1
Monday 2 Aug 2021 17:21

صہیونی کشتی پر حملے میں پوشیدہ اہم ترین پیغام

صہیونی کشتی پر حملے میں پوشیدہ اہم ترین پیغام
تحریر: رضا محمد مراد
 
جمعہ 30 جولائی 2021ء کے روز مختلف ذرائع ابلاغ نے عمان کے سواحل سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی ایک کشتی پر میزائل حملے کی خبر شائع کی۔ حملے کے فوراً بعد صہیونی حکام نے ایران پر اس کا الزام عائد کیا اور خود کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ایران آزاد پانیوں میں تجارتی کشتیوں کی آمدورفت کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا ہے جبکہ العالم نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق اسلامی مزاحمتی بلاک کے بعض باخبر ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی کشتی پر یہ حملہ درحقیقت اس جارحانہ اقدام کا بدلہ ہے جو صہیونی رژیم نے شام کے علاقے قصیر میں انجام دیا اور اس میں اسلامی مزاحمت کے دو مجاہد شہید ہو گئے تھے۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم گذشتہ طویل عرصے سے شام میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بناتی آئی ہے اور اعلانیہ طور پر ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران بھی صہیونی رژیم نے کئی بار ایسے جارحانہ اقدامات انجام دیے ہیں۔ شام کی فضائی حدود کی مسلسل خلاف ورزی کے نتیجے میں روسی حکام بھی کئی بار صہیونی رژیم کو وارننگ دے چکے ہیں۔ حتی ماسکو نے شام کو اسرائیلی میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کئی فضائی دفاعی نظام بھی دیے ہیں جن کی مدد سے اسرائیل کے کئی میزائیل حملے ناکام بھی بنائے جا چکے ہیں۔ اگرچہ روس کافی عرصے سے اسرائیل کے جارحانہ اقدامات سے چشم پوشی کرتا آیا ہے لیکن حال ہی میں اس بارے میں روسی حکام نے سخت موقف اپنایا ہے۔
 
سیاسی ماہرین کی نظر میں شام پر اسرائیلی جارحانہ اقدامات سے متعلق روس کے موقف میں یہ تبدیلی روسی صدر ولادیمیر پیوتن اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات کے بعد رونما ہوئی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ خود امریکی حکام بھی صہیونی رژیم کے اس جارحانہ رویے پر راضی نہیں ہیں۔ البتہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شام کے خلاف جارحانہ اقدامات صرف فضائی حملوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ خود صہیونی حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ اب تک کئی بار بحیرہ احمر میں ایران کے دسیوں آئل ٹینکرز کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ حال ہی میں جرمن خبررساں ادارے دویجے ویلے نے امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جرنل کے بقول لکھا کہ اسرائیل نے 2019ء کے آغاز میں کم از کم 12 ایرانی کشتیوں کو مائنوں کے ذریعے نشانہ بنایا ہے جو شام کی جانب خام تیل لے جا رہی تھیں۔
 
اس اخبار نے امریکی اور خطے کے ممالک کے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ ایرانی کشتیاں شام کیلئے خام تیل لے کر جا رہی تھیں جبکہ ان کشتیوں پر حملے سمندری مائنوں کے ذریعے انجام پائے ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل نے مزید لکھا کہ ایرانی تیل بردار جہازوں کے خلاف اسرائیلی کاروائیوں کے منظرعام پر آنے کے بعد خطے میں اسرائیل کی ایران مخالف سرگرمیوں کے نئے پہلو واضح ہوئے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی اور اقتصادی ترقی کو روکنا بیان کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی مزاحمتی بلاک اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو اپنے زیر اثر علاقے میں بدامنی پھیلانے اور شرپسندانہ سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دے گا؟ اس کا جواب بہت واضح ہے۔
 
اسلامی مزاحمتی بلاک آج اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقے میں اسرائیل کی شرارتوں کو ہر گز برداشت نہیں کرے گا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک مزید اسرائیل کی شرپسندی اور دہشت گردانہ کاروائیوں کو برداشت نہیں کرے گا اور بحیرہ عرب میں اسرائیلی کشتی پر حملہ تل ابیب کیلئے اسی اہم ترین پیغام کا حامل ہے۔ اس حملے کے ذریعے غاصب صہیونی رژیم کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلی شام پر اسرائیلی جارحانہ اقدامات سے متعلق روسی حکام کے موقف میں تبدیلی سے بھی مربوط ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسلامی مزاحمتی گروہوں کی موثر کاروائیوں کے نتیجے میں شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب اقتصادی سرگرمیوں اور جنگ سے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔
 
لہذا اسرائیل کی تجارتی کشتی پر حملہ یہ اہم پیغام بھی لئے ہوئے ہے کہ اگر اس نے اسلامی مزاحمت کی اقتصادی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو اس کے اقتصادی مفادات بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دوسری طرف چونکہ اسرائیل کی اقتصاد کا زیادہ تر حصہ سمندری تجارت پر مشتمل ہے لہذا تجارتی کشتیوں کی سکیورٹی اسرائیل کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اگر اسرائیل اقتصادی شعبے میں اسلامی مزاحمت سے مزید چھیڑ چھاڑ کرتا ہے تو اس کا زیادہ نقصان اسے خود اٹھانا پڑے گا۔ حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے شام کا دورہ کیا ہے جس کا اصلی ایجنڈہ اقتصادی تعاون پر مشتمل تھا۔ محمد باقر قالیباف نے اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ شام میں تکفیری دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اب اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 946418
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش