1
4
Sunday 18 Jul 2021 00:30

پاکستان کی جیواکنامکس خارجہ پالیسی کی مایوس کن سمت

پاکستان کی جیواکنامکس خارجہ پالیسی کی مایوس کن سمت
تحریر: محمد سلمان مہدی

وزیراعظم عمران خان کی انصافین حکومت کے دور میں دعویٰ یہ ہوا کہ پاکستان نے جیو پولیٹیکل کی بجائے خارجہ پالیسی کو مشرف بہ جیو اکنامکس کر دیا ہے، یعنی اس خارجہ پالیسی میں فوکس اقتصادی تعاون اور تجارت پر ہے، لیکن اس دعوے کے بعد کی صورتحال تو کچھ اور ہی ظاہر کرتی ہے اور یہی اس تحریر کا عنوان ہے کہ پاکستان کی جیو اکنامکس خارجہ پالیسی آخرکار کس سمت میں سفر کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان حکومت کا اعلیٰ سطحی وفد ازبکستان کا دورہ کرچکا ہے۔ اس دورے سے متعلق پاکستان کے سفیر در ازبکستان سید علی اسد گیلانی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ازبکستان پاکستانی سمندر کے راستے دنیا تک رسائی چاہتا ہے۔ ساتھ ہی ایک حیرت انگیز نکتہ یہ بھی بیان کیا کہ پاکستان کا ارادہ ہے کہ براستہ ازبکستان یورپ تک برآمدات بڑھائے۔ جہاں تک معاملہ ہے پاکستان و ابکستان دو طرفہ اقتصادی تعلقات کا تو یہ دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے۔ لیکن قباحت یہ ہے کہ ان دونوں کو یہ تجارت براستہ افغانستان کرنا ہوگی کہ جہاں آج کل ان راستوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ ازبکستان دنیا تک رسائی چاہتا ہے یا دنیا ازبکستان تک رسائی چاہتی ہے تو اس میں دونوں کے پاس بہتر متبادل راستے موجود ہیں۔ سعودی عرب اور براعظم افریقہ کی حد تک تو مانا جاسکتا ہے کہ ازبکستان کو یمن، سوڈان و جبوتی براستہ سمندر جانا ہو تو پہلے پاکستان کے سمندر تک آئے اور اسی طرح مذکورہ ممالک یہ راستہ ازبکستان تک پہنچنے کے لیے استعمال کریں، لیکن اگر ازبکستان کو عراق، کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، عمان پہنچنا ہے تو اس کے لیے اسے پاکستانی سمندر کی بجائے کسی اور ملک میں خشکی اور سمندر سے گزرنا ہوگا۔

یہاں پاکستان کے اس ارادے کو بھی شامل کرلیں، جو سفیر محترم علی اسد گیلانی نے بیان فرمایا، یعنی براستہ ازبکستان یورپ تک رسائی۔ افسوس ہوا یہ جان کر کہ سفیر محترم کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ خود ازبکستان کی اپنی سرحد کسی یورپی ملک سے نہیں ملتی۔ ازبکستان سے قزاقستان اور ترکمانستان کی سرحد ملتی ہے۔ قزاقستان کی سرحد روس سے ملتی ہے۔ فرض کریں کہ روس کے ذریعے یورپ سے ربط سازی کرنی ہے تو بھی یاد رہے کہ یہاں روس سے قریب ترین یوکرین کی سرحد ملتی ہے اور یوکرین اور روس کے اپنے تعلقات بہتر نہیں۔ روس و یورپ کی پٹی پر دوسرا ملک بیلاروس ہے اور اس کے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں۔ اسی پٹی پر آگے لیٹویا، ایسٹونیا اور سب سے آخری فن لینڈ ہے۔ یقیناً پاکستان کو اس پٹی کے یورپی ممالک کے ساتھ تو کوئی خاص اقتصادی تعلقات کی ضرورت نہیں ہے اور اگر پاکستان کو یورپ کے بڑے اور اہم ممالک سے تعلقات بڑھانے ہیں تو وہ کسی اور زمینی راستے سے ہی بڑھائے جاسکتے ہیں۔ فرض کر لیں کہ پاکستان براستہ افغانستان ازبکستان پہنچے، وہاں سے قزاقستان جائے اور وہاں سے براستہ کیسپیئن سمندر کسی ملک کے ذریعے یورپ سے ربط سازی کے چکر میں ہے تو بھی یہ انتہائی مضحکہ خیز تجارتی روٹ کہلائے گا، کیونکہ کیسپیئن سمندر بھی پاکستان محض ایک ہی ملک سے گذر کر پہنچ سکتا ہے، اسکے لیے پہلے افغانستان، پھر ازبکستان اور بعد ازاں قزاقستان تک کیوں جائے!؟

تو پاکستان اور ازبکستان کے مابین یکایک علاقائی ربط سازی کی جوت کس نے جگائی!؟ اور اس کا اصل ہدف یا مقاصد کیا ہوسکتے ہیں!؟ بنیادی طور پر اس کے دو اہداف سمجھ میں آتے ہیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ اس حرکت کے پس پردہ  امریکی اسرائیلی سعودی بلاک کا مفاد ہے۔ امریکا کا سامراجی ہدف یہ ہے کہ اسے افغانستان کے معاملات میں فوجی مداخلت کے لیے اڈے درکار ہیں، جہاں اس کی فوجی نفری اور ساز و سامان اور خاص طور پر ڈرون میزائل حملے کرنے والے ڈرون طیاروں کو رکھنے کی جگہ کے استعمال کی اجازت مل جائے۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں ایران سے تو کوئی آسرا بالکل بھی نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے امریکا کے ساتھ فریم ورک آف کوآپریشن طے کر رکھا ہے اور رولز آف انگیجمنٹ بھی بعد ازاں طے کیے جاچکے۔ چونکہ ریاست پاکستان خود کو طالبان کی ہمدرد ظاہر کر رہی ہے، اسی لیے پاکستان اور امریکا دونوں ہی کی اسٹیبلشمنٹ افغانستان سے متعلق مشترکہ حکمت عملی یا تعاون کو خفیہ رکھنا چاہیں گی، جبکہ افغانستان کے پڑوس میں دیگر سارے ممالک پر روس اور چین کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ تاجکستان اور ترکمانستان بھی چین اور روس کے موڈ کو سمجھتے ہیں اور وہاں امریکا کو اعلانیہ اڈے استعمال کرنے کی اجازت کا حصول ماضی کی نسبت بہت زیادہ مشکل ہوچکا ہے۔ لے دے کر ازبکستان ایک ایسا ملک بچتا ہے، جو کسی حد تک امریکا کے ساتھ فوجی تعلقات کو استوار رکھے ہوئے ہے۔ لہٰذا امریکا نے پاکستان اور ازبکستان سے ہی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ چین کا موڈ پاکستان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ اس لیے پاکستان بھی امریکا کے ساتھ معاملات کو آف دی ریکارڈ ہی رکھنے کو ترجیح دیتا آرہا ہے۔

یہ اس صورتحال کا جیو اسٹرٹیجک پہلو ہے۔ جیو اکنامکس زاویہ سے دیکھیں تو درحقیقت ازبکستان پاکستان کے سمندر کے ذریعے جس ملک سے اقتصادی تعلقات یا دوطرفہ تجارت کرنا چاہتا ہے، اس ملک کا نام ہے بھارت۔ ازبکستان اور بھارت کے مابین جو تجارتی تعلقات قائم ہیں، وہ براستہ ایران ہیں۔ ایران اور ازبکستان کے مابین بذریعہ ترکمانستان ربط و تعلق پہلے سے موجود ہے، یعنی ایران اور ازبکستان دونوں ہی ربط سازی کے لیے افغانستان کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ چونکہ پاکستان و بھارت کے دو طرفہ تعلقات بہتر نہیں ہیں، اس لیے بھارت افغانستان اور ازبکستان سے تجارتی تعلقات کے لیے ایران کا سمندری اور زمینی راستہ استعمال کرتا آیا ہے۔ البتہ 1965ء سے پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کر رکھا ہے۔ اس کے تحت بھارت پاکستان کی بندرگاہ پر تجارتی کارگو آف لوڈ کرتا رہا ہے اور کراچی بندرگاہ سے افغانستان تک بھارتی تجارتی کارگو پہنچتا رہا ہے۔ زرداری گیلانی حکومت کے دور میں امریکا کے دباؤ پر پاکستان نے زمینی واہگہ بارڈر کے راستے افغانستان بھارت تجارت کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بھارت کے تجارتی فضائی کارگو طیارے بھی پاکستان کی ہی فضائی حدود کو استعمال کرتے ہیں۔ جب کبھی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور عوامی دباؤ بڑھتا ہے، تب پاکستانی حکومت بھارت کو اس سہولت سے عارضی طور پر معطل کردیتی ہے۔ کافی عرصے سے یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

تو صاحبو! ازبکستان اور پاکستان کو امریکی بلاک کے مفاد میں استعمال کرنے کا سلسلہ رکا نہیں، تھما نہیں۔ ترکمانستان اور افغانستان سے گیس پائپ لائن پاکستان سے گزار کر بھارت پہنچانے کا تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ بھی موجود ہے۔ ریاست پاکستان کی بھارت پالیسی کی منافقت اور دوغلے پن کا ناقابل تردید ثبوت بھارت کو حاصل یہ سہولیات ہیں، جو ریاست پاکستان آج تک دیتی آئی ہے اور ان منصوبوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرچکی ہے۔ امریکی، اماراتی سعودی، اسرائیلی بلاک کی مشترکہ پالیسی یہ رہی ہے کہ بھارت کو ایران سے دور کیا جائے اور یہ کام انہوں نے ریاست پاکستان کے ذریعے کر دکھایا ہے۔ لاہور جوہر ٹاؤن بم دھماکے میں ملوث دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی کڑیاں متحدہ عرب امارات سے جا ملیں۔ حتیٰ کہ کلبھوشن یادیو بھی دبئی کے ذریعے ہی رقم بھیجا کرتا تھا۔ لیکن پاکستان میں کسی نے امارات پر نہ تنقید کی نہ مذمت۔ امارات اور بحرین نے یا سعودی عرب نے نریندرا مودی کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نواز دیا، تب بھی ریاست پاکستان نے ان تینوں ممالک کو اپنا دوست مان رکھا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت کو او آئی سی اجلاس میں مدعو کرنے کے بعد بھی ریاست پاکستان کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے طرزعمل میں کسی قسم کی پاکستان دشمنی یا کشمیر دشمنی نظر نہیں آئی اور جیواکنامکس خارجہ پالیسی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بعد بھی ریاست پاکستان امریکی سعودی اماراتی بلاک کا جزو لاینفک بنی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں چائنا کے 9 شہری بشمول انجینیئرز ایک بس دھماکے میں مارے جاچکے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ میکینیکل فالٹ کی وجہ سے گیس لیکیج ہوئی، جس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا۔ بعد ازاں کہا گیا کہ دہشت گردی کا شبہ ہے۔ اب چین اپنی تحقیقاتی ٹیم پاکستان بھیج رہا ہے۔ یعنی چین سے پاکستان کے تعلقات میں بعض اڑچنیں پہلے سے موجود تھیں اور اب ان میں ایک کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکی بلاک کی جانب سے چین مخالف اقدامات کے تناظر میں بیجنگ ہرگز یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس سے بڑے بڑے قرضے لے کر قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا ملک پاکستان چین پر امریکی بلاک کو ترجیح دے۔ اب جبکہ چین ایران کے ساتھ پچیس سالہ اقتصادی و سیاسی معاہدہ کرچکا ہے تو چین یہ بھی نہیں چاہے گا کہ اسکے ایران سے متعلق منصوبوں کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال ہو۔ شاید ریاست پاکستان کے بقراط فراموش کر رہے ہیں کہ آج کی دنیا میں امریکی بلاک ماضی جیسی شان و شوکت کا حامل نہیں ہے۔ اب چھوٹے چھوٹے گروہ عراق میں امریکا کو اتنا تنگ کر رہے ہیں کہ وہ بھاگنے اور جان چھڑانے کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہ بقراط شاید بھول رہے ہیں کہ اب چین اور امریکا کے مابین اختلافات اور کشیدگی ماضی کی مانند محدود اور کنٹرولڈ نہیں ہے۔ شاید وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ وسطی ایشیاء کے ممالک روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں جبکہ پاکستان بحر اسود (بلیک سی) میں روس کے دشمن امریکی نیٹو بلاک اور اسکے نان نیٹو اتحادیوں کی مشترکہ بحری فوجی مشق سی بریز 2021ء میں شرکت کرچکا ہے۔ یعنی ریاست پاکستان دیدہ و دانستہ امریکی زایونسٹ سعودی اماراتی بلاک کو خالص پاکستانی مفادات پر فوقیت دے رہی ہے۔

ریاست پاکستان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ خود آذربائیجان اور ترکی کو وسطی ایشیاء تک پہنچنے کے لیے ایران کی ضرورت ہے اور خود چین وسطی ایشیاء کے ذریعے ایران تک ریلوے تجارتی کارگو کا نظام قائم کرچکا ہے۔ اسی طرح چین ایران اورر ترکی کے راستے بھی یورپ کے ان ممالک تک ربط سازی کے منصوبے پر گامزن ہے کہ جو ترکی سے قریب واقع ہیں، یعنی یونان، بلغاریہ، رومانیہ، اٹلی وغیرہ اور یہاں سے وہ اسپین اور اسپین کے سامنے افریقی ممالک تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ یقیناً ریاست پاکستان ماضی کی طرح مائنس ایران خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انتہائی سست رفتاری سے چند منصوبوں پر بات چیت کرتی ہے اور معاملے کو طول دیتی ہے۔ زرداری حکومت کے دور کے اختتام تک ایران گیس پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک مکمل ہوچکی تھی، لیکن تب سے یہ پاکستان نہ آسکی۔ حالانکہ اس سے پاکستان کا انرجی بحران حل کرنے میں بہت مدد ملتی اور انرجی کی وجہ سے پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اتنا اضافہ ہوتا کہ پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا، لیکن ایران کی گیس پائپ لائن کو پہلے مرحلے ہی میں بھارت تک پہنچانے کے حصے کو پاکستان کی فرمائش پر ختم کر دیا گیا اور اینڈ رزلٹ یہ ہے کہ بھارت تک تو گیس پائپ لائن پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں، اگر یہ ترکمانستان سے براستہ افغانستان پاکستان داخل ہوکر بھارت جائے تو۔ یعنی ریاست پاکستان کا زبانی جمع خرچ بھارت کے خلاف ہے، لیکن عملی طور پر ریاست پاکستان بھارت کو سہولیات فراہم کر رہی ہے، جبکہ زبانی کلامی ایران کے ساتھ تعلقات کی بات تو کرتی ہے، لیکن عملی طور پر ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ سرحدی منڈیاں بن بھی گئیں تو ایران گیس پائپ لائن کی مثال موجود ہے کہ اسے بھی استعمال ہی نہ کیا جاسکے، یہ بھی تو ممکن ہے۔ جب ایران کے ذریعے یورپ سے ربط سازی کا مختصر ترین کم خرچ بالا نشین آپشن چھوڑ کر امریکی سعودی اماراتی ڈکٹیشن پر پاکستانی قوم کا مفاد قربان کرنے پر آج بھی عمل پیرا ہے تو اس پر اعتماد کیوں کر کیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 943998
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام سلمان بھائی
خدا قوت
واقعاً بہت عمدہ کالم لکھا ہے، آپ نے جس طرح ازبکستان کے جغرافیے کو بیان کیا ہے، یہ تو ہمارے پاکستانی بقراط کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ کبھی کبھی وزیراعظم کے کسی ملک کے دورے سے پہلے دنیا کا نقشہ بھی دیکھ لینا چاہیئے، ورنہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن سارے پاکستانی بقراط چاہے وہ سیاسی و اسسٹیبلشمنٹ کے ہوں یا ہمارے مذہبی و تنظیمی سب ٹنگ ٹپائو پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ دوسرا امریکہ اور چین کا معاملہ آپ نے بہت احسن انداز میں واضح کیا اور ساتھ بھارت کے مفادات اور امریکی پالیسیاں پاکستان اور بھارت کے لیے۔۔ و دیگر۔۔۔ خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور صحت و سلامتی عطا کرے اور مزید لکھنے کی توفیق عطا کرے، تاکہ ہمارے جیسے جاہل ان سارے معاملات کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ خدا پاکستان اور ملت پاکستان کی حفاظت کرے۔ پاکستان زندہ باد۔۔
ہماری پیشکش