1
0
Tuesday 10 Aug 2021 16:41
کوٹلی امام حسین (ع)، ڈیرہ اسماعیل خان۔۔۔

علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ راجہ ناصر صاحب کیا آپکے علم میں ہے؟(2)

علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ راجہ ناصر صاحب کیا آپکے علم میں ہے؟(2)
تحریر: آئی اے خان

تحریر کے دوسرے حصے کے آغاز سے قبل ضروری تصحیح اور وضاحت
اول۔ علامہ رمضان توقیر صاحب نے نماز جمعہ کے خطبے میں اس متنازعہ 119کنال کہ جس پہ امام عالی مقام حضرت حسین (ع) کو کاشتکار قرار دیا گیا تھا، کی انتہائی مذمت کی تھی اور حکومت کے اس عمل کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

دوئم۔ ایم ڈبلیو ایم ڈی آئی خان کے کسی اقدام پر تنقید یا مخالفت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی خدمات کو فراموش کیا گیا ہے یا ان کی نفی کی گئی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف، مظلومین کی حمایت میں کلمہ حق بلند کرنے، مسنگ پرسنز کی بازیابی، عزاداری کے تحفظ اور دشمنان عزاء کی ناپاک کوششوں کو خاک میں ملانے، سیاسی اور قومی سطح پہ تشیع کو تنہا کرنے کی سازشوں کے آگے بند باندھنے اور سب سے بڑھ کر خوف و دہشت کے ماحول کو توڑ کر دشمنان تشیع اور دشمنان پاکستان کو بے نقاب کرنے میں ایم ڈبلیو ایم نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ نہ صرف لائق تحسین و ستائش ہے بلکہ سنہری حروف سے رقم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تمام خدمات اپنی جگہ تاہم ڈیرہ میں یادگار شہداء کے نام پہ لگنے والے کیمپ، اس کیمپ سے ہونے والا مطالبہ اور تعمیر کی صورت میں آئندہ پیش آنے والے حالات و خدشات بھی مسلمہ حقیقت ہیں، جنہیں تنظیمی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سوئم۔ میں شیعہ مسلمان ہوں، کلمے سمیت اپنے امور میں ولایت علی (ع) کا اقرار رکھتا ہوں اور ولایت فقیہ کا قائل ہوں۔ رہبریت سے متمسک اور عصر حاضر کے حالات و واقعات کا تجزیہ و تحلیل اسی پلیٹ فارم سے رہ کر کرتا ہوں۔ قومیات کے پیرائے میں مختلف ملی تنظیمیں، انجمنیں اور گروہ جو خدمات پیش کر رہے ہیں، ان کی تحسین و ستائش کرتا ہوں۔

یادگار شہداء کی تعمیر کا مطالبہ 
یوں تو ڈی آئی خان کی شائد ہی کوئی شاہراہ، بازار یا کوچہ و گلی ایسی ہو کہ جہاں بے گناہ مومنین کا لہو بے دردی سے نہ بہایا گیا ہو، تاہم سول ہسپتال ایمرجنسی، شوبراہ ہوٹل چوک، ڈائیو ٹرمینل، بستی ڈیوالہ چوک ملتان روڈ، نیو چونگی چوک تھویا فاضل روڈ اور کمشنری بازار ایسے مقامات ہیں کہ جہاں جلوسہائے عزاء اور جنازوں کے اجتماعات کو بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنا کر بیسیوں بے گناہ شہریوں کو لحظہ بھر میں شہید کیا گیا، تاہم ان میں سے کسی ایک مقام پہ یا اس کے نزدیک یادگار شہداء کی تعمیر کا نہ ہی کسی کو کوئی خیال آیا اور نہ ہی کوئی ایسا مطالبہ کسی جماعت یا گروہ نے کبھی کیا۔

اصولی طور پر شہداء کی وارث ہونے کی دعویدار جماعتوں کو یادگار شہداء کی تعمیر کا اصولی اور منطقی مطالبہ انہی مقامات پہ کرنا چاہیئے کہ جہاں مومنین کے اجتماعات کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا اور یہ مطالبہ اب بھی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ فوارہ چوک کو اگر گھوڑا چوک، لیاقت پارک کو اگر میلاد پارک اور جی پی او چوک کو یادگار شہداء (پولیس) سے موسوم کیا جاسکتا ہے تو شوبراہ ہوٹل چوک کو شہداء چوک یا بنوں روڈ (فوارہ چوک تا نیو چنگی چوک) کو علمدار روڈ قرار دینے میں کیا قباحت ہے۔؟ اگرکوئی قباحت نہیں تو پھر یہ مطالبہ قومی پلیٹ فارم سے کیوں نہیں کیا جاتا۔؟

بجائے ان عوامی مقامات اور شاہراہوں کو شہدائے ڈیرہ کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش کرنے کے مجلس وحدت مسلمین نے کوٹلی کے اندر ایسی جگہ پہ یادگار شہداء کے نام پر تعمیر کا آغاز کر دیا کہ جو نہ صرف پہلے سے اہل تشیع کے تصرف میں ہے بلکہ شہداء کی قبور سے متصل بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یادگاریں قبور پر بنائی جاتی ہیں۔؟ جہاں پہلے سے ہی شہداء خود مدفون ہیں، کیا وہاں کوئی بھی تعمیر شہداء کی یادگار کا درجہ پا سکتی ہے۔؟ یادگار شہداء اس ممکنہ تعمیر سے متعلق ایم ڈبلیو ایم کے مقامی عہدیداران نے مختلف مقامات پر مختلف موقف اپنائے۔

اول۔ کوٹلی کی اراضی میں شہداء کی قبور کے نزدیک تقریباً دو کنال کے ایریا میں ہال تعمیر کر رہے ہیں کہ جہاں زائرین کو قیام، طعام اور دیگر سہولیات میسر ہوں۔
دوئم۔ ایم ڈبلیو ایم کا مرکزی آفس ترتیب دیکر یہاں سے کوٹلی امام کی پوری اراضی کو واگزار کرانے اور اس کی سابقہ قانونی حیثیت بحال کرانے کی کوششیں کی جائیں گی۔
سوئم۔ ہم یہاں پہ ایک ہال تعمیر کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں شہداء کی فیملیز، خواتین قرآن خوانی و مجالس کرسکیں۔

ممکن ہے کہ تینوں موقف ہی کوٹلی کی اراضی کے مخصوص حصے میں تعمیر کیلئے ٹھوس دلائل ہوں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ زائرین کیلئے مسجد کا وسیع و عریض ہال تمام تر سہولیات کیلئے میسر ہے جبکہ خواتین عمومی طور پر بی بی کی زیارات والے حصے میں ہی عبادات انجام دیتی ہیں اور شہداء کی وارث خواتین کو آپ ہال میں جاکر قرآن خوانی کیلئے جتنا بھی کہیں، انہوں نے اپنے پیاروں کی قبور پر ہی دعا و مناجات انجام دینی ہیں، جہاں تک کوٹلی کی اراضی میں کسی بھی سیاسی، مذہبی جماعت کے دفتر کی تعمیر کی بات ہے تو یہ کلی طور پر غیر اصولی مطالبہ اور کوشش ہے۔ یاد رہے کہ کوٹلی کی زمین پر تاحال کسی بھی جماعت کا کوئی دفتر موجود نہیں ہے۔

اگر کوٹلی کی اراضی پر دفاتر کے قیام کی روش ڈالی گئی تو درجنوں مقامی انجمنیں ایسی ہیں کہ جو اپنے دفاتر کی تعمیر کا نہ صرف مطالبہ کرسکتی ہیں بلکہ اسی کوٹلی کی اراضی پر تعمیر بھی کرسکتی ہیں، اس طرح شہید فاؤنڈیشن، خیرالعمل فاؤنڈیشن سمیت کتنے ہی ایسے ویلفیئر ونگ اور تنظیمیں ہیں کہ جو طویل عرصے سے مختلف شعبوں میں خالصتاً تشیع کی خدمت کر رہے ہیں، کیا ان کا حق نہیں ہے کہ انہیں اپنے مقامی، ڈسٹرکٹ، ریجنل یا صوبائی دفاتر کیلئے جگہ فراہم کی جائے۔ علاوہ ازیں بیسیوں ایسی ماتمی سنگیتیں اور نوحہ خوان پارٹیاں ہیں کہ جنہیں عزاداری کیلئے اور نوحوں کی مشق کیلئے جگہیں درکار ہیں۔ اگر وہ پانچ پانچ یا دس دس مرلے کے پلاٹ یا ہال کمروں کا مطالبہ کریں تو کیا وہ غلط ہوگا۔؟ القصہ مختصر کسی بھی سیاسی، مذہبی جماعت یا انجمن کے دفتر کی تعمیر ایسا چلن ہوگا کہ تھوڑی مدت میں ہی کوٹلی کی اراضی پہ جا بجا رنگ برنگے بورڈ اور چندے کے بکس دکھائی دے رہے ہونگے، چنانچہ دانشمندی اسی میں ہے کوٹلی کی اراضی پر ایسی کسی بھی تعمیر سے اجتناب کرنا چاہیئے کہ جو مزید تعمیرات کا جواز فراہم کرے یا وحدت کے فروغ کے بجائے نفاق کا باعث بنے۔

یوں بھی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو ملک بھر سے تشیع کی اتنی حمایت و تائید حاصل ہے کہ جب بھی ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے اجتماع کی کال دی گئی ہے تو اس میں عوامی شرکت توقع سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں، ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کی جانب سے جب ملک گیر دھرنوں کی کال دی گئی تو ڈی آئی خان میں سرکلر روڈ بالمقابل کامرس کالج کے سامنے دیئے گئے دھرنے میں شہریوں کی کثیر تعداد شریک تھی اور مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اجتماع میں شریک افراد کیلئے وسیع پیمانے پہ نیاز و لنگر و سبیل کے انتظامات کئے، جو کہ اس بات کی غماضی ہے کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح ڈیرہ میں بھی لوگ ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت پر اعتماد بھی کرتے ہیں اور اپنے ملی مسائل کے حل و معاملات کی درستگی کیلئے اس قیادت سے بہتر اقدامات کی امید بھی رکھتے ہیں۔ ڈی آئی خان کے یہی شہری اگر ایم ڈبلیو ایم ڈیرہ کے کسی موقف یا اقدام سے اختلاف کرتے ہیں تو مرکزی و صوبائی ذمہ داران کو اس معاملے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔

مختلف ملی جماعتوں کے مقامی عہدیداران یہ شکوہ کرتے ہیں کہ سٹی کی تشیع کمیونٹی ان سے تعاون نہیں کرتی، ان سے سوال ہے کہ جناب اور کتنا تعاون چاہیئے۔ 1988ء سے لیکر تاحال جب بھی آپ نے کسی بھی قومی مسئلہ پر کال دی۔ عوام پہنچ گئے۔ آپ نے بیٹھنے کو کہا تو وہ بیٹھ گئے۔ حکم ہوا اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ گئے۔ 30 ستمبر 1988ء سے لیکر تاحال یہی روش چلی آرہی ہے، مقامی شہری نام حسین (ع) پر، راہ حسین (ع) میں اپنا سب کچھ قربان کرتے چلے آرہے ہیں۔ جان، مال، خواب سبھی کچھ قربان کر رہے ہیں، مگر شہر میں معاشرے پر اور قومی سطح پر اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔

دور کیوں جائیں، ڈی آئی خان میں 80 کی دہائی سے لیکر تاحال اہلسنت والجماعت اور دیگر مسالک کی کتنی مساجد، مدارس و عبادتگاہیں تعمیر ہوئی ہیں، رجسٹرڈ ہوئی ہیں اور معاشرے میں اپنے وجود کا عملی اظہار کر رہی ہیں۔ دوسری جانب سینکڑوں شہادتوں اور ہر قسم کی دہشتگردی کا نشانہ بننے کے باوجود یہاں کی تشیع کمیونٹی نہ ہی کسی حکومتی پراجیکٹ میں اور نہ ہی ذاتی سطح پہ کوئی امام بارگاہ، عزاء خانہ نہیں بنا پائی۔ جس طرح دیگر مسالک و مکاتب کی آبادی میں اضافے کے بعد ان کی ضروریات میں اضافہ ہوا، کیا شیعہ آبادی میں اور ان مذہبی ضروریات میں اضافہ نہیں ہوا۔؟

دہشت گردی کا شکار ہونے والے کئی خانوادے ایسے ہیں کہ جن کے واحد کفیل دہشتگردی کی نذر ہوگئے۔ ایسے خانوادوں میں تعلیم و ہنر کی بنیاد پر سرکاری  ملازمتیں اسی اصول پہ دی جانی چاہیئں کہ جس اصول پر اداروں میں سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں، کیونکہ حکومت کی جانب سے ایک دفعہ کی گئی معمولی مالی امداد کسی بھی خانوادے کی تا زندگی ضروریات پوری کرنے کیلئے قطعاً ناکافی ہے۔ لہذا قومی جماعتوں کو اس مد میں بھی آواز بلند کرنی چاہیئے۔ یوں بھی شہداء کی حقیقی یادگاریں تو ان کی آل اولاد ہوتی ہے۔ ان کی تعمیر و ترقی کیلئے زیادہ سے زیادہ وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

اگر یادگار شہداء کی علامت کیلئے تعمیر ناگزیر ہے تو جہاں جہاں اہل تشیع کے اجتماعات کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وہاں اسی طرز پہ یادگار شہداء قائم کی جائے کہ جس طرز پر جی پی او چوک یا دریا پر قائم کی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں رواج ہے کہ اگلے جہان میں رحلت کرنے والے پیاروں کی یاد میں فلاحی اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ ٹرسٹ قائم کئے جاتے ہیں۔ ہسپتال، سکولز، نگہبان (یتیم خانے، خصوصی افراد کیلئے سنٹر) و دارالامان یا پھر لنگر خانے قائم کئے جاتے ہیں۔ یہاں سینکڑوں شہادتوں کے باوجود شہر بھر میں کوئی ایک بلڈبینک تک قائم نہیں ہوسکا، بلڈ بینک تو دور ڈسپنسری تک نہیں بن سکی اور تو اور کمیونٹی میں اعلٰی درجے کے ڈاکٹرز کی موجودگی کے باوجود کوئی تنظیم، انجمن اس کام کا ہی بیڑہ نہیں اٹھا سکی کہ تشیع کمیونٹی کی خدمت کیلئے ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر میڈیکل کیمپس لگائے۔

اسی طرح انہی تنظیموں میں پروفیسرز، لیکچرز، ٹیچرز کی موجودگی کے باوجود ضلعی سطح پر تعلیم و تربیت کیلئے بھی کسی اچھے ادارے کی داغ بیل نہیں ڈالی جاسکی (محض ٹیوشن کی حد تک بھی)۔ بعین اسی طرح کیرئیر گائیڈنس اور کمیونٹی میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ شہداء کے خانوادوں کی فلاح کیلئے سوچا بھی گیا تو بھی ذہنیت سلائی مشین تک محدود رہی۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مرکزی سطح سے ان امور پہ ترجیحی بنیادوں پہ کام ہوتا۔ ڈی آئی خان کی تشیع کمیونٹی میں ایک عرصہ تک اسی امید سے جڑی رہی کہ جو کارنامے دیگر جماعتوں نے انجام نہیں دیئے، وہ یہ جماعت ضرور انجام دے گی اور ان امور پر خاطر خواہ کام کرے گی۔ یہ سوچ کر ہی جی ہلکان ہوتا ہے کہ جن سے وابستہ امیدوں کا معیار اتنا بلند ہو۔۔۔ وہاں۔۔ بات گھوم پھر کے وہیں آجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 947769
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ابو شاہریز علی
Pakistan
السلام علیکم۔
آپ کا درد دل یقینی طور پر بجا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کے شہداء کی قربانیوں کو سلام۔ کوٹلی امام حسینؑ کا مسئلہ یقینی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، قیادت ایک گائیڈ لائن فراہم کرسکتی ہے اور ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈیرہ میں شیعہ قیادت نے وہ حق ادا نہیں کیا جس کی ضرورت تھی، اسے مسائل کی بہتات کہیں یا عدم توجہی، تاہم یہ بھی حقیقیت ہے کہ کوٹلی کے مسئلہ پر خود ڈیرہ کے مومنین اور مقامی تنظیمی قیادت بھی ایک پیج پر نہیں، کوئی سمت واضح نہیں کہ اس اراضی پر آخر کیا ہونا چاہیئے۔؟ آیا اسی طرح شہداء کی قبریں بنتی رہیں، یا تنظیمیں اپنے دفاتر بنانے کے مطالبات کرتی رہیں۔
میری خواہش ہوگی کہ آپ نے جس باریکی سے اس مسئلہ کی طرف متوجہ کیا تو ایک تحریر یا تحقیقی مکالہ اس موضوع پر بھی دیں کہ آیا کوٹلی کا مسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے اور اس اراضی کا بہترین استعمال کیا ممکن ہے۔ جزاک اللہ
ہماری پیشکش