1
Friday 13 Aug 2021 23:50

کربلا کا "آخری شہید" اور پہلا مدافع ِحرم

کربلا کا "آخری شہید" اور پہلا مدافع ِحرم
تحریر: توقیر کھرل

کربلا کے آخری شہید ہفہاف بن مہند راسبی ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں آپ کا تذکرہ معروف 72 شہدائے کربلا کے ساتھ نہیں ملتا۔ آپ اُس وقت کربلا پہنچے، جب امام حُسینؑ شہید ہوچکے تھے۔ ہفہاف کا تعلق بصرہ سے تھا۔ آپ بصرہ کے بزرگ، شجاع اور دلیر افراد میں سے ایک شمار ہوتے تھے۔ آپ امام علی علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں میں سے تھے اور آپ کے ہمراہ تین جنگوں میں حصہ بھی لیا تھا۔ جنگ صفین میں حضرت کی طرف سے قبیلہ ازد کی سرداری اور کمان پر بصرہ کیلئے معین کئے گئے تھے۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد امام حسنؑ کے باوفا ساتھیوں میں سے بھی شمار ہوتے تھے، گویا ہر دور میں وقت کے امام کے تابع و فرمابردار رہے۔ ہفہاف بصرہ میں مقیم تھے، جب معلوم ہوا کہ امام حسین مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہوچکے ہیں تو آپ بصرہ کے محاصروں اور یزیدی جاسوسوں سے آنکھ بچا کر کربلا کی طرف پہنچے۔ جس وقت کربلا پہنچے تو شہادت کی جنگ ختم ہوچکی تھی، امام حُسینؑ بھی شہید ہوچکے تھے۔

ہفہاف نے لشکر یزید سے دریافت کیا کہ میرے مولا امام حُسین کہاں ہیں۔ جواب میں پوچھا گیا تم کون ہو؟ بتایا کہ میں ہفہاف راسبی ہوں اور بصرہ سے حسینؑ کی مدد کیلئے آیا ہوں۔ بتایا گیا یہ حسینؑ کا خیمہ گاہ ہے، جس پر لشکر نے حملہ کیا ہے۔ ہفہاف نے جب یہ خبر سنی کہ سید الشہداء شہید ہوچکے ہیں اور اب لشکرِ یزید کا خیموں کو لوٹنے کا ارادہ ہے تو نیام سے تلوار نکال لی۔ اسی اثناء میں ابن سعد نے حکم دیا کہ خیموں کو لوٹ لیا جائے تو آپ خیام کے سامنے کھڑے ہوگئے اور حرم ِآل رسول کا دفاع کرنے لگے۔ ابن سعد نے ایک گروہ کی مدد سے جنابِ ہفہاف پر حملہ کروا دیا۔ لشکرِ یزید کا راسبی قبیلے کے سردار ہفہاف سے جب مقابلہ مشکل ہوا تو گھوڑے کے پاوں کاٹ دیئے گئے، اس کے باوجود لشکر یزید سے نبردآزما رہے اور یہی کہتے رہے کہ میں ہرگز تمہیں خیام حرم ِ رسول ۖ کی طرف نہیں بڑھنے دوں گا، جب تک زندہ ہوں، مقابلہ کروگا۔

خیمہ کے اندر سے جب امام زین العابدین علیہ السلام نے آپ کو جنگ لڑتے دیکھا تو تاریخ ساز جملہ فرمایا کہ "جب سے بعثت ہوئی ہے، دنیا نے خیبر شکن علی کے بعد ایسا بہادر و شجاع کم ہی دیکھا ہوگا۔" امام ِ وقت امام زین العابدین علیہ اسلام کی زبانِ اطہر سے ہفہاف کی بہادری اور شجاعت کی ستائش کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ ہفہاف بن مہند جنگ کرتے ہوئے یہ رجز دہرا رہے تھے "اے اسلحہ سے تیار شدہ لشکر یزید، میں ہفہاف ہوں، مہند کا بیٹا اور میں محمدۖ کے خیموں پر حملہ نہیں کرنے دوں گا بلکہ آل رسول کی حمایت کروگا۔" جنابِ ہفہاف بن مہند تن تنہاء جنگ کرتے رہے، بہت زیادہ زخم کھائے، پورا بدن خون میں لت پت تھا۔ یزیدیوں نے آپ کا محاصرہ کرکے شہید کر دیا۔ شہیدِ کربلا ہفہاف بن مہند راسبی نے سلامتی اور زندگی کے راستے کو اپنایا اور عاشورہ کے روز امام حسین سے جا ملے۔

شہید ہفہاف نے وقت کے امام کی محبت میں جام شہادت نوش کیا اور رہتی دنیا اہل وفا کو یہ درس دیا کہ "شہادت" اپنے آپ کو چھوڑ کر حق سے مل جانے کا نام ہے۔ شہادت بقاء ہے، دیدارِ امام، وصال اور کامیابی کا نام ہے۔ قافلہ حسین سے پیچھے رہ کر بھی محبتِ حسینؑ میں یزیدیوں سے برسرِ پیکار رہ کر شہادت کا درجہ پایا جا سکتا ہے۔ ظاہری طور پر کربلا میں شہید ہونے والے شہداء میں ہفہاف آخری شہید ہیں، مگر پہلے شہیدِ مدافع حرم ہیں اور رہتی دنیا تک پیشوائے شہدائے مدافعانِ حرم ہیں۔ شہید کربلا ہفہاف نے عاشور کے روز ہمیں یہ درس دیا کہ وقت کے امام کی صدا کہ "کوئی ہے جو حرم آلِ رسول کی حفاظت کرے۔" پر لبیک کہتے ہوئے شجاعت اور دلیری سے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ یوں کربلا سے ہی مدافعین حرم کا عزم کہ ہم جب تک زندہ ہیں، حرم ِآل رسول کی حفاظت کریں گے، کا آغاز ہو جاتا ہے۔ شہید ہفہاف کربلا کے آخری لیکن قیامت تک حرم ِآل رسول کے مدافعان کے پیشوا ہوئے۔ شہید محسن حججی، شہید مردِ میدان سمیت ہزاروں شہداء نے شہید ہفہاف سے درسِ وفا و عزم دفاعِ حرم رسول کرتے ہوئے شہدائے مدافعان حرم کی فہرست میں اپنا نام بھی شامل کیا اور خود کو شہدائے کربلا سے متصل کرلیا۔
خبر کا کوڈ : 948437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش