4
Friday 30 Jul 2021 23:52

نامزد وزیراعظم نجیب میقاتی لبنان کی نئی کابینہ بنا پائیں گے؟

نامزد وزیراعظم نجیب میقاتی لبنان کی نئی کابینہ بنا پائیں گے؟
تحریر: محمد سلمان مہدی

چلیے مغربی ایشیاء (مشرق وسطیٰ) کے عرب ملک لبنان کی تازہ ترین صورتحال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔ لبنان ایک طویل عرصے سے ایک باقاعدہ حکومت کا منتظر ہے۔ وہاں امیر ترین شہری نجیب میقاتی کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے پارلیمنٹ کی اکثریت نے نامزد کر دیا ہے۔ اس سے قبل وہ دو مرتبہ اس عہدے پر رہ چکے ہیں۔ البتہ اب انہیں کابینہ کے اراکین اور انکے قلمدانوں سے متعلق مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے۔ منفرد سیاسی نظام اور شراکت اقتدار کے مخصوص آئینی و تاریخی فارمولا کی وجہ سے لبنان میں اعلیٰ مملکتی اور حکومتی عہدوں پر کسی شخصیت کے انتخاب کے لیے ضروری قومی اتفاق رائے کا حصول بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ لبنان کا موجودہ سیاسی بحران ماہ اکتوبر 2019ء سے شروع ہوا کہ جب مالی بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر عوام نکلے تو اس وقت وزیراعظم سعد حریری ہی تھے۔ تب انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لبنان کی منتخب پارلیمانی جماعت حزب اللہ نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ استعفیٰ سے لبنان کے زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہونے والی۔ حزب اللہ نے ان کے استعفیٰ کی مخالفت کی تھی۔ ان کا موقف آج تک حرف بحرف درست ثابت ہو رہا ہے۔

سعد حریری کے استعفیٰ کے بعد انہوں نے محمد الصفدی اور بہیج طبارہ کا نام وزارت عظمیٰ کے لیے پیش کیا۔ دونوں ناموں پر اعتراض و مخالفت سامنے آئی۔ ال صفدی نے خود ہی دستبرداری کا اعلان کر دیا اور بہیج طبارہ کے نام کی جگہ سمیر الخطیب کا نام وزارت عظمیٰ کے لیے گردش کرنے لگا۔ لیکن سمیر الخطیب کی مخالفت خود سعد حریری کے اپنے بلاک کے افراد کی جانب سے سامنے آنے پر وہ نام بھی واپس لے لیا گیا۔ فروری 2020ء میں وزیراعظم حسن دیاب کی کابینہ نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا تھا۔ ان کی عبوری حکومت کو بھی چلنے نہ دیا گیا۔ پھر سعد حریری کو وزیراعظم نامزد کیا گیا لیکن وہ بھی ایسی کابینہ تجویز کرنے میں ناکام رہے کہ جس پر لبنان کی پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی اکثریت کے اعتماد کا ووٹ ملتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے نامزد وزیراعظم صدر کو مجوزہ کابینہ کے نام اور قلمدان کے حوالے سے اعتماد میں لیتا ہے اور مجوزہ ناموں اور قلمدانوں پر باقی پارلیمانی اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے کا حصول بھی لازم ہے۔ یوں ایک اور مرتبہ نجیب میقاتی کے نام پر پارلیمانی اسٹیک ہولڈرز کی اکثریت متفق ہوئی ہے، لیکن وزیراعظم کی نامزدگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس طرح انہیں از خود کابینہ کے ناموں اور قلمدانوں پر بھی پیشگی اعتماد حاصل ہوگیا۔

جیسا کہ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ عرض کیا جاچکا کہ لبنان کے سیاسی نظام میں آئینی طور پر یہ شرط موجود ہے کہ لبنان کا صدر ایک مارونی مسیحی لبنانی ہوگا، وزیراعظم سنی عرب ہوگا اور اسپیکر پارلیمنٹ شیعہ ہوگا۔ اس کے علاوہ لبنان کے دیگر مذہبی گروہوں کو کابینہ میں شامل کرکے اقتدار میں شریک کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر لبنان میں مسیحی حصہ شراکت اقتدار میں زیادہ ہے۔ البتہ یہاں مسیحی یا کرسچن سے مراد محض مارونی فرقے کے سیاستدان نہیں ہیں، البتہ مارونی مسیحی کی اقتدار میں حیثیت زیادہ مستحکم ضرور ہے۔ سنی، شیعہ، علوی، اسماعیلی اور دروزی لبنان کے آئین و نظام کے مطابق مسلمان مسالک میں شمار کیے جاتے ہیں۔ البتہ اسماعیلی اور علوی سیاستدانوں کی حیثیت دروزی فرقے سے بھی کم ہے۔ مارونی کرسچن بھی کئی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہیں اور یہی معاملہ سنی اور شیعوں کا بھی ہے تو دروزی فرقے کا بھی ہے۔ کابینہ سازی میں وزراء کی تعداد اور قلمدانوں سے متعلق فیصلہ کرتے وقت ادیان اور مسالک کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ نجیب میقاتی ہیں تو سنی عرب لیکن ان کو جب وزیراعظم نامزد کیا گیا تو ان کے اپنے علاقے طرابلس میں عوام نے ان کے خلاف احتجاج کیا، کیونکہ نجیب میقاتی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اڑھائی ارب ڈالر کے مالک سب سے زیادہ امیر لبنانی شہری ہیں اور ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ناجائز طریقوں سے، مالی بدعنوانی کرکے اتنا مال جمع کیا ہے۔

ان الزامات کے باوجود ان کے سیاسی مخالفین نے بھی اگر ان کو وزیراعظم نامزد کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لبنان کے منتخب سیاسی و پارلیمانی اسٹیک ہولڈرز ایک باقاعدہ حکومت کے نہ ہونے سے جنم لینے والے مسائل و مشکلات کا ادراک رکھتے ہیں، اس لیے بحالت مجبوری ان کے نام پر اتفاق کر لیا ہے اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لبنان میں مداخلت کرنے والی بڑی طاقتوں خاص طور پر امریکا اور اس کے بعض اتحادیوں نے نجیب میقاتی کے نام کو پیش کیا تو لبنان میں امریکی بلاک کے مخالف سیاسی اسٹیک ہولڈرز نے بھی ان کی مخالفت سے گریز کیا، کیونکہ وہ سبھی لبنان کو ایک باقاعدہ حکومت کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں۔ بڑی طاقتوں کی جانب سے دوسری فرمائش ہے کہ نئی لبنانی حکومت کی ٹیکنوپولیٹیکل ہیئت ہونی چاہیئے۔ کابینہ کی اکثریت ٹیکنوکریٹس غیر سیاسی ماہرین پر مشتمل ہو اور کم ترین تعداد سیاسی وزراء کی ہو۔ یعنی انٹرنیشنل اور نیشنل مفاہمت کے تحت ایسا ہوا ہے۔ یہاں تک تو معاملہ خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچا لیکن کابینہ کی تشکیل جو کہ اصل چیلنج ہے، وہ تاحال حل طلب ہے۔ لبنانی ذرائع ابلاغ نے مختلف سیاسی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ نجیب میقاتی اور دیگر سیاسی اسٹیک ہولڈرز نے چوبیس رکنی کابینہ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں اٹھارہ ٹیکنوکریٹس ہوں گے اور چھ سیاسی وزراء ہوں گے۔

کہا جا رہا ہے کہ نامزد وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں بشمول دروز سیاستدان ولید جنبلاط نے آٹھ وزراء کے نام پیش کرنے ہیں۔ مارونی مسیحی صدر میشال عون، ان کی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ اور اتحادیوں نے آٹھ وزراء کے نام دینے ہیں۔ اسی طرح حزب اللہ، امل اور مارونی مسیحی سلیمان فرنجیہ کی المردہ (تلفظ ال مرادا) تحریک اور سیکولرعرب جماعت حزب السوری القومی الاجتماعی نے آٹھ وزراء کے نام تجویز کرنے ہیں۔ نامزد وزیراعظم نجیب میقاتی نے صدر میشال عون سے ملاقاتیں کی ہیں۔ مجوزہ وزراء اور قلمدانوں کی فہرست سے متعلق صدر میشال عون سے ان کی ملاقاتیں تاحال بے نتیجہ رہی ہیں۔ لبنانی میڈیا میں اس حوالے سے کوئی حتمی بات رپورٹ نہیں ہو رہی۔ بس اتنا کہا جا رہا ہے کہ وزارت داخلہ، دفاع اور انصاف، ان تین محکموں کے وزراء کونسی جماعت اور کون سے دین و مسلک کی شخصیت سے ہوں گے، اس پر اتفاق نہیں ہو پا رہا۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم سعدالدین حریری کھلم کھلا صدر میشال عون اور ان کے داماد جبران باسل پر تنقید کر رہے ہیں۔ جبران باسل لبنان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور فری پیٹریاٹک موومنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعد حریری کی وجہ سے کابینہ سازی کا عمل طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ جبران باسل نے نجیب میقاتی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود سعد حریری کی اس پالیسی کا شکار ہونے سے بچائیں کہ جس کا شکار ان سے پہلے صفدی، طبارہ اور مصطفیٰ ادیب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کابینہ سازی کے عمل میں مداخلت نہیں کر رہی، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ آئین اور قومی معاہدے کے تحت نئی حکومت قائم کی جائے۔

لبنان میں نئی کابینہ کا قیام صدر اور وزیراعظم کے بعد سارے پارلیمانی بلاکس کے اتفاق رائے پر منحصر ہے اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس مرتبہ جبران باسل خود اپنے سسر، صدر میشال عون سے ایک نکتے پر اختلاف رکھتے ہیں۔ جبران باسل کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سیاسی بلاک زیادہ بڑا سائز رکھتا ہے اور وہ ایک تہائی حصہ چاہتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے۔ البتہ انہوں نے ابھی سے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسی کابینہ کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے کہ جس میں مالیات کے قلمدان کے علاوہ باقی سارے وزراء کے قلمدان معین مدت کے بعد تبدیل ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ اعتماد کا ووٹ دینے سے متعلق وہ ہاں یا نہ کا فیصلہ نئی حکومت کے پروگرام کی بنیاد پر کریں گے۔ ایک اور جگہ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے وزارت داخلہ اپنے سیاسی بلاک کے لیے طلب نہیں کی ہے۔ لبنان بحیثیت مملکت شدید ترین اقتصادی اور سکیورٹی بحران سے دوچار ہے۔ نجیب میقاتی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کی ترجیحات میں پارلیمانی انتخابات تک ادویات، ایندھن اور بجلی تک عوام کی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہوگا۔ دوسری جانب لبنان کو 21 بلین ڈالر امداد (قرضہ) جمع کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس چار اگست کو ہو رہی ہے۔ ایک جانب لبنان کو داخلی محاذوں پر بہت زیاہ مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب خارجہ محاذ پر جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے لبنان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر بینی گنٹز نے فرانس کا دورہ کیا ہے اور فرانسیسی حکومت کی جانب سے لبنان کو اسلحہ فروخت کرنے کی مخالفت کی ہے۔ جعلی ریاست اسرائیل نے لبنان کی زمین اور سمندری حدود کے ایک قابل ذکر حصے پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی جنگی طیارے لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لبنان کے پڑوسی ملک شام پر بمباری بھی کرتے ہیں۔ لبنان کی جغرافیائی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی افواج لبنان کے اندر اپنا غیر قانونی قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ڈرون طیاروں کے ذریعے بھی لبنانی حدود کی خلاف ورزیاں کرتی رہتی ہیں۔ لبنان کے اندر اسرائیل نے متعدد مرتبہ غیر قانونی جارحیت کی ہے۔ لبنانی عوام کو، فلسطینیوں کو اور شامیوں کو لبنان کے اندر بھی اسرائیلی افواج اور ان کی پراکسیز نے قتل کیا ہے۔ لبنان کے بحران کا سب سے بڑا بینیفشری اسرائیل ہے۔ البتہ امریکا، فرانس اور سعودی عرب اسرائیلی مفاد میں پینترا بدل کر لبنان کی امداد کے نام پر مداخلت کرکے لبنان کے دفاع کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، تاکہ لبنان اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان کے مخلص اور زیرک سیاسی اسٹیک ہولڈرز فوری طور پر نئی لبنانی حکومت کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں، تاکہ حکومت سے متعلق معاملات تعطل کا شکار نہ ہو جائیں۔ البتہ اس کے لیے موجودہ آئینی نظام اور شراکت اقتدار کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہی کچھ کمپرومائز کرکے نئی کابینہ فوری طور پر قائم کر لینی چاہیئے۔ باقاعدہ حکومت کا نہ ہونا روز بروز لبنانی قوم کی مشکلات میں نت نئی مشکلات پیدا کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 945979
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش