0
Friday 13 Aug 2021 11:30

آو ایک کام کریں، کربلا عام کریں

آو ایک کام کریں، کربلا عام کریں
تحریر: محمد حسن جمالی

محرم و صفر پیغام کربلا عام کرنے کے ایام ہیں۔ کربلا اسلام کے درخشاں اصول و فروع پر مشتمل تعلیمات کی عملی تصویر کا نام ہے۔ جب یزید پلید نے برسر اقتدار آتے ہی اسلام کے خلاف محاذ آرائی شروع کی، دھیرے دھیرے اسلام دشمنی کے دائرے کو وسعت بخشی، ایک ایک کرکے اسلامی اصول و اقدار کو دفنایا، یہاں تک کہ اس نے دینی بنیادی قوانین کو یکسر نظر انداز کرکے خلاف شریعت نظام کے تحت معاشرے کو چلانا چاہا اور حلال محمد کو حرام اور حرام محمد کو حلال کرنے کی سازش کو عملی بنانے کی کوشش کی تو وارث اسلام، نواسہ رسول، زہراء کے لال حضرت حسین ابن علی (ع) نے اس کے خلاف قیام کیا۔ لوگوں کو یزید کی قباحتوں اور ناروا حرکتوں سے آگاہ کیا، اپنے اور اپنے عزیزوں کے لہو کی قربانی دے کر نانا کے دین کی حفاظت کی۔ یوں آپ کی بے نظیر فداکاری و جان نثاری کی بدولت سن 61 ہجری میں کربلا کی سزمین پر اسلام کو حیات نو ملی اور اسلامی اقدار دوبارہ زندہ ہوکر حیات جاودانگی سے مالامال ہوئیں۔

حسین ابن علی (ع) نے تو اپنا سب کچھ دے کر دین اسلام کو تحفظ فراہم کیا اور اسے صحیح و سالم امت کے سپرد کیا، اب یہ امت مسلمہ کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دین مصطفیٰ پر آنچ نہ آنے دی جائے، اس کی تعلیمات کو یزیدیت کی تحریف اور غلط تفسیر سے بچانے کے لئے چوکس رہے اور اسلام کے صحیح اصولوں سے لوگوں کو آشنا کرنے کرنے کے لئے مقدور بھر جدوجہد جاری رکھی جائے۔ مبلغین دین کی تو یہ شرعی اور منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماہ محرم و صفر میں خصوصی طور پر تبلیغ دین کے سلسلے کو جاری رکھیں۔ آیئے ہم اسے ایک مکالمے کی شکل میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک جگہ جناب شیخ سلمان اور سینیئر طالب علم نور بخش کی ملاقات ہوئی۔ شیخ صاحب نے سلام میں پہل کرتے ہوئے کہا: سلام آقای نور بخش جان، طالب علم نور بخش نے سلام کے جواب میں کہا وعلیکم السلام برادر بزرگوار۔ شیخ نے احوال پرسی کرتے ہوئے کہا کیف انتم؟ نور بخش نے کہا معذرت میں عربی میں مکالمہ نہیں کرسکتا، اگر ممکن ہو تو اردو زبان میں بات کیجئے۔ شیخ سلمان نے کہا چلیں بتایئے کیا حال و احوال ہیں؟ نور بخش نے کہا جی شکر خدا، بالکل تندرستی سے اپنی پڑھائی میں مصروف ہوں۔ شیخ نے پوچھا اچھا یہ بتاو اس سال ایام محرم میں تبلیغ کے لئے کیوں تشریف نہیں لے گئے؟ نور بخش نے کہا قبلہ یہ تو آپ جانتے ہی ہے نا کہ اس سال پوری دنیا کرونا وبا کی لپیٹ میں ہے، اپنے وطن جانے کے تمام راستے بند ہیں اور ایران کی کرنسی کے حالات تو ناگفتہ بہ ہیں ہی تو اس سنگین صورتحال میں تبلیغ کے لئے جانا ممکن نہ ہوا۔ شیخ دوبارہ گویا ہوئے اور کہا؛ بات آپ کی مبنی بر حقیقت ہے، اچھا ذرا یہ بتا دیجئے کہ یہاں حوزے میں تبلیغی فعالیتیں سرانجام دے رہے ہیں؟ نور بخش نے جواب میں کہا آقا جان یہاں تو درس و بحث میں ہی وقت گزار رہا ہوں، کوئی تبلیغی سرگرمی نہیں، کیونکہ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ یہاں تو ہمیں تبلیغ کے لئے زمینہ فراہم نہیں و۔۔۔

شیخ نے بڑے تعجب سے کہا ارے بھیا، یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ اس طرح کی باتیں آپ جیسے محنتی طالب علموں سے بعید ہیں! ہم تو اکیسویں صدی کے پیشرفتہ ترین زمانے میں جی رہے ہیں، اس ترقی یافتہ دور میں پوری دنیا سمٹ کر ہماری جیبوں میں آئی ہوئی ہے، آپ بڑی آسانی سے سوشل میڈیا پر اپنے تبلیغی فریضے کو بحسن و خوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ نور بخش نے غور سے ان باتوں کو سننے کے بعد شیخ سے مخاطب ہو کر کہا قبلہ سوشل میڈیا پر ہمیں کون سنتا ہے؟ آج کل بڑے بڑوں کو لوگ توجہ نہیں دیتے، ہماری تو اتنی حیثیت بھی نہیں، ہم اگر کچھ کرنا چاہیں تو سوشل میڈیا پر کیا کرسکتے ہیں؟ شیخ صاحب نے کہا عزیزم پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں، اگر لوگ آپ کو نہیں سنتے ہیں تو کوئی بات نہیں، آپ کا اپنا فریضہ تو پورا ہوگا نا۔ بالعموم ہمیں اپنی پوری زندگی میں اور ایام محرم و صفر میں بالخصوص مکتب ناب اسلام محمدی کے تبلیغی مشن کو جاری رکھنا ضروری ہے، یہ دیکھے بغیر کہ ہماری باتوں سے کتنے لوگ استفادہ کرتے ہیں اور کتنی تعداد ہم سے متاثر ہو جاتی ہے و۔۔۔

البتہ اس بات پر توجہ رہے کہ اگر لوگ ہمیں نہیں سنتے ہیں، ہماری باتوں پر توجہ نہیں دیتے ہیں یا وہ ہماری گفتگو اور تبلیغی سرگرمیوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں تو یقین کیجئے ہماری تبلیغی فعالیت میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہے۔ ہماری تبلیغ، صحت و قبولیت کی شرائط کی حامل نہیں۔ اس مطلب کو کھول کر بیان کرنا چاہوں تو یہ ہے کہ ہماری نیت میں کھوٹ ہے، یعنی اس میں اخلاص کے بجائے ریا کاری اور شہرت کا عمل دخل ہے، ہمارے پیغامات قرآن و احادیث سے خالی ہیں جبکہ یہ دونوں دین مبین اسلام کی تبلیغ کا اصلی منبع و سرچشمہ شمار ہوتے ہیں، ہم نے اپنے بیانات میں تحقیقی صداقت پر مبنی مواد کو شامل کرنے کی بجائے سنی سنائی غیر حقیقت کی صفت سے لبریز جعلی قصے کہانیاں سنانے پر اکتفا کیا ہے، ہم نے لوگوں کو دین سمجھانے کی جدوجہد کرنے کی بجائے ان پر اپنی قابلیت کا سکہ جمانے کی کوشش کی ہے و۔۔۔۔ اگر ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے قرآن اور احادیث معصومین (ع) کا پرچار کریں گے تو یقین کیجئے ہر حال میں سننے، دیکھنے اور پڑھنے والوں پر اس کا مثبت اثر ضرور ہوگا۔ لہذا ہمیں اپنی ادا پر نظرثانی کرنا ضروری ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر ہم کیسے تبلیغی سرگرمی جاری رکھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب سادہ ہے۔ دیکھیں آج کل دنیا کے تمام جوانوں کا محبوب مشغلہ فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال ہے، خاص طور پر فیس بک پر تو وہ شب و روز مصروف رہتے ہیں، ہم انہیں ذرائع سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں۔ آپ فیس بک اور واٹس ایپ پر چند گروپ تشکیل دیں، جن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ جوانوں کو ایڈ کریں، پھر ان میں ان کی ذھن سازی پر کام کریں- ان گروپس میں روزانہ کی بنیاد پر تعمیری مواد بھیجیں، ان کی فکری تربیت اور اصلاح کے لئے اچھے اسلوب میں قرآن و احادیث کی تعلیمات سے ماخوذ مطالب شیئر کئے جائیں۔ اس بات پر ذرا غور کیجئے گا کہ ایک اعتبار سے عوام میں جا کر تبلیغ کرنے کی نسبت سوشل میڈیا پر کی جانے والی تبلیغی جدوجہد کا اثر کہیں زیادہ ہوگا، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دیکھنے، سننے اور پڑھنے والے سب کے سب کمیت اور کیفیت کے فرق کے ساتھ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، جبکہ معاشرے میں لوگوں کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے۔

البتہ اس میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں سوشل میڈیا کے درست استعمال سے واقف ہونے کے ساتھ گروپس میں اچھی مدیریت کرنے کے گر پر مہارت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ سوشل میڈیا پر مذہب حقہ کے خلاف زہر پھیلانے کے لئے بنے ہوئے مختلف گروپس میں گھس کر بھی اپنے مذہب کا دفاع کرسکتے ہیں۔ آج کے دور میں مومنین کو گمراہ کرنے کے لئے ہزاروں ٹی وی چینلز کی راہ اندازی کے علاوہ سوشل میڈیا پر ملت تشیع خاص طور پر ایران، نظام ولایت فقیہ، آیات عظام اور عزاداری کے خلاف پراییگنڈہ کرکے جوانوں کے شاداب پاکیزہ ذہنوں کو آلودہ کرکے انہیں راہ حق سے بھٹکانے کے لئے بے تحاشا گروپس میں شیطان کے چیلے سرگرم ہیں۔

ہمیں اس بات کا بھی علم ہونا چاہیئے کہ بعض مذہبی لوگ خاص طور پر مدارس کے فارغ التحصیل نام نہاد مفتی و ملے نفاق کا لباس اوڑھ کر نصوص قرآنی سمیت خاتم المرسلین کے فرامین و احادیث کی من گھڑت بے بنیاد تفسیر و تاویل کرکے عوام الناس اور پڑھے لکھے جوانوں کو حقائق سے دور رکھنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ فریقین شیعہ سنی دونوں کی معتبر کتابوں میں تواتر سے نقل ہونے والی حدیت غدیر (من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ) میں انہوں نے کتنی ڈھٹائی اور بے شرمی سے عقل انسانی کی ناپسند، غلط بے سروپا تفسیر و تاویل کرکے جوانوں پر حق چھپا رکھنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ اس ناروا حرکت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے انہوں نے مختلف کلپس میں حضرت علی (ع) کی خوب مدح و تمجید کرکے سوشل میڈیا پر انہیں وائرل کیا ہے، تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم بھی علی کے دوست ہیں، ان کے چاہنے والے ہیں۔۔

یوں انہوں نے سوشل میڈیا کے صارف مخاطبین و ناظرین کو نفسیاتی طور پر اپنی من گھڑت تفسیر کو قبول کروانے کے لئے پہلے آمادہ کیا، پھر اپنے منحوس ہدف کو جامہ عمل پہنا دیا ہے!! اسی طرح حالیہ دنوں میں بعض نادان افراد عزاداری سالار شھیدان حضرت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کو کم رنگ کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر واویلا کر رہے ہیں۔ اس ہدف تک رسائی کے لئے کبھی وہ یزید کی تعریفیں کرکے نہیں تھکتے ہیں تو بعض اوقات اسے صحابی کی کٹیگری میں شامل کرکے اس کے ناقابل معاف جرم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہر صورت تمام حسینیت کو دعوت دی جاتی ہے کہ کم از کم ماہ محرم و صفر میں اس شعار کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایکٹیو رہیں کہ آو ایک کام کریں، کربلا عام کریں۔
خبر کا کوڈ : 948369
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش