QR CodeQR Code

کابل میں طالبان کی عبوری حکومت قائم

15 Aug 2021 16:30

اسلام ٹائمز: کم سے کم چین کو معلوم ہے کہ پاکستان، افغانستان اور سینٹرل ایشیاء میں امریکا جڑوں تک بیٹھا رہا ہے۔ چین جانتا ہے کہ امریکی لابی کس کس ملک میں کتنی مضبوط ہے۔ امریکی اداروں کا انفراسٹرکچر، نیٹ ورک، یہ سب کچھ چین جانتا ہے۔ یہی وہ وجوہات تھیں کہ چین نے ایران کو اہمیت دی اور پچیس سالہ معاہدہ کیا۔ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین حکومت کو امریکی سعودی لابی کے کہنے میں آکر ماضی جیسی یا کوئی نئی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ پاکستانی قوم کو یاد ہے کہ پاکستان میں ایران اور چین کے مفادات پر حملہ آور کون تھے اور کون ہیں۔؟ لہٰذا افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی بیان کی جاتی رہی ہے، اسی پر عمل کرنے سے ہی پاکستان کی ساکھ بچ سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے افغانستان کی تو نئے طالبان نے تو 2021ء ہی میں دو برسوں کا طویل سفر کرکے دکھا دیا۔ پہلے تو وہ 1994ء میں شروع ہوئے تھے تو 1996ء میں کابل پہنچے تھے! یہ پچھلوں سے زیادہ تیز ہیں! خدا خیر کرے۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں۔ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، اشرف غنی عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کا رسمی اعلان کرچکے ہوں۔ ترکی کے روزنامہ صباح نے اپ ڈیٹ کیا ہے کہ طالبان نے افغانستان حکومت سے غیر مشروط استعفیٰ اور سرینڈر کا مطالبہ کیا تھا۔ استنبول سے مزید یہ خبر آچکی ہے کہ طالبان نے کابل میں عبوری حکومت قائم کر دی ہے۔ حالانکہ رائٹر نے خبر دی تھی کہ مستقبل کے لیے کسی سیاسی نظام اور حکومتی سیٹ اپ پر اتفاق رائے قائم کرنے تک ایک عبوری سیٹ اپ بنے گا، جس میں طالبان بھی شامل ہوگی۔ چونکہ زمینی حقائق آج بہت تیزی سے تبدیل ہونے جا رہے ہیں تو مستقبل کی بجائے اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ عین امریکی فوجی انخلاء کی ڈیڈلائن پوری ہونے سے پہلے ہی وہ سیاسی نظام اور سیٹ اپ کہ جو بین الاقوامی برادری کی نظارت میں افغانستان کی متنوع آبادی کے مختلف نمائندگان نے مل جل کر بنایا اور قبول کیا تھا، وہ اتفاق رائے سے بننے والا نظام ہی لپیٹ دیا گیا!؟ یعنی سیاسی نظام کا ایک خلاء۔ حالانکہ وہ سیاسی نظام ایسا تھا کہ اس کی تیاری میں صرف انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہی ملوث نہیں تھی بلکہ خطے کے اہم ترین کردار پاکستان اور سعودی عرب بھی آن بورڈ رہے۔ حتیٰ کہ جرمنی کے شہر بون میں جو بین الاقوامی اجتماع برائے افغانستان ہوا تھا، اس میں ایران بھی شریک رہا۔ تو جب افغانستان کی آبادی کی ساری اکائیوں کے نمائندگان نے بین الاقوامی سرپرستی میں کسی آئین، نظام اور سیٹ اپ پر متفق ہوکر نافذ کیا تھا اور اس کے تحت آئینی ادارے بھی بنے، الیکشن بھی ہوئے اور آج تک اسی کے تحت حکومتیں بھی بنیں، تو اب ایسی کونسی مصیبت نازل ہوگئی کہ اس نظام ہی کو لپیٹ دیا گیا۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ افغانستان بغیر کسی باقاعدہ آئین و قانون کے تحت رہے گا اور اس وقت تک رہے گا کہ جب تک نیا آئین،یا قانون اور نیا نظام نہ صرف یہ کہ بن نہ جائے بلکہ عوام ریفرنڈم اور الیکشن کے ذریعے اس پر مہر توثیق ثبت نہ کر دیں۔  طالبان کے تحت تو یہ سب کچھ نہیں ہونا۔

حکومت پاکستان کی لائن یہ رہی ہے کہ بذریعہ طاقت کابل پر ٹیک اوور کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد جس طرح طالبان باآسانی کابل میں داخل ہوئے ہیں،  یہ بھی ایک حیرت انگیز ڈیولپمنٹ ہے۔ افغانستان کے وہ ادارے جن پر بڑے بڑے الزامات تھے کہ وہ اتنے طاقتور تھے کہ پاکستان کے اندر بقول ہماری حکومت کے دہشت گردی کیا کرتے تھے، انہوں نے اپنے دارالحکومت کو بچانے کے لیے برائے نام مزاحمت بھی نہیں کی۔ تو کیا یہ سب کچھ فکسڈ میچ نہیں لگ رہا کہ پہلے سے یہ اسکرپٹ لکھا جاچکا کہ کس نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔؟ پھر یہ کہ طالبان بلاشرکت غیرے افغانستان پر حکومت کرنے کے مدعی رہے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اب تک مسلح جدوجہد بھی کی ہے۔ تو رائٹر کو یہ خبر کس نے دی تھی کہ وہ کابل پر مسلح ٹیک اوور کی بجائے پرامن طور پر داخل ہوکر پرامن رہ کر اور مستقبل کے لیے کسی عبوری سیٹ اپ کا حصہ بن رہے ہیں، جبکہ افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی سیٹ اپ بنے گا، اس میں لسانی اور مسلکی اکائیوں کی نمائندگی تو لازم قرار پائے گی۔ اگر ترکی کے روزنامہ صباح کی رپورٹ درست ہے تو اب طالبان آچکے ہیں۔ کیا وہ دیگر غیر طالبان پشتونوں کی اقتدار میں شرکت کو قبول کریں گے۔؟ کیا ہزارہ افغانی، ازبک و تاجک آبادی شریک اقتدا ہوں گے۔؟ ملا عمر کی طالبان سے تعلق رکھنے والے کئی کمانڈرز اور ماتحتوں نے حامد کرزئی کے دور حکومت سے فیضیاب ہونا شروع کر دیا تھا اور یہ کھلی پیشکش سبھی کے لیے رہی تھی کہ شریک اقتدار ہو جاؤ۔ لیکن طالبان کے عنوان سے کچھ کمانڈرز مخالف رہے۔ ملا عمر نے تو بلاشرکت غیرے حکومت کی، نہ الیکشن نہ آئین، نہ سیاسی نظام۔

ایک رائے یہ سامنے آئی کہ ملاعمر کے دور میں جس طالبان نے حکومت کی یا ملا عمر کی وہ باقیات جس نے مسلح جدوجہد کو جاری رکھا، موجودہ طالبان ان سے مختلف ہیں۔ کیا یہ موقف درست مان لیا جائے کہ موجودہ طالبان نئے طالبان ہیں، پرانے والوں کا خاتمہ ہوچکا!؟ یا یہ وہی پرانے والے ہیں یا اس کا تسلسل ہیں، لیکن اب ان کے نظریات تبدیل ہوچکے ہیں۔؟ موجودہ طالبان کا عمل بتائے گا کہ یہ پچھلے والوں سے مختلف ہیں یا نہیں، لیکن اب تک جو کچھ ہوا ہے، یہ سب کچھ مشکوک معاملہ ہے۔ امریکا کی ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ حکومت نے قطر میں طالبان سے معاہدہ کیا۔ اب جوزف بائیڈن کی صدارت میں امریکی حکومت بہت ہی پراسرار شرافت کے ساتھ انخلاء کر رہی ہے۔ کیا یہ مشکوک معاملہ نہیں کہ امریکی افواج کی موجودگی میں موجودہ طالبان اشرف غنی حکومت اور افواج کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے اور جونہی کابل میں امریکی سفارتخانے سے بذریعہ ہیلی کاپٹر انخلاء ہوا، طالبان کابل میں داخل ہونے لگے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ دوحہ سے ملا عبدالغنی برادر افغانستان کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ قطر میں طالبان دفتر نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کو کابل سے متعلق کہا ہے کہ تشدد سے گریز کریں، جو بھی کابل چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتا ہے، اسے جانے دیں اور خواتین سے درخواست کریں کہ وہ محفوظ مقامات کی جانب کوچ کریں۔ دوسری جانب طالبان نے کابل میں یاحسین ؑ لکھے جھنڈے اتار دیئے ہیں، یہ وڈیو کلپ پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوا ہے۔

افغانستان کی صورتحال کو پاکستان کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ پاکستان سمیت کم و بیش سارے اہم ممالک کہنے کی حد تک افغانستان سے متعلق ایک ہی پالیسی رکھتے ہیں کہ افغانستان میں سبھی نمائندہ اکائیوں کے مکالمہ سے ان سبھی کی نمائندگی پر مشتمل مقتدر سیاسی نظام بنے۔ حالانکہ وہ سیاسی نظام تو بون کانفرنس کے نتیجے میں بن چکا تھا۔ لیکن موجودہ طالبان ہی اسے قبول کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔ اسے چھوڑیں اور اس پر غور فرمائیں کہ پاکستان کو اب تک کی صورتحال سے کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان ہوا۔ کم سے کم بھارت کے ساتھ جو کچھ مزار شریف میں ہوا، وہ یقیناً نائن الیون کے بعد قندوز سے پاکستانیوں کے فرار کا مکافات عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ بھارت کی حد تک تو پاکستان حکومت خوش ہوسکتی ہے، لیکن مزار شریف یا ازبک افغانی علاقوں کے سقوط سے ترکی پاکستان حکومت سے کسی طور خوش نہیں ہوسکتا۔ ترکی یہ سوچ سکتا ہے کہ پاکستان کی حکومت ترکی کے منظور نظر مارشل رشید دوستم کے مقابلے پر طالبان کا ساتھی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی کے وزیر دفاع پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور اب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی ترکی کے تین روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔ پاکستان کے لیے ترکی ایک اہم ملک ہے۔ اس کی ناراضگی نقصان دہ ہے۔ اسی طرح افغانستان کے تناظر میں پاکستان ایران تعلقات کا معاملہ بھی اہم ہے۔ پہلے بھی ایرانی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہوئے طالبان کی حمایت نے پاکستان کو جس بھیانک مکافات عمل سے دوچار کیا ہے، یہ مقام عبرت تھا۔ بس اتنا معلوم ہے کہ ایران بھی افغانستان کے موجودہ طالبان سے رابطے کا براہ راست چینل رکھتا ہے، اس لیے اس مرتبہ پاکستان اور ایران کے مابین افغانستان کے معاملے پر دوریاں نہیں ہونی چاہئیں۔

پاکستان کے لیے چین بھی ایک اہم ملک ہے۔ چین سے جو اشارے مل رہے ہیں، اس میں بھی ناراضگی کا عنصر چھپائے نہیں چھپ رہا۔ داسو ڈیم جانے والی بس میں دھماکہ سے چینی شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ شاید چین یہ محسوس کرتا ہے کہ حکومت پاکستان نے دانستہ طور پر اس کو ٹیکنیکل فالٹ کے سبب ہونے والا دھماکہ قرار دے کر امریکا کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان حکومت نے بعد میں اسے دہشت گردی مانا اور تحقیقات کیں، لیکن الزام بھارت اور افغانستان پر لگایا، جبکہ بھارت اور افغانستان کی این ڈی ایس خود امریکی و نیٹو ایساف افواج کے رحم و کرم پر تھے۔ پھر یہ کہ تاجکستان، ازبکستان و ترکمانستان کی افغانستان سے ملتی ہوئی سرحدی پٹی چین کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ اس پٹی سے چین کا ریلوے نظام منسلک ہے اور یہی پٹی چین کو ایران اور کیسپیئن سمندر سے ملاتی ہے اور افغانستان کی اسی پٹی پر چین کا سی پیک منصوبہ بھی شامل ہے۔ چین، افغانستان اور پاکستان اور اس خطے کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی غافل نہیں ہے۔ کم سے کم چین کو معلوم ہے کہ پاکستان، افغانستان اور سینٹرل ایشیاء میں امریکا جڑوں تک بیٹھا رہا ہے۔ چین جانتا ہے کہ امریکی لابی کس کس ملک میں کتنی مضبوط ہے۔ امریکی اداروں کا انفراسٹرکچر، نیٹ ورک، یہ سب کچھ چین جانتا ہے۔ یہی وہ وجوہات تھیں کہ چین نے ایران کو اہمیت دی اور پچیس سالہ معاہدہ کیا۔ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین حکومت کو امریکی سعودی لابی کے کہنے میں آکر ماضی جیسی یا کوئی نئی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ پاکستانی قوم کو یاد ہے کہ پاکستان میں ایران اور چین کے مفادات پر حملہ آور کون تھے اور کون ہیں۔؟ لہٰذا افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی بیان کی جاتی رہی ہے، اسی پر عمل کرنے سے ہی پاکستان کی ساکھ بچ سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے افغانستان کی تو نئے طالبان نے تو 2021ء ہی میں دو برسوں کا طویل سفر کرکے دکھا دیا۔ پہلے تو وہ 1994ء میں شروع ہوئے تھے تو 1996ء میں کابل پہنچے تھے! یہ پچھلوں سے زیادہ تیز ہیں! خدا خیر کرے۔


خبر کا کوڈ: 948748

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/948748/کابل-میں-طالبان-کی-عبوری-حکومت-قائم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org