1
1
Saturday 31 Jul 2021 03:30

جشنِ غدیر اور ایک کتاب کا سندھی ترجمہ

جشنِ غدیر اور ایک کتاب کا سندھی ترجمہ
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو ایجادات کرتی ہے۔ یعنی انسان ایک وجود ِموجد ہے۔ انسانی حیات ایجادات و اختراعات سے عبارت ہے۔ انسان ایک ایسا صانع ہے کہ جس کی مصنوعات دیکھ کر خود انسان ہی متحیر اور حیران ہو جاتا ہے۔ انسان کی ہر اختراع اور ایجاد کی اپنی اہمیت ہے لیکن کتنا عظیم ہے وہ انسان جس نے کتاب ایجاد کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب انسان اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ کتاب نہ پڑھنے کی جو قیمت چکانی پڑتی ہے، وہ کتاب کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ گذشتہ روز جشنِ غدیر کی مناسبت تھی۔ غدیر کا جشن یعنی مدینۃ العلم اور باب العلم کا جشن۔ چنانچہ مجھے بھی قم المقدس جیسے علمی شہر میں ایک علمی محفل میں علماء کے درمیان کچھ دیر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔

اس علمی محفل میں ایک کتاب کے ترجمے کی رونمائی بھی کی گئی۔ کتاب کا اردو نام ہے "امام مہدی علیہ السلام، امام رضا علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں۔" یہ کتاب اصل میں استاد نجم الدین طبسی کی تحقیق ہے۔ مذکورہ محفل میں اس کے فارسی سے سندھی میں ترجمے کی رونمائی کی گئی تھی۔ سندھی مترجم مولانا آفتاب علی اتحادی ہمارے درمیان موجود تھے۔ میرے لئے یہ بڑی دلچسپی کی بات تھی کہ پہلے علی ؑ کی ولایت کا جشن تھا، آٹھویں علی ؑ کے کلام کی روشنی میں بارہویں علی ؑ کے بارے میں احادیث پر مشتمل کتاب تھی اور مترجم کا نام بھی آفتاب علی تھا۔ سندھی ترجمے کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ ہے چونکہ ہمارے ہاں  عوام کی اکثریت قومی زبان کے بجائے علاقائی اور صوبائی زبانوں کو  بہتر انداز میں سمجھتی ہے۔ سندھی زبان میں اس کتاب کے ترجمے سے عمومی قارئین، محققین، خطباء اور دانشوروں کو بہت مدد ملے گی۔ اس کتاب کا محتویٰ معلومات کے علاوہ معرفت کا باعث بھی ہے۔

حکومت، خلافت، امامت، دنیا کا خاتمہ اور مہدویت جیسے موضوعات ہمیشہ سے انسانی معاشرے میں سرِفہرست رہے ہیں۔ آخری زمانہ کون سا ہے اور اس میں انسانیت کا نجات دہندہ کون ہوگا، اس کے بارے میں تمام آسمانی مذاہب نے کچھ نہ کچھ ضرور بیان کیا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں ان موضوعات پر کثرت کے ساتھ آیات و روایات موجود ہیں۔ مہدویت پر مسلمانوں کو توجہ دینے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے، چونکہ یہ ایک عالمی اور بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ مسلمان حضرت امام مہدی کے بارے میں جو تبلیغ کرتے ہیں، یہ بہت کم اور انتہائی ناکافی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے تو مسلمان خود حضرت امام مہدی علیہ السلام کی شخصیت کو علمی و تحقیقی انداز میں سمجھیں اور پھر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی تبلیغ کریں۔ مسلمانوں کی مقدس اور الِہیٰ کتاب قرآن مجید کی کثیر آیات قیامت اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں ہیں، اسی طرح بانی اسلام  حضور نبی اکرمﷺ سے بھی کئی روایات اس بارے میں نقل کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ آیات و روایات سمجھنے، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کیلئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مہدویت کی تبلیغ نہ کرنا دراصل قرآن اور احادیث کو پسِ پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔

اس سلسلے میں امام رضا علیہ السلام کی زبانی مختلف کتابوں میں کئی روایات نقل کی گئی ہیں۔ ان روایات میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں معلومات کا ایک خزانہ چھپا ہوا ہے۔ امام کا نام اور نسب، امام کی جسمانی طاقت، امام کی خصوصیات و صفات، امام کی ولادت، امام کی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے  نسبت۔ امام کا نام لینے کی ممانعت، انتظار اور انتظار کی فضیلت، امام کا ظہور، ظہور کے وقت مسلمانوں کی صورت حال اور مشکل حالات کا بیان، قبل از ظہور قتل و خونریزی، امام مہدی علیہ السلام اور انبیاء علیہم السلام کے درمیان مماثلت، امام علیہ السلام کا کھانا اور لباس، سفیانی، یمنی اور مصر کے جھنڈوں کی روانگی، امام کی غیر موجودگی میں حضرت خضر علیہ السلام کا کردار، فرشتوں کی فوج اور امام مہدی علیہ السلام، ظہور کے دنوں میں انسانی سماج کا اضطراب اور بے چینی، صاحبانِ ایمان کا امام مہدی (ع) کے گرد جمع ہونا وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ بالا کتاب کی ایک خاص انفرادیت ہے، وہ انفرادیت یہ ہے کہ اس کتاب میں مذکور احادیث حضرت امام رضا علیہ السلام کے قیامِ نیشاپور کے دوران کی ہیں۔ امام رضا علیہ السلام تقریباً ساڑھے بارہ سو سال قبل مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ مسلمانوں کے آٹھویں امام ہیں۔ مامون جو کہ عباسی خلیفہ تھا، وہ بھی دوسرے بادشاہوں کی طرح آئمہ سے بہت خوفزدہ رہتا تھا۔ اس نے اپنا ولی عہد منتخب کرنے  کے بہانے سے امام رضا علیہ السلام کو مدینے سے اپنی خلافت کے مرکز "مرو" آنے پر مجبور کیا۔ بادشاہ نے اپنے کارندوں کو ایک خاص نقشے کے مطابق امام علیہ السلام کو مرو لانے کا حکم دیا۔ چنانچہ 200 ہجری میں امام رضا ؑ کو بصرہ، اہواز اور فارس کے راستے سے مرو لایا گیا۔

قابلِ ذکر ہے کہ اس زمانے میں نیشاپور اہل سنت مسلمانوں کا اکثریتی مرکز تھا، وہاں ان کی آبادی بھی بہت زیادہ تھی اور دینی مدارس کا بھی بہت معیاری انتظام تھا۔ حضرت امام رضا علیہ السلام چھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے مدینے سے مرو پہنچے تھے۔ اس چھ ہزار کلومیٹر کے فاصلے میں امام علیہ السلام کا جیسا استقبال اہل سنت کے علاقے نیشاپور میں ہوا، ویسا کہیں اور نہیں ہوا۔ امام ؑ کی زیارت کیلئے نیشا پور کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اُمڈ آئی۔ اس وقت کے لوگوں کا جوش و خروش اور ولولہ ناقابلِ بیان ہے۔ تاریخ کے مطابق "ابو زارا" اور "محمد اسلم طوسی" نے امام سے یہ درخواست کی کہ لوگ آپ کے چہرہ اقدس کی زیارت کرنا چاہتے ہیں، لہذا اپنے چہرے سے پردہ ہٹائیے۔ امام علیہ السلام نے جم غفیر کے سامنے اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا اور اس وقت حدیث سلسلة الذهب ارشاد فرمائی۔

تاریخی اسناد کے مطابق نیشاپور میں امام کا استقبال گھنٹوں تک جاری رہا اور علماء اور راوی ان سے اپنے سوالات پوچھتے رہے۔ صرف راویوں میں سے ہی تقریباً چوبیس ہزار راوی نیشاپور میں امام رضا علیہ السلام کے محضر میں حاضر ہوئے۔ امام علیہ السلام نے چند ماہ نیشاپور میں قیام کیا اور اس دوران امام علیہ السلام نے حضرت امام مہدی ؑ کے بارے میں جو احادیث بیان فرمائی ہیں، فاضل مصنف نے ان کی جمع آوری کی ہے اور محترم آفتاب اتحادی صاحب نے ان کا سندھی میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے اس کام میں فاطمیہ فاونڈیشن سمیت جن احباب نے بھی ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون کیا ہے، یہ ان کی علم دوستی اور فرض شناسی کی دلیل ہے۔ راقم الحروف ایک مرتبہ پھر اپنے قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہے گا کہ مقامی اور علاقائی زبانیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ صاحبانِ علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان زبانوں میں اسلامی تعلیمات اور معارف کو منتقل کریں۔
خبر کا کوڈ : 945991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
استفادہ کیا جناب
ہماری پیشکش