہیں۔ بلکہ موجودہ صورتحال تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا اور طالبان کے بعض نیتاؤں کے مابین پس پردہ معاملات طے تھے۔ جتنا نقصان اور شور و غوغا میڈیا میں تھا، زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ طالبان نے اتنی تعداد میں اتنے برسوں میں امریکی قابض فوجی نہیں مارے اور نہ ہی سرینڈر پر مجبور کیے، جتنے افغانستانی فوجی مارے اور سرینڈر پر مجبور کیے۔ بہت بڑا فرق ہے دونوں کے مابین۔ آج سی این این نے ایک وڈیو خبر جاری کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ انہوں نے افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے 22 کمانڈوز کو بے دردی سے مار ڈالا، حالانکہ وہ سرینڈر کر رہے تھے۔ ترکمانستان کی سرحد پر واقع علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ طالبان اس کی تردید کر رہے ہیں۔

اسی طرح افغانی ہزارہ شیعہ آبادی سے متعلق بھی خبریں اور وڈیو فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکیں ہیں۔ ان پر بھی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے علاقوں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ بعض مقامات پر مقامی آبادی اور سکیورٹی فورسز مزاحمت میں مصروف ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کا دعویٰ ہے کہ تین ماہ میں حالات پر قابو پا لیا جائے گا۔ لیکن اس وقت افغانستان میں آباد انسانوں کا ایک ایک لمحہ بے قابو ہے۔ خواتین کو گھر سے نکلنے پر ڈنڈوں اور لاٹھی سے بری طرح مارے جانے کی وڈیوز بھی وائرل ہیں۔ مردوں پر بھی اسی نوعیت کا بدترین تشدد ہوا، ایسی وڈیوز بھی وائرل ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے اور افغانستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق اداروں نے بھی افغانستان میں انسانی المیہ کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی ہے۔ ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کے مطابق حالیہ دنوں میں دو لاکھ ستر ہزار افغانیوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ صوبہ ہرات کے سابق گورنر نے مقاومتی محاذ کے پلیٹ فارم سے ہرات میں طالبان سے لڑنے کے لیے پوزیشن سنبھال لی ہے۔ اگر طالبان کا یہ دعویٰ سچا ہے کہ اس نے پچاسی فیصد افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے تو سوال یہ ہے کہ غیر طالبان افغانی علاقوں کو فتح کرکے وہاں کے عوام پر طالبان نظام مسلط کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ تو ڈنڈے کے زور پر آزاد انسانوں اور اختلاف رائے رکھنے والے مسلمانوں پر اپنی مرضی مسلط کرنا ہے۔ طالبان کے عمل سے صاف ظاہر ہے کہ وہ دیگر افغانیوں کے ساتھ اقتدار میں شراکت کی بجائے اپنی ڈکٹیٹر شپ نافذ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ پہلے کرچکے ہیں۔ یعنی اسلامی جمہوریہ افغانستان ایک اور مرتبہ طالبان کی امارات بنایا جا رہا ہے۔

ریاست پاکستان کی جانب سے تو یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سات لاکھ تا دس لاکھ افغانی پاکستان کے سرحدی علاقوں کی طرف ہجرت کرکے مہاجر کی حیثیت سے آباد ہوسکتے ہیں، ایسا امکان ہے۔ بظاہر تو پوری دنیا افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل پر متفق ہے۔ پاکستان، ایران سمیت سارے ہی سبھی افغانستانی اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل شراکت اقتدار کی تائید کر رہے ہیں۔ افغانستان کے دیگر فریق تو اس پر راضی ہیں، لیکن طالبان دیگر افغانیوں کے اس حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اب یہاں یہ حقیقت یاد رہے کہ طالبان قیادت دوحہ میں مقیم ہے، یعنی قطر کے دارالحکومت میں۔ قطر میں امریکی فوجی اڈہ بھی ہے۔ اسی طرح بعض طالبان رہنماء پاکستان میں مقیم رہے ہیں۔ یعنی امریکا، قطر اور پاکستان طالبان کو  افغانستان کے مسئلے کے عادلانہ جمہوری سیاسی حل پر آمادہ کرنے کی بھرپور صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ طالبان کسی کو خاطر میں لائے بغیر افغانستان پر دیگر لسانی و مسلکی اکائیوں کے وجود اور حقوق کا انکار کرکے من مانی کرنا چاہتے ہیں۔؟ طالبان میں اتنا دم خم کب سے آگیا کہ وہ سب کے حصے کو کھا جائے۔ سوالات ہی سوالات ہیں کہ جن کے جواب معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سابق صدر حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، یونس قانونی، کریم خلیلی، محمد محقق، سلام رحیمی، عبدالرشید دوستم، گلبدین حکمتیار، سید سادات منصور نادری، عنایت اللہ بلیغ اور فاطمہ گیلانی پر مشتمل گیارہ رکنی نمائندہ وفد رواں ہفتے قطر میں طالبان کی سیاسی قیادت سے مذاکرات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ خدا کرے کہ طالبان بین الافغان مفاہمت پر راضی ہوں اور اس پر مستقل مزاجی سے قائم بھی رہیں، ورنہ صرف افغانستان کا امن و سکون تباہ نہیں ہوگا، بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ جو کوئی بھی طالبان پر سرمایہ کاری کرکے دیگر افغان نمائندگان کو شراکت اقتدار سے محروم کرنے کے ایجنڈا پر عمل کر رہا ہے، ماضی گواہ ہے کہ تباہی و بربادی اس کا بھی مقدر ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 943411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش