QR CodeQR Code

مغربی کنارے کے حالات اور فلسطین اتھارٹی کا مستقبل (حصہ دوم)

31 Jul 2021 16:39

اسلام ٹائمز: مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر فلسطینی شہریوں کے پاس اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے عوامی احتجاج اور مسلح جدوجہد اور مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی کنارے میں بھی اسلامی مزاحمتی گروہوں کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطین اتھارٹی کو اس کٹھن صورتحال میں بچانے کیلئے صہیونی حکمرانوں نے ایک بار پھر مذاکرات اور سیاسی راہ حل کا ڈھونگ رچانا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ صہیونی حکمران کی نظر میں ان مذاکرات کا مقصد محض فلسطینی عوام کو دھوکہ اور فریب دینا ہے لہذا ان سے کوئی خاطرخواہ مثبت نتائج ظاہر ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ عوامی حمایت اور حکومت کا قانونی جواز کھو دینے کے بعد ممکن ہے فلسطین اتھارٹی مکمل طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی میں تبدیل ہو جائے۔


تحریر: مہدی آشنا
 
جیسا کہ بخوبی قابل مشاہدہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل اور مظلوم فلسطینی قوم کے جائز حقوق کی دستیابی کیلئے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ مذاکرات اور سازباز کی اپروچ مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہو کر بے سود ثابت ہو چکی ہے۔ لہذا فلسطین اتھارٹی، جس نے اپنی تمام تر پالیسیوں اور فیصلوں کی بنیاد اس اپروچ پر استوار کر رکھی تھی اب فلسطینی عوام کی نظر میں حکومت کا قانونی جواز کھو چکی ہے اور یوں اسے عوامی مینڈیٹ بھی حاصل نہیں رہا۔ عوامی حمایت کھو دینے کے بعد اب فلسطین اتھارٹی کے سربراہان نے اقتدار برقرار رکھنے کیلئے طاقت کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ فلسطین اتھارٹی کی تشکیل 1994ء میں اوسلو معاہدے کے بعد انجام پائی۔ اس وقت یہ طے پایا تھا کہ فلسطین اتھارٹی ایک عارضی اور نگران سیٹ اپ ہو گا جو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔
 
لیکن دھیرے دھیرے فلسطین اتھارٹی مغربی کنارے پر فرعون بن کر بیٹھ گئی اور اب جبکہ اس کی اختیار کردہ اپروچ، یعنی مذاکرات اور سیاسی سازباز کے ذریعے فلسطینی کے حقوق حاصل کرنا، بھی مکمل طور پر شکست سے روبرو ہو چکی ہے اقتدار سے چپکی ہوئی ہے اور اقتدار کی ہوس میں فلسطینی شہریوں کے خلاف ظالمانہ ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں غاصب صہیونی رژیم کے اندر روز بروز پہلے سے زیادہ شدت پسندانہ افکار کے حامل دائیں بازو کے سیاست دان آگے آتے جا رہے ہیں اور ہر آنے والی نئی حکومت گذشتہ حکومت سے زیادہ جارحانہ اور شدت پسندانہ طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صہیونی حکمران نہ صرف دو ریاستی راہ حل کا انکار کر چکے ہیں بلکہ جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے واضح حق سے بھی منکر دکھائی دیتے ہیں۔
 
یوں فلسطین اتھارٹی کے مدمقابل ایسی نسل پرست رژیم قرار پا چکی ہے جو سیاسی راہ حل پر یقین نہیں رکھتی اور نہ صرف فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ روز بروز مزید سرزمینوں پر اپنا ناجائز قبضہ بڑھانے کے درپے ہے۔ ایسے حالات میں فلسطین اتھارٹی نے پارلیمانی الیکشن ملتوی کر دیے ہیں جبکہ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے قدس شریف اور مسجد اقصی کی بے حرمتی اور قدس شریف کے اردگرد مقامی فلسطینی مسلمانوں کو زبردستی جلاوطن کر دینے جیسے ظالمانہ اقدامات پر بھی پراسرار چپ سادھ رکھی ہے۔ ان کمزوریوں کے نتیجے میں مغربی کنارے میں فلسطین اتھارٹی کی عوامی حمایت میں شدید کمی آئی ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت صرف 14 فیصد فلسطینی شہری فتح تنظیم کے حامی ہیں جبکہ سیف القدس معرکے کے بعد اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی محبوبیت میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
 
فلسطینی شہریوں میں حمایت کھو دینے کی ایک بڑی وجہ فلسطین اتھارٹی کا غاصب صہیونی رژیم سے سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کرنا ہے۔ اس باہمی تعاون نے فلسطین اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کو فلسطینی عوام کی نظر میں منفور کر دیا ہے۔ جب قدس شریف، مسجد اقصی اور مقبوضہ فلسطین میں مقیم مسلمان فلسطینی شہریوں پر صہیونی رژیم کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے صہیونی رژیم سے فوجی ٹکر لے لی تب بھی فلسطین اتھارٹی نے کچھ نہ کیا اور خاموش تماشائی بنی رہی۔ فلسطین اتھارٹی صرف صہیونی رژیم کو اس دھمکی پر اکتفا کرتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جاری سکیورٹی تعاون معطل کر دے گی۔ فلسطینی ماہرین کا خیال ہے کہ فلسطین اتھارٹی غاصب صہیونی رژیم کے تعاون سے برسراقتدار ہے اور اس کا اقتدار میں باقی رہنا فلسطینیوں کے حق میں نہیں۔
 
امریکہ نے نہ صرف مقبوضہ فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطی خطے میں آمرانہ حکومتوں کی حمایت کی ہے۔ محمود عباس کی سربراہی میں فلسطین اتھارٹی بھی امریکی حمایت سے آمرانہ طرز سیاست جاری رکھی ہوئی ہے۔ فلسطین اتھارٹی جس کی تشکیل کا بنیادی مقصد ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام تھا، اس وقت امریکی پالیسیوں اور صہیونی اقدامات کے نتیجے میں امریکہ اور اسرائیل کا مہرہ بن چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین اتھارٹی کو اسلامی مزاحمتی گروہوں خاص طور پر حماس کو کنٹرول کرنے اور روکنے کا آلہ کار بنا ڈالا ہے۔ اپنے پست گروہی مفادات کی خطر فلسطین کاز کیلئے سرگرم سیاسی شخصیت نزار بنات کا قتل فلسطین اتھارٹی کا تازہ ترین مجرمانہ اقدام ہے۔
 
مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر فلسطینی شہریوں کے پاس اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے عوامی احتجاج اور مسلح جدوجہد اور مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی کنارے میں بھی اسلامی مزاحمتی گروہوں کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطین اتھارٹی کو اس کٹھن صورتحال میں بچانے کیلئے صہیونی حکمرانوں نے ایک بار پھر مذاکرات اور سیاسی راہ حل کا ڈھونگ رچانا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ صہیونی حکمران کی نظر میں ان مذاکرات کا مقصد محض فلسطینی عوام کو دھوکہ اور فریب دینا ہے لہذا ان سے کوئی خاطرخواہ مثبت نتائج ظاہر ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ عوامی حمایت اور حکومت کا قانونی جواز کھو دینے کے بعد ممکن ہے فلسطین اتھارٹی مکمل طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی میں تبدیل ہو جائے۔


خبر کا کوڈ: 946087

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/946087/مغربی-کنارے-کے-حالات-اور-فلسطین-اتھارٹی-کا-مستقبل-حصہ-دوم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org