QR CodeQR Code

عراق اور خطے میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی مغربی صہیونی سازش

18 Jul 2021 20:41

اسلام ٹائمز: دوسری طرف امریکہ، مغربی طاقتیں اور غاصب صہیونی رژیم بالکل اسی طرح کی صورتحال لبنان میں پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ لبنان میں بھی سعد حریری مغرب نواز سیاسی رہنما کے طور پر معروف ہیں۔ انہوں نے نو ماہ تک نئی کابینہ تشکیل دینے میں ٹال مٹول کرنے کے بعد آخرکار استعفی پیش کر دیا ہے اور یوں طے شدہ منصوبے کے تحت لبنان میں سیاسی بحران کی شدت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان میں بھی بالکل ایسا ہی امریکی، مغربی، صہیونی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکہ نے اچانک اور تیزی سے فوجی انخلاء انجام دے کر افغانستان کو متحارب گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور یوں اس ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خطے میں یہ پورا منظرنامہ امریکہ نے اپنی اسٹریٹجک شکست چھپانے کیلئے بنایا ہے۔


تحریر: ہادی محمدی
 
عراق کے شہر ناصریہ میں امام حسین ع اسپتال میں انتہائی مشکوک انداز میں آتش زدگی کا واقعہ رونما ہوا ہے جس میں سینکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت ایک خاص معنی و مفہوم پیدا کر لیتا ہے جب ہم اسے عراق میں برطانوی سفیر کے اس بیان کے تناظر میں دیکھتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عراق اکتوبر کے مہینے میں پارلیمانی انتخابات منعقد کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری طرف عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی جب سے برسراقتدار آئے ہیں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ اسی طرح انہیں اقتدار میں باقی رکھنے میں سب سے اہم اور بنیادی کردار مقتدا صدر کا ہے۔ مصطفی الکاظمی کی کابینہ میں سب سے زیادہ وزراء کی تعداد مقتدا صدر کی سربراہی میں سیاسی اتحاد کی ہے۔
 
پارلیمنٹ میں مقتدا صدر کی پارلیمانی پارٹی نے مصطفی الکاظمی کی بھرپور حمایت جاری رکھی ہوئی ہے جس کے باعث مغربی طاقتوں کی یہ کٹھ پتلی حکومت اب تک اپنا اقتدار باقی رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ خود مصطفی الکاظمی کا برسراقتدار آنے میں بھی عراقی اور غیر عراقی پراسرار قوتیں کارفرما رہی ہیں جبکہ انہوں نے گذشتہ ڈیڑھ سال سے اپنے اقتدار کے دوران داخلہ اور خارجہ سیاست میں ایسے اقدامات انجام دیے ہیں جو مکمل طور پر امریکہ، مغربی طاقتوں اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے مطلوبہ تھے۔ اپنے اقتدار کے دوران مصطفی الکاظمی نے مالی، اقتصادی اور سکیورٹی شعبوں میں اہم عہدے ایسے افراد کو سونپے ہیں جو ان کے حامی سیاسی گروہوں سے وابستہ ہیں۔
 
دوسری طرف مصطفی الکاظمی نے خاص منصوبہ بندی کے تحت ملک میں مالی، اقتصادی اور سکیورٹی شعبوں میں موجود صلاحیتوں کو نابود کر کے عوام میں مایوسی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ بالا اقدامات کے ذریعے انہوں نے عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ حکومتی سیٹ اپ اور بیوروکریسی میں موجود شدید کرپشن ختم ہونا محال امر ہے۔ یوں انہوں نے خاص طور پر شیعہ صوبوں میں آئندہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد آئندہ پارلیمنٹ میں انقلابی اور جہادی گروہوں کی موجودگی کو کم از کم حد تک لا کر اپنے سیاسی اتحاد کیلئے اکثریت حاصل کرنا ہے۔ صرف اسی صورت میں آئندہ انتخابات کے نتیجے میں امریکہ کے کٹھ پتلی وزیراعظم کے برسراقتدار آنے کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔
 
ان تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود عراق کے معاشرے، سیاسی، قومی اور مذہبی گروہوں اور دیگر شعبوں میں مشکلات اس قدر شدید نہیں ہوئے جس کی منصوبہ بندی موجودہ عراقی حکومت کو چلانے والے مغربی حکمرانوں نے کر رکھی تھی۔ لہذا اب عراقی عوام کو اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور اقدامات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور مزاحمت نہ کرنے پر مجبور کرنے کیلئے امریکہ، مغربی ممالک اور غاصب صہیونی رژیم نے ایک اور سازش کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ سازش عراق سمیت خطے کے کئی ممالک میں حکومت کے فقدان اور اس کے نتیجے میں شدید سیاسی بحران پیدا کرنے پر استوار ہے۔ یوں اس سیاسی بحران کی آڑ میں عراقی عوام پر مزید دباو بڑھایا جائے گا اور انہیں اپنے کٹھ پتلی سیاست دانوں کی جانب جھکاو پر مجبور کیا جائے گا۔
 
امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک عراق میں اپنی اور اپنے کٹھ پتلی مقامی سیاست دانوں اور دیگر ایجنٹس کی پوزیشن مضبوط بنانے کی شدت سے ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ مقتدا صدر اب تک مصطفی الکاظمی کی بھرپور حمایت کرتے آئے ہیں اور اس بابت عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کی بجائے خود کو معترضین میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسی مقصد کیلئے آئندہ انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ بھی برطانوی سفیر کے اس بیان سے ہم آہنگ ہے جس میں برطانوی سفیر نے مقررہ وقت پر انتخابات منعقد نہ ہو پانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ یاد رہے موجودہ پارلیمنٹ کی قانونی مدت اس سال اکتوبر میں ختم ہو جائے گی اور اگر پارلیمانی انتخابات مقررہ وقت پر انجام نہیں پاتے تو ملک میں شدید سیاسی بحران اور طاقت کا خلاء پیدا ہو جائے گا۔
 
دوسری طرف امریکہ، مغربی طاقتیں اور غاصب صہیونی رژیم بالکل اسی طرح کی صورتحال لبنان میں پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ لبنان میں بھی سعد حریری مغرب نواز سیاسی رہنما کے طور پر معروف ہیں۔ انہوں نے نو ماہ تک نئی کابینہ تشکیل دینے میں ٹال مٹول کرنے کے بعد آخرکار استعفی پیش کر دیا ہے اور یوں طے شدہ منصوبے کے تحت لبنان میں سیاسی بحران کی شدت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان میں بھی بالکل ایسا ہی امریکی، مغربی، صہیونی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکہ نے اچانک اور تیزی سے فوجی انخلاء انجام دے کر افغانستان کو متحارب گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور یوں اس ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خطے میں یہ پورا منظرنامہ امریکہ نے اپنی اسٹریٹجک شکست چھپانے کیلئے بنایا ہے۔


خبر کا کوڈ: 944098

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/944098/عراق-اور-خطے-میں-سیاسی-بحران-پیدا-کرنے-کی-مغربی-صہیونی-سازش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org