0
Thursday 15 Jul 2021 16:16

افغانستان، دوغلی پالیسی اور رویئے

افغانستان، دوغلی پالیسی اور رویئے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کہا جا رہا تھا کہ ہم بدل گئے ہیں، ہماری پالیسی اسی اور نوے کی دہائی والی نہیں رہی، جس سے ہمارا اپنا ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا تھا اور شدت پسندی و دہشت گردی نے ہماری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اب افغانستان میں ہماری کوئی ترجیح نہیں، ہماری کوئی پسند نا پسند نہیں، افغان عوام جسے چاہیں طاقت و اقتدار میں لے آئیں، ہم ویلکم کہیں گے۔۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے خیالات ہماری حکومت اور فورسز کے ذمہ داران سے سنتے آرہے تھے۔ میڈیا میں ایسی بہت سی بریفنگز ریکارڈ پر موجود ہیں، جو ایسے خیالات و پالیسیز کے اظہار  کے طور پیش کی جا سکتی ہیں، مگر حقیقت اس سے مختلف ہے یا ایسی ہی ہے، جیسا بتایا گیا تھا، جیسا اظہار کیا گیا تھا، کیا ہم نے تاریخ کی تلخیوں سے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں۔؟ کیا ہم نے دوغلی پالیسی کو ختم کر دیا ہے یا ابھی تک ویسے ہی چل رہی ہے، اس وقت جب افغانستان میں طالبان فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں اور افغان حکومت اور سکیورٹی اہلکار سرنڈر کرتے ہوئے شہروں کے شہر ان کے حوالے کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے، جس پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

جو کچھ ہمارے ہمسائے میں ہو رہا ہے، یہ ہمارے خطے کی مستقبل کی تصویر بن رہی ہے، مستقبل کی تصویر میں ہر کوئی اپنے رنگ بھرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایک آرٹسٹ ایک تصویر بنا رہا ہے، مگر بہت سے اور لوگ چاہ رہے ہیں کہ اس میں اپنے من پسند رنگ بھر دیئے جائیں، پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے۔ جب سے طالبان نے موجودہ فیز کا آغاز کیا ہے، ہمارے سابق قبائلی علاقوں، کے پی کے اور بلوچستان کے کئی شہروں میں افغانستان جا کر طالبان کیساتھ نام نہاد جہاد میں شریک ہونے والے پاکستانی شہریوں کی لاشیں آرہی ہیں اور ان کے جنازے بھی ہو رہے ہیں، ان جنازوں میں افغان طالبان کے جھنڈے بھی لہرائے جا رہے ہیں، انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا جا رہا ہے، نعرے بھی سنائی دے رہے ہیں، جنازوں کے استقبال ہو رہے ہیں، مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں، کوئی ان پر پرچے کاٹنے والا نہیں، کوئی انہیں غایب کرنے والا نہیں ہے۔

اگر ہم افغانستان کی موجودہ حکومت کو قبول کرتے ہیں تو پھر یہ سب کیا تماشا ہے کہ چمن میں طالبان کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں، جشن فتح منایا جا رہا ہے، کوئٹہ میں ریلیاں نکل رہی ہیں، پشاور میں طالبانی شریعت کے نفاذ کے عزم کا اظہار ہو رہا ہے؟ کیا یہ منافقت اور دوغلی پالیسی نہیں؟ ہمارے وزیر خارجہ اور اسمبلی کے بعض ممبران طالبان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی فیورٹ نہیں، جبکہ طالبان کی یہ حالت ہے کہ وہ بھارت کیساتھ اپنے تعلقات کو اس قدر بڑھا چکے ہیں کہ بھارتی وزیر خارجہ ان کیساتھ کانفرنسز میں مسلسل نظر آیا ہے، جبکہ طالبان کے ترجمان برملا کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ ادھر گذشتہ روز طالبان نے چمن سے ملحق سرحدی شہر سپن بولدک پر قبضہ کیا ہے تو چمن کیساتھ مشترک سرحد کو بند کر دیا ہے، تاکہ کوئی پاکستان نہ جا سکے، حالانکہ چمن اور افغان بارڈر پر ان کے نام نہاد مجاہدین کی لاشیں وصول کرنے اور جشن منانے کیلئے جمع بھی ہوئے تھے۔

کیا پاکستان سے کسی بھی دوسرے ملک میں جا کے لڑنے اور وہاں کے نظام و حکومتوں سے ٹکرانے والوں کو کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔؟ اگر ایسا ہے تو حرم ہائے مقدس کربلا و شام میں جا کر مقدسات کے دفاع میں حصہ لینے کے جرم میں سینکڑوں شیعہ جوانوں کو غائب کرکے انہیں شدید ترین تشدد اور اذیتوں کا شکار کیوں کیا جا رہا ہے۔؟ یہ دوغلا پن کیوں مسلط ہے؟ اور اس دوغلے پن، منافقانہ و متعصبانہ انداز سے پاکستان کی کوئی خدمت کی جا سکتی ہے یا پاکستان کو کمزور کیا جاتا ہے۔؟ جو لوگ طالبان میں تبدیلی کے گیت گا رہے تھے، ان کیلئے ہم تو پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ طالبان کی متشدد سوچ اور جامد فکر نیز ان میں پائے جانے والے تعصب و نیز دین کے بارے ان کی محدود معلومات و فکر سے ان میں کوئی تبدیلی آنا ممکن نہیں، بہت سے لوگ کہہ رہے تھے کہ طالبان بہت بدل گئے ہیں، انہوں نے وقت سے بہت کچھ سیکھا ہے، اب کی بار وہ شہروں کو فتح کرتے ہوئے لوگوں کو امان دے رہے ہیں بلکہ فورسز کے لوگ جو سرنڈر ہوتے ہیں، انہیں بھی قبول کرتے ہیں۔

مگر ایسی ویڈیوز بھی سامنے آرہی ہیں، جن میں ان کی روایتی سفاکیت و دہشت پسندی چھلک کر باہر آرہی ہے، کئی ایک ویڈیوز میں انہیں سرنڈر ہونے والے فوجیوں کو گولیوں سے بھونتے دیکھا جا سکتا ہے، ایسے میں کیسے ان پہ اعتبار کیا جائے کہ وہ اپنے بدترین مخالف عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کو قبول کر لیں گے۔؟ بالخصوص مزار شریف، بامیان اور دیگر شمالی علاقوں کے لوگوں کو کیسے قبول کریں گے جبکہ ان علاقوں کے لوگوں نے ان کے خلاف عوامی لشکر تشکیل دیئے ہیں، ان علاقوں میں بسنے والوں نے طالبان سے جو زخم کھائے ہیں، اب ان کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ ان پر ایک بار پھر اعتماد کریں اور ان کی سفاکیت کا نشانہ بنیں، طالبان کا یہ مسئلہ ہے کہ انہوں نے اپنا نام امارت اسلامی رکھا ہوا ہے، جن کی کوئی سرحد نہیں، یہ افغانستان تک محدود نہیں ہیں، ہر ملک ملک ماست کا نظریہ رکھتے ہیں، اس لئے ان سے دیگر ملکوں بالخصوص افغانستان سے متصل سرحدی ممالک کو خاصی پریشانی ہے۔

طالبان بیعت کا نظام رکھتے ہیں، جبکہ افغانستان کی دیگر اقوام جو طالبان کیساتھ ہم فکر نہیں ہیں، انہیں ان کی بیعت قبول نہیں۔ لہذا انہیں ان کی رعیت بن کر رہنا ہوگا، اسی وجہ سے طالبان کے طاقت میں آتے ہی دیگر ممالک میں طالبان کے ستائے لوگوں کی ہجرت وسیع پیمانے پہ شروع ہوچکی ہے، پاکستان کو بھی یہ فکر لاحق ہے کہ افغانستان سے بڑی تعداد میں لوگ مہاجر بن کر پاکستان آسکتے ہیں جبکہ برسر اقتدار حکومت کی موجودگی میں افغانستان میں پاکستان مخالف تحریک طالبان، بلوچ علیحدگی پسند اور داعش نے اپنے مراکز بنا لیئے تھے، جو افغان طالبان کے بر سر اقتدار آتے ہی یا تو طالبان میں ضم ہو جائیں گے یا پھر مہاجرین کے روپ میں پاکستان شفٹ ہوسکتے ہیں اور پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے دہشت گردی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

اس خطرے کی عملی تفسیر گذشتہ چند دنوں میں سابق قبائلی علاقوں کرم، وزیرستان اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کے سانحات بھی ہیں، جن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کا اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔ داعش جس نے صوبہ ننگر ہار میں اپنے مراکز بنائے ہوئے ہیں، جس کی سرحد پاکستان کیساتھ ملتی ہے، میں بھی زیادہ تر پاکستانی پختون ہیں، جو ماضی میں تحریک طالبان میں شامل تھے اور اختلافات کے باعث الگ دھڑا بنایا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کا زیادہ تر تعلق مہمند ایجنسی سے ہے، ویسے تو طالبان تحریک اور افغان طالبان کو الگ الگ سمجھا جاتا ہے مگر کئی ایک چیزیں ان میں مشترک ہیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک طالبان کو افغان طالبان کی چھتری میسر رہی ہے اور مستقبل میں بھی رہیگی۔

بہرحال موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک بار پھر شدت پسندی اور زور زبردستی سے شریعت کے نفاذ کے ارادے رکھنے والوں کو نئی زندگی ملی ہے، اوپر سے تحریک انصاف کی حکومت میں طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں کی کمی نہیں، اسی وجہ سے تو روشن خیال سمجھی جانے والی تحریک انصاف کی قیادت میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی شائع کردہ ساتویں کلاس کی کتاب سے ملالہ یوسف زئی کی تصویر کو گھنائونا جرم قرار دیا گیا ہے اور کتاب کو مارکیٹ سے واپس اٹھا کر ضبط کر لیا گیا۔ ہمیں ملالہ یوسف زئی سے کچھ لینا دینا نہیں، مگر شدت پسندوں کے ڈر اور خوف سے حکومتوں کے جھکائو پر حیرت ضرور ہے، ایسے لوگ اس وقت کیا کریں گے، جب طالبان بھی دیگر افغان حکومتوں کی طرح ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کریں گے اور آر پار شریعت اسلامی نافذ کرکے اپنے گریٹر پختونستان کے قدیم منصوبے کو عملی کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 943762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش