0
Friday 16 Jul 2021 16:30

افغانستان خطے کیلئے ابھرتا سکیورٹی چیلنج

افغانستان خطے کیلئے ابھرتا سکیورٹی چیلنج
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کچھ عرصہ پہلے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے بات ہوئی، وہ افغانستان کے حوالے سے بہت فکر مند تھے۔ افغانستان کے لوگ اب جنگ کے عادی ہوچکے ہیں، ایک طاقت جائے دوسری آئے یا تیسری آجائے، کوئی نہ ہو تو خود آپس میں لڑ لیں گے۔ اصل خطرہ افغانستان کے پڑوسیوں کو ہے۔ اسی لیے افغانستان کے پڑوسی اس پوری صورتحال میں اپنی سفارتی کوششوں کو بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے میں ایران نے تمام گروپوں کو تہران میں بلایا اور انہیں آپس میں بات چیت کا بھرپور موقع دیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو سنیں اور اپنے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ جنگ کے ذریعے طاقت کے زور پر کسی بھی گروپ کے لیے پورے افغانستان پر قبضہ کرنا بہت مشکل ہے اور اس میں لاکھوں جانیں ضائع ہو جائیں گی۔ طالبان نے بارڈر ایریاز اور اندرونی علاقوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بڑی تیزی سے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہ، تاکہ وہ مذاکرات میں اپنا پلڑا بھاری رکھ سکیں، مگر یہ مسئلہ کو بڑھا رہا ہے۔

افغان طالبان تمام تر قوت و طاقت کے باوجود ابھی تک کسی افغان صوبے کے دارالحکومت پر قبضہ نہیں کرسکے۔ تمام صوبوں کے دارالحکومت افغانستان کی کابل حکومت کے قبضے میں ہیں۔ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ افغان گورنمنٹ کو پہلے تو یہ امید ہی نہیں تھی کہ امریکی یوں چلے جائیں گے، جب انہیں معلوم ہوا کہ اب تو یہ جا ہی رہے ہیں تو انہوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، وہ بڑے شہروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے دس بڑے شہروں میں سے کوئی بھی طالبان کی دسترس میں نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے افغانستان ہمیشہ ایک درد سر رہا ہے۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی جس ملک نے ہماری مخالفت کی، وہ انڈیا نہیں تھا بلکہ افغانستان تھا۔ اسی طرح افغانستان میں بلوچ انتہاء پسندوں کو ٹھکانے فراہم کیے گئے، ان کو تربیتی کیمپوں کی سہولت دی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق سولہ ہزار بلوچ فراری افغانستان میں ہیں اور باقی پوری دنیا میں ان کی تعداد فقط دو ہزار ہے۔

یہ لوگ پاکستان میں چینی کونسل خانے اور انجئنرز پر حملوں سمیت درجنوں قتل و غارت کے واقعات میں ملوث ہیں۔ یہ انڈیا کی پاکستان مخالف پراکسی کا اہم اثاثہ ہیں۔ اسی طرح افغان گورنمنٹ بھی انہیں حسب ضرورت استعمال کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان اور پشتون قوم پرستوں کو بھی کابل کی شہ اور تعاون حاصل ہے۔ پاکستان افغانستان میں طالبان کی کامیابی کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ انڈیا نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے جو پاکستان مخالف ذہن بنایا تھا، اسی طرح بلوچ علیحدگی پسندوں اور تحریک طالبان کی شکل میں جو اثاثہ جات بنائے تھے، ہر دو اب خظرے میں ہیں۔ چمن سے طور خم تک طالبان کا آجانا اپنے اندر بڑے پیغامات رکھتا ہے۔ اسی لیے بلوچ دہشتگرد، تحریک طالبان کے عناصر بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔ بلوچ دہشتگردوں نے افغانستان سے نکالنے کی اپیلیں بھی کرنا شروع کر دی ہیں، بالخصوص بھارت سے مدد مانگی جا رہی ہے۔

ممکن ہے جس طرح عراق سے منافقین خلق نامی انسان دشمن تنظیم کے مغربی اثاثوں کو یورپ کے دور دراز ملکوں میں منتقل کیا گیا تھا، اب اسی طرح کا کام انڈیا اور دیگر ممالک بھی کریں۔ مگر عملی طور پر پاکستان کو ان عناصر سے گلوخلاصی مل جائے گی، البتہ کابل حکومت اتنی کمزور نہیں ہے کہ چند دنوں میں گر جائے۔ طالبان کو بہرحال کسی معاہدہ پر آنا پڑے گا۔ تاشقند میں خطے کے ممالک کی کانفرنس میں اشرف غنی نے پھر بلیم گیم کی اور مسائل کا رخ پاکستان کی طرف کیا۔ عمران خان   نے درست کہا کہ پاکستان کو بلیم گیم کا شکار کیا جاتا ہے، ہم افغانستان کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بہتر ہزار لوگ شہید ہوئے اور تیس لاکھ مہاجرین ہمارے ہاں موجود ہیں، اب اگر جنگ ہوتی ہے تو مزید آئیں گے۔ اس لیے ہم افغانستان میں امن کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے درست نشاندہی کی کہ افغانستان میں امریکی کردار انتہائی منفی ہے، اس نے طالبان سے اس وقت بات چیت کی، جب وہ افغانستان چھوڑنے کی تاریخ دے چکے تھے، انہوں نے اس وقت بات نہیں کی، جب ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے۔ یوں انہوں نے افغان صدر کو دشمن اور دوست کو سمجھنے کا مشورہ دیا۔

ویسے امریکہ کا ذکر آیا تو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ امریکہ یہاں افغانستان کی تعمیر نو کے لیے نہیں آیا تھا۔ وہ خطے پر حکمران بن کر ایک قابض قوت کے طور پر آیا تھا۔ بیس سال تک مسلسل خطے کو بدامن کیے رکھا، چین، ایران اور روس پر نظر رکھی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم ہوگئی ہے۔ اب ہمیں اگلے بیس برس تک چین کے خلاف ایک اسٹریٹجک جنگ لڑنا ہوگی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایک منقسم اور منتشر افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں تو انہوں نے صاف بتا دیا کہ ہم افغانیوں کو ایک قوم بنانے کے لیے نہیں گئے تھے۔ اس پورے منظر نامے میں ترکی امریکہ کی چاپلوسی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مفادات بٹورنے کے چکر میں ہے۔ کابل ائرپورٹ کے تحفظ کی بات چیت امریکی وزیر خارجہ سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح ترک صدر نے اسرائیلی صدر سے بات چیت کی ہے، اس سب کا مقصد یہ ہے کہ ترکی امریکہ سے ایف 35 جنگی طیارے حاصل کر لے۔ یقیناً ترکی کو اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی، اسی لیے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ترکی کو اس حوالے سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ افغانستان ایک بار دنیا میں فلش پوائنٹ بن گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 943770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش