1
Thursday 5 Aug 2021 21:27

امریکہ چین تعلقات میں بڑھتی کشیدگی

امریکہ چین تعلقات میں بڑھتی کشیدگی
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر
 
حال ہی میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن نے چین کا دورہ کیا ہے۔ وہ ایک اعلی سطحی حکومتی وفد کی سربراہی کر رہی تھیں۔ یہ دو روزہ دورہ اتوار 25 جولائی 2021ء کے دن انجام پایا۔ یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ دونوں جانب سے ایکدوسرے پر سائبر حملوں کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں، شدید اقتصادی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں جبکہ امریکہ ایشیا اینڈ پیسیفک خطے میں چین سے مقابلے کیلئے باقاعدہ اتحاد سازی میں مصروف ہے اور ہر روز اس کی یہ سرگرمیاں مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ چین کے نائب وزیر خارجہ شی فینگ نے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات میں بہت سے گلے شکوے بھی کئے ہیں۔
 
امریکہ کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران چین کے نائب وزیر خارجہ نے کہا: "امریکہ نے چین کو اپنا خیالی دشمن بنا رکھا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہت زیادہ پیچیدگیوں اور مشکلات کا شکار ہو کر بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ اپنی اندرونی مشکلات کی ذمہ داری چین پر ڈال دینے کے درپے دکھائی دیتا ہے۔" چین کے نائب وزیر خارجہ شی پینگ نے امریکہ کے غلط پالیسی ساز اداروں اور اس کی خطرناک پالیسیوں میں اصلاح کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن نے اپنے چین دورے کے دوران چینی وزیر خارجہ وانگ ای سے بھی ملاقات کی۔ یاد رہے چینی وزیر خارجہ کئی بار اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ چین ہر گز یہ برداشت نہیں کرے گا کہ کوئی ملک دیگر ممالک پر اپنی برتری کا دعوی کرے۔
 
وینڈی شیرمن نے اپنی ملاقاتوں میں یہ دعوی کیا کہ امریکہ چین کے ساتھ سخت اور مستحکم مقابلہ بازی کا خیر مقدم کرے گا لیکن سب کو ایک جیسے حالات میں قوانین کے مطابق کھیلنا پڑے گا۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ نے چین کے خلاف بہت زیادہ سخت گیر پالیسیاں اپنائی ہیں جن کا مقصد مختلف شعبوں میں چین کو کنٹرول کرنا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن سمیت جو بائیڈن کی کابینہ میں شریک دیگر حکام کی جانب سے چین سے مساوی بنیادوں پر مقابلہ بازی اور دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کے تمام تر دعووں کے باوجود حقائق سے کچھ اور ہی ظاہر ہوتا ہے۔ جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ نے اقتصادی، تجارتی، فوجی، سکیورٹی، سیاسی اور سائبر اسپیس کے شعبوں میں چین سے شدید مقابلہ بازی شروع کر رکھی ہے۔
 
لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بائیڈن کی مدت صدارت میں امریکہ اور چین کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان شدید ٹکراو جاری ہے۔ اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان ٹکراو بہت زیادہ شعبوں تک پھیل چکا ہے جن میں اقتصادی، تجارتی، جیوپولیٹیکل، فوجی، سکیورٹی اور سائبر اسپیس شامل ہیں۔ واشنگٹن نے پہلے تو روس پر اپنے خلاف سائبر حملے انجام دینے کا الزام عائد کیا اور دعوی کیا کہ روسی ہیکرز نے امریکہ کے مختلف حکومتی اداروں، انفرااسٹرکچر اور کمپنیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اور اب امریکی حکام ایسے ہی الزامات چین پر عائد کر رہے ہیں۔ جو بائیڈن حکومت نے نہ صرف چین سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو جاری رکھا ہوا ہے بلکہ مزید متنازعہ اقدامات بھی انجام دیے ہیں۔
 
جو بائیڈن نے جی 7 سربراہی اجلاس نیز نیٹو کے سربراہی اجلاس میں چین کے خلاف دباو بڑھانے پر زور دیا ہے۔ اسی طرح امریکی صدر کی ایماء پر ہی ان دونوں سربراہی اجلاس کے اختتامی بیانیوں میں چین کے اقدامات کے بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ بائیڈن حکومت نے چین کو امریکہ کو درپیش خطرہ پیش کرنے کی بجائے مختلف شعبوں میں چین کی طاقت کے بارے میں غلط بیانی کے ذریعے اسے عالمی نظام اور استحکام کیلئے شدید خطرہ بنا کر پیش کیا ہے۔ امریکہ میں برسراقتدار آنے والی ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومتوں نے ہمیشہ سے انسانی حقوق کو سیاسی اہداف کے حصول کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لہذا اب بھی بائیڈن حکومت چین کے خلاف یہی ہتھکنڈہ بروئے کار لا رہی ہے۔
 
امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے حال ہی میں ایک بیانیہ جاری کیا جس میں چین پر سائبر حملوں نیز انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں اور یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ چین جنوبی سمندر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہے لہذا عالمی برادری کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ امریکہ مسلسل چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہانگ کانگ اور سین کیانگ کے مسئلے میں مداخلت، تائیوان کی حمایت میں اضافہ، جنوبی اور مشرقی سمندر میں سرحدی تنازعات میں مداخلت، مختلف قسم کی پابندیاں عائد کئے جانے اور چین کے خلاف نت نئے اتحاد تشکیل دینے کی کوشش ایسی وجوہات ہیں جنہوں نے امریکہ اور چین کے تعلقات کو شدید کشیدہ کر دیا ہے۔ مستقبل قریب میں امریکی وزیر دفاع کا جنوب مشرقی ایشیا کا دورہ بھی انہی اہداف کی خاطر انجام پانے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 946910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش