1
Friday 16 Jul 2021 13:26

شہید غریب طوس و عاشقِ امام رضأ کی وصیت نوجوان نسل کیلئے

شہید غریب طوس و عاشقِ امام رضأ کی وصیت نوجوان نسل کیلئے
تحریر: شاہد عباس ہادی

ان کی آنکھوں میں چمک ہے، گویا وہ کسی سے کچھ کہہ رہے ہوں، جیسے پوری دنیا ان کی آنکھوں میں سمائی ہو اور وہ دنیا کو پاؤں تلے روند رہے ہوں، جیسے دنیا ان کے سامنے حقیر و پست ہو۔ شہید کی وصیت کا ہر جملہ انسان کو مادی دنیا کی قید سے آزاد کرتا ہے، ہاں! اے پاکیزہ روح! یہ دنیا فانی ہے۔ نماز، دعا، تلاوت قرآن اور مناجات سے ہی انسان کامیابی کی منازل طے کرتا ہے۔ بے شک ظلم کے خلاف جہاد کرنا الہیٰ رستہ ہے۔ یہ کربلا کا رستہ ہے، جس کی آخری منزل شہادت ہے، جو اس منزل کا مشتاق ہے، جنت اس کی مشتاق ہوتی ہے۔ 

شہید احمد مشلب کو امام رضا علیہ السلام سے بے پناہ محبت تھی، اسی وجہ سے شہید کو "غریب طوس" کہا جاتا ہے۔ شہید ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ مجھے اس نام سے پکارا جائے۔ وہ ایک بہترین جنگجو تھے، حزب الله سے خاص لگاؤ رکھتے تھے اور 17 سال کی عمر میں حزب الله کا سرگرم کارکن بن گئے۔ شہید ہر جوان کو کہا کرتے کہ "المهدی" تنظیم کا حصہ بنیں، وہ ہمیشہ کہتے کہ امام زمانہ عجل الله تعالىٰ اپنے سپاہیوں کے انتظار میں ہیں، آیا ہم میں کوئی ہے جو امام (عج) کے ظہور کیلئے زمینہ سازی کرے؟ آیا کوئی ہے جو دشمن کا مقابلہ کرے۔؟ 

شہید کو دفاع مقدس پر لکھی گئی کتاب "ھاجر در انتظار" بہت پسند تھی، وہ ہمیشہ اس کتاب کو اپنے پاس رکھتے تھے اور کبھی جدا نہ کرتے، یہ کتاب ایک ایسے شہید کی داستان ہے، جو دنیا پرستی اور دنیا کی محبت سے آزاد ہوچکا تھا، شہید مشلب نے بھی دنیا کی قید و بند سے آزاد ہوکر دفاع حرم کا راستہ چنا، کیونکہ ظلم سے مقابلہ کرنے کا خواہش مند تھا۔ ظلم سے سخت نفرت کرتا تھا، اسرائیل و صہیونزم سے مقابلہ کرنے کا عاشق تھا۔ وہ کسی کو اجازت نہیں دیتا تھا کہ کوئی بھی کسی دوسرے پر ظلم کرے، اپنے اور دوسروں کے حقوق ضائع کرنے کے متعلق حساس تھا۔ کسی بھی معاملے میں مظلوموں کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔

انسانی اقدار کا متحمل تھا، راستے میں اگر کوئی پتھر آجاتا تو وہ اسے اٹھا کر دور ہٹا دیتا تھا اور کہا کرتا کہ احمد نہیں چاہتا کہ کبھی بھی کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے، وہ ہمیشہ اپنے کام خود کرتا حتیٰ کہ کچن کے کام امی کیلئے انجام دیتا۔ شہید مشلب نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ امیر گھرانہ تھا، لہذا شہید کو کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔ جب ‏ایک دوست نے شہید مشلب سے پوچھا: مال و دولت اور BMW گاڑی چھوڑ کر دفاع حرم کیلے آنے کی کوئی وجہ؟ کیا کسی چیز کی کمی تھی کہ جس نے آپ کو مدافع حرم بنایا۔؟ شہید نے بڑا خوبصورت جواب دیا: ہاں! عشق کی کمی تھی مجھ میں، جس نے مجھے مدافع حرم ‎حضرت زینب سلام الله علیها بنایا۔ اسی لئے شہید کی آنکھوں میں مکتب شہادت سے عشق نظر آتا ہے۔

حقیقت ہے یہ پاکیزہ عشق، عشق حقیقی انسان کو دنیاوی لذتوں سے بہت دور لے جاتا ہے۔ آج ہم دنیاوی لذتوں میں غرق ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ کس پر ظلم ہو رہا ہے؟ کون ظلم کر رہا ہے؟ ہم اپنی عیش و عشرت میں مست ہوچکے ہیں۔ ہمیں نہ ظالم کا پتہ اور نہ مظلوم کا خیال جبکہ وہ ایسے جوان تھے، جنہوں نے مال و دولت اور عیش و عشرت کو ٹھوکر ماری اور باطل طاقتوں کا سر کچلنے نکل پڑے، خونخوار لشکروں کا مقابلہ کیا اور شہادت کو گلے لگا لیا۔ اے شہید! ہماری مدد فرمائیں، تاکہ ہمارے اندر بھی مکتب شہادت سے عشق پیدا ہو، ہماری منزل بھی شہادت ہو۔ حضرت زینب (س) کے سامنے ہماری شفاعت کیجئے کہ وہ ہمیں بھی مدافعان حرم اور مدافعان چادر زینب میں قرار دیں۔ آمین
خبر کا کوڈ : 943769
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش