0
Tuesday 27 Jul 2021 11:43

پاکستان کو توڑنے کا بھارتی خواب چکنا چور

پاکستان کو توڑنے کا بھارتی خواب چکنا چور
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن آج انڈیا کے دو روزہ دورے پر دہلی پہنچ چکے ہیں۔ یہاں دورے کے ایجنڈے کے ذکر سے پہلے امریکہ کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد اس دورے کے مقاصد واضح ہو جائیں گے۔ امریکہ کا مزاج یہ ہے کہ جس ملک سے کوئی کام لینا مقصود ہوتا ہے، پہلے اس پر الزام تراشی کرتا ہے، اس کی خامیاں بیان کرتا ہے، اس کی کوتاہیوں کا ذکر کرتا ہے، اس ملک میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرتا ہے، بدامنی کا شور مچاتا ہے، یوں اس ملک کو دباو میں لا کر اپنا کام نکلواتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔

امریکہ نے یہی حربہ مودی سرکار کیساتھ بھی استعمال کیا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے دورے سے قبل امریکہ نے مودی سرکار کی خامیاں اور جرائم گنوائے، مثلاً کسانوں کیساتھ حکومت کا سلوک اچھا نہیں، حکومت کسانوں کیساتھ بات چیت سے مسئلہ حل کرے، انڈیا میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، شہریت کا بھارتی قانون انسانی حقوق سے متصادم ہے، کشمیر میں بھارتی مظالم پر بھی امریکی انتظامیہ آواز اُٹھا چکی ہے۔ یہ وہ نقاط ہیں جن کا تذکرہ کرکے امریکہ نے انتھونی بلنکن کے دورے کا مزہ مودی کیلئے کرکرا کر دیا ہے۔ انڈیا سوچ رہا تھا کہ انتھونی بلنکن کے دورے کو وہ افغانستان کی صورتحال اور چین کیساتھ کشیدگی کے پس منظر میں اہم ملاقات کے طور پر لے گا، لیکن مذکورہ باتوں کے بعد مودی سرکار کے جذبات مجروح مجروح سے دکھائی دے رہے ہیں۔
 
امریکہ کے خطے میں اپنے مفادات ہیں۔ حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے میں کشمیر کی خود مختار ریاست کی خدوخال کا جائزہ لیا جائے گا، چین کیساتھ بھارت کی کشیدگی میں بھی امریکہ جلتی پر تیل ڈال سکتا ہے۔ پاکستان کو بھی انگیج کرنے کے حوالے سے کوئی امریکی ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کیساتھ مذاکرات میں بھارتی حکام افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال، مبینہ طور پر دہشتگردی کی مالی معاونت نیز دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے روکنے پر پاکستان پر دباو ڈالنے کی تجویز زیر غور آئے گی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق بلنکن وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے علاوہ اپنے ہم منصب ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال کیساتھ اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔
 
افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بھارت خود کو خطے میں تنہا محسوس کر رہا ہے جبکہ افغانستان میں امریکی یقین دہانیوں پر کی گئی اربوں روپے کی بھارتی سرمایہ کاری ڈوبنے سے بھی مودی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان تو امریکہ کیساتھ تعاون کر رہا ہے لیکن اس منظرنامے میں انڈیا کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ مبصرین کے مطابق انڈیا اب اس منظر نامے میں زبردستی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے مگر اسے کہیں سے بھی کوئی ’’لفٹ‘‘ نہیں مل رہی۔ انڈیا کو یہ بھی پریشانی لاحق ہے کہ افغانستان میں طالبان کا کنٹرول مکمل ہونے کے بعد ان کا رخ کشمیر کی جانب ہو جائے گا۔ حالانکہ طالبان کا ہدف صرف افغانستان ہے، وہ کبھی بھی افغانستان سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کریں گے۔ بھارت کو اس وہم سے اب باہر نکل آنا چاہیئے کہ افغانستان فتح کرنے کے بعد طالبان کشمیر پر چڑھائی کر دیں گے۔ ہاں انڈیا کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنی چاہییں، کشمیریوں کو ان کی سوچ کے مطابق جینے کا حق دینا چاہیئے، اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق حل کر لینا چاہیے، اسی میں انڈیا اور پاکستان، دونوں کی بھلائی ہے۔ اس سے خطے میں بھی امن قائم ہوگا اور حالات بہتری کی جانب جائیں گے۔ کشمیر کا مسئلہ اٹکا رہا تو اس سے انڈیا اور پاکستان دونوں کی معیشت متاثر ہوتی رہے گی۔
 
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اس مسئلے کو حل کرنے میں مکمل سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے آزاد کشمیر الیکشن کے دوران واضح کہا کہ وہ کشمیریوں کو ریفرنڈم کا حق بھی دیں گے کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کیساتھ مل کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، پاکستانی اپوزیشن وزیراعظم کے اس موقف پر کڑی تنقید کر رہی ہے، مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور اسے کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہی حل کیا جانا چاہیے۔ افغانستان کے حوالے سے زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے گزرتا ہے، پاکستان ہی وہاں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اس وقت جو ممالک افغانستان میں موجود ہیں یا مداخلت کر رہے ہیں، وہ وہاں امن نہیں قائم کر سکتے، اس کی کنجی صرف پاکستان کے پاس ہے اور پاکستان کو اس معاملے میں نظرانداز کرنا نقصان دہ اور وسائل کا ضیاع ہی ہوگا۔
 
انڈیا تو بس یہی دعا کر رہا ہے کہ کسی طرح طالبان افغانستان پر قابض نہ ہو سکیں، یہی وجہ ہے کہ انڈیا سے بھاری اسلحہ سے بھرے جہاز افغانستان پہنچائے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اشرف غنی حکومت ہی برقرار رہے جبکہ زمینی حقائق بھارت کی اس خواہش کے برعکس ہیں۔ انڈیا طالبان سے کھل کر مذاکرات بھی نہیں کر رہا کہ کہیں دنیا یہ نہ سمجھے کہ انڈیا نے طالبان کی شدت پسندانہ پالیسی کو تسلیم کر لیا ہے، جبکہ طالبان ایک قوت کے طور پر اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں، بھارت کی یہ پالیسی ہٹ دھرمی تو کہلا سکتی ہے، سفارتی حکمت عملی نہیں۔ انڈیا کو اپنی سرمایہ کاری کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے، گزشتہ برس نومبر میں انڈیا نے افغانستان میں 150 نئے منصوبوں کا اعلان کیا تھا جبکہ اس سے قبل 2015 میں انڈیا نے افغان پارلیمنٹ کی تعمیر میں بھی بھاری سرمایہ خرچ کیا تھا اور پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح بھی مودی نے خود کیا تھا۔ 2016 میں مودی اور اشرف غنی نے افغان صوبے ہرات میں 42 میگاواٹ کے پاور پلانٹ اور آبپاشی کے منصوبوں کا بھی افتتاح کیا تھا۔ افغانستان میں اور بھی بہت سے منصوبے ہیں جو بھارت نے شروع کئے اور ان پر کام جاری ہے۔
 
بھارتی وزارت دفاع کی نگرانی میں بارڈر روڈز آرگنائزیشن نے افغانستان کی متعدد سڑکوں کی تعمیر کی، افغانستان کی فوج، پولیس اور سول سروسز سے وابستہ متعدد افسران نے انڈیا سے ہی تربیت حاصل کی ہے اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ انڈیا پورے خطے کا واحد ملک ہے جس نے افغانستان کو سب سے زیادہ معاشی اور دیگر اقسام کی امداد فراہم کی ہے اور اس نے افغانستان کی تعمیر نوء میں بھی ہم کردار ادا کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انڈیا نے یہ سب کچھ ’’بغضِ پاکستان‘‘ میں کیا۔ انڈیا کی یہاں سازش یہ تھی کہ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری کرکے، ان کی تعمیر نوء میں نمایاں رہ کر پاکستان کو مائنس کر دے گا۔ اس کیساتھ یہ بھی اس سازش کا حصہ تھا کہ پاکستان میں بدامنی پھیلا کر پاکستان کے تمام پختون علاقے افغانستان میں شامل کر لئے جائیں گے، یوں پاکستان کو توڑنے کا بھارتی خواب خاک میں مل گیا۔ اپنے اسی خواب کی تعبیر کیلئے ہی انڈیا نے پاکستان کی سرحد سے ملحقہ افغان شہروں میں اپنے قونصل خانے کھولے ہوئے تھے، جہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کیلئے وسائل فراہم کئے جاتے رہے ہیں۔
 
انڈیا کی سازش یہ تھی کہ پختون علاقے افغانستان میں شامل کر دیئے جائیں گے، بلوچستان کو آزاد کروا دیا جائے گا، پنجاب کو بھارتی پنجاب میں شامل کر لیا جائے گا، گلگت اور آزاد کشمیر کو بھی مقبوضہ کشمیر کیساتھ ملا کر ایک نئی بھارتی ریاست بنا لی جائے گی۔ جبکہ سندھ کو سندھو دیش بنا دیا جائے گا۔ مگر اللہ کی حکمت کے سامنے مودی کی منصوبہ بندی مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔ پاکستان کو توڑنے کے خواب دیکھنے والا مودی آج اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ہے۔ اس کا افغانستان میں سارا سرمایہ ڈوب چکا ہے۔ اشرف غنی بھی بوری بستر باندھے فرار ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے جبکہ طالبان تیزی سے کابل کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ طالبان بغیر کسی خون خرابے کے قبضے پر قبضہ کرتے چلے آ رہے ہیں، اور اشرف غنی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے سوچ رہا ہے کہ وہ بلی کو دکھائی نہیں دے رہا۔
خبر کا کوڈ : 945342
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش