1
Friday 30 Jul 2021 22:31

مغربی کنارے کے حالات اور فلسطین اتھارٹی کا مستقبل (حصہ اول)

مغربی کنارے کے حالات اور فلسطین اتھارٹی کا مستقبل (حصہ اول)
تحریر: مہدی آشنا
 
فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے الیکشن ملتوی کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں مغربی کنارے کے حالات نیا رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ قدس شریف کے حالات بنیادی طور پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کا نتیجہ ہیں اور یہی حالات اسلامی مزاحمت اور صہیونی رژیم کے درمیان حالیہ گیارہ روزہ جنگ کا باعث بھی بنے، لیکن مقبوضہ فلسطین میں صہیونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کو فلسطین اتھارٹی کے سیاسی فیصلوں خاص طور پر الیکشن ملتوی کرنے سے لاتعلق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الیکشن ملتوی کئے جانے کے علاوہ گیارہ روز جنگ نے بھی فلسطینی شہریوں کی سوچ پر اثر ڈالا ہے۔ اس جنگ کے بعد اسلامی مزاحمت کے بارے میں فلسطینی شہریوں کا نقطہ نظر تبدیل ہوا ہے۔
 
سیف القدس معرکے کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی فورسز اور فلسطین اتھارٹی کے ماتحت کام کرنے والی سکیورٹی فورسز میں بھی کئی مسلح جھڑپیں انجام پائی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین اتھارٹی میں شامل بعض عناصر اس کی پالیسیوں خاص طور پر صہیونی فورسز کے ساتھ تعاون پر راضی نہیں ہیں۔ اسی طرح فلسطین اتھارٹی کی جانب سے مخالفین کو دبانے کی غرض سے فلسطین کاز کیلئے سرگرم شخصیت "نزار بنات" کے قتل نے بھی اس کے خلاف احتجاج کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ اب تو فلسطینی شہریوں کی جانب سے محمود عباس کے استعفا کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لہذا تحریر حاضر میں مغربی کنارے میں رونما ہونے والے سیاسی حالات، محمود عباس کی سربراہی میں فلسطین اتھارٹی کے کردار اور مستقبل میں ممکنہ صورتحال پر روشنی ڈالنے کی کوشش عمل میں لائی جائے گی۔
 
مغربی کنارے میں حال ہی میں چند اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں صہیونی فورسز اور فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپیں، فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھون ایک سیاسی سرگرم شخصیت کے قتل کے خلاف احتجاج اور اعتراض اور جنوبی نابلس کے علاقے میں ایک قصبے سے یہودی آبادکاروں کی پسماندگی شامل ہے۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ کے بقول، 10 جون 2021ء کے روز فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز اور صہیونی اسپشل فورسز کے درمیان مغربی کنارے کے شمال میں واقع شہر جنین میں مسلح جھڑپ انجام پائی۔ اس جھڑپ میں تین فلسطینی شہید ہو گئے جن میں سے دو افراد فلسطین اتھارٹی کے فوجی عہدیدار تھے۔ اسی طرح ایک صہیونی فوجی بھی مارا گیا۔ اس کے بعد بھی صہیونی فورسز اور فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں انجام پائیں جن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
 
جنین شہر کے شمال میں صہیونی سکیورٹی فورسز نے چوکیاں بنا رکھی ہیں۔ ابھی تک کئی بار فلسطینی جوان ان چوکیوں پر حملہ ور ہو چکے ہیں۔ مغربی کنارے میں مقیم ان فلسطینی جوانوں نے مختلف خبررساں اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ناجائز قبضے کا خاتمہ صرف اور صرف مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ اس قسم کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطین میں ایک نئی سوچ اور نئی تحریک ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ یہ نئی سوچ مغربی کنارے میں مسلح جدوجہد کے ذریعے موجودہ صورتحال تبدیل کرنے کے عزم پر استوار ہے۔ یہ مسلح مزاحمت اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کے خلاف بھی اپنائی جائے گی جبکہ فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کو بھی اس کا نشانہ بنایا جائے گا۔
 
24 جون 2021ء کے دن فلسطین اتھارٹی کے معترض سیاست دان اور فلسطین کاز کے حامی نزار بنات کو ان الخلیل میں ان کے آبائی شہر سے فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز نے اپنی حراست میں لیا۔ انہیں جیل منتقل کرنے کی بجائے اہلخانہ کے سامنے ہی ان کی مار پیٹ کی گئی جس کے کچھ گھنٹوں بعد ہی وہ جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعے نے فلسطین اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کے خلاف فلسطینی عوام کے دلوں میں نفرت اور غصے کی آگ شعلہ ور کر دی اور شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ مغربی کنارے کے الخلیل اور رام اللہ شہروں میں یہ مظاہرے بہت شدید تھے۔ مظاہرین محمود عباس کے استعفا کا مطالبہ کر رہے تھے۔ فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز نے اس عوامی احتجاج کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا لیکن اسے ختم کرنے میں ناکام رہیں۔ نزار بنات کے قتل سے چند دن پہلے ہی سکیورٹی فورسز الخلیل شہر میں انسانی حقوق کے ایک اور سرگرم رکن کو گرفتار کر چکی تھیں۔
 
مذکورہ بالا حالات ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطین اتھارٹی مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی شہریوں کی حمایت اور اعتماد تیزی سے کھوتی جا رہی ہے۔ مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی اہم تبدیلی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی سوچ مغربی کنارے میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ فلسطینی شہری اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کا واحد راستہ اسلامی مزاحمت ہے۔ فلسطین اتھارٹی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے مذاکرات اور سازباز کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اب یہ اپروچ عوام کی جانب مسترد کی جا رہی ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے حکمران سازباز کے دوران عوامی حقوق کے احیاء سے بڑھ کر اپنے سیاسی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ یوں وہ غاصب صہیونی رژیم کے آلہ کار میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔جاری ہے
خبر کا کوڈ : 945956
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش