0
Monday 16 Aug 2021 12:00

افغانستان، امریکہ کی تربیت یافتہ ایک اور فوج کا عبرتناک انجام

افغانستان، امریکہ کی تربیت یافتہ ایک اور فوج کا عبرتناک انجام
تحریر: ثاقب اکبر

یکم جون 2021ء کو افغانستان میں طالبان نے اپنی نئی معرکہ آرائی کا آغاز کیا۔ 8 جون کو اسلام ٹائمز پر شائع شدہ اپنے ایک کالم ’’طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور افغانستان کا مستقبل‘‘ میں ہم نے لکھا تھا: ’’گذشتہ چند دنوں میں افغانستان میں طالبان نے پے در پے فتوحات حاصل کی ہیں۔ انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں پسپا ہو رہی ہیں۔ کابل میں ایک تشویش و اضطراب کا عالم ہے۔ برسراقتدار سیاستدان اپنے حامیوں میں اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔ انھیں کسی بھی وقت توقع ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔ اگرچہ طالبان نے ابھی تک بڑے شہروں میں سے کسی پر قبضہ نہیں کیا، لیکن سرکاری فوجوں کی جو نفسیاتی کیفیت سامنے آرہی ہے، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ وہ حکومتی عہدیدار جو پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

پاکستان کے نشریاتی اداروں کی افغانستان کے مسئلے میں عدم دلچسپی کی طرف بھی ہم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا: ’’یہ بات بہت حیرت ناک ہے کہ پاکستان کے نشریاتی اداروں اورٹی وی چینلز کا یہ عالم ہے کہ جیسے انھیں اتنی بڑی تبدیلیوں کی کوئی خبر نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستانی عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بے خبر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ ہمارے ہمسائے میں اتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے اور عوام کو غفلت میں رکھا جا رہا ہے۔‘‘ انہی دنوں میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین کسی سیاسی معاہدے کے بغیر افغانستان کو نہ چھوڑے۔ ان کے اس مطالبے پر ہم نے لکھا تھا: ’’امریکہ کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔ اس کا رہنا اور چھوڑنا انہی اہداف کی روشنی میں ہونا ہے۔ پاکستان کو امریکہ کی کاسہ لیسی سے پہلے بھی کوئی فیض حاصل نہیں ہوا اور اب بھی اس کا کوئی دور دور تک امکان نہیں۔ امریکہ اپنے مفادات کے لیے سوچتا ہے اور پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے سوچنا ہے۔‘‘

ہمارا ایک اور کالم ’’کامیابیاں طالبان کا امتحان بھی ہیں‘‘ 15 جولائی 2021ء کو اسلام ٹائمز نے شائع کیا تھا، جس میں ہم نے طالبان کی عسکری حکمت عملی کے اہم نکات بیان کیے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی اور ادارے یا تجزیہ کار نے اس طرح سے طالبان کی حکمت عملی کا ادراک نہیں کیا۔ ان نکات کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
 1۔ زمینی پیش رفت میں طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں کے اردگرد کے شہروں، قصبوں اور دیہات پر یلغار کی ہے۔ یوں انھوں نے بڑے شہروں کا ایک طرح سے محاصرہ کر لیا ہے۔ زیادہ علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے جب کہ سرکاری افواج بڑے شہروں میں موجود ہیں، لیکن وہ اصولی طور پر طالبان کے نرغے میں آتی جا رہی ہیں۔ کم انسانی اور فوجی وسائل خرچ کرکے طالبان زیادہ علاقوں پر قابض ہوگئے ہیں۔ اب وہ آہستہ آہستہ بڑے شہروں کی طرف پیش رفت کا ارادہ رکھتے ہیں اور بعض شہروں کی طرف انھوں نے پیش قدمی شروع بھی کر دی ہے۔

2۔ دوسری طرف طالبان نے تیز رفتاری سے تمام سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق افغانستان کی بیشتر سرحدوں پر طالبان پہنچ چکے ہیں۔
3۔ شمال میں وہ علاقے جہاں پر پہلے کبھی طالبان کا قبضہ نہیں رہا، وہاں بھی انھیں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔
4۔ بظاہر طالبان نے مذاکرات کا دروازہ نہ فقط یہ کہ بند نہیں کیا بلکہ کابل میں قائم حکومت کا ایک وفد دوحہ میں ان سے مذاکرات کے لیے روانگی کے لیے آمادہ ہے۔ اس سے پہلے تہران میں طرفین ایرانی میزبانی میں مذاکرات کر چکے ہیں۔ تاہم یوں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان مذاکرات مذاکرات بھی کھیلتے رہیں گے اور جنگ بندی بھی نہیں کریں گے اور میدان میں اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے، جس کے نتیجے میں کابل میں قائم حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلے جائے گی اور مذاکرات کی میز پر بھی طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے۔

قارئین غور فرمائیں کہ طالبان نے مسلسل یہی حکمت عملی اپنائے رکھی، یہاں تک کہ وہ 15 اگست 2021ء کو کابل کے ایوان صدر میں داخل ہوگئے۔ ابھی یہ سوال باقی ہے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہے اور طالبان اپنے ماضی سے کتنے مختلف ظاہر ہوں گے۔ ہماری رائے میں اگر عالمی سطح پر اور خاص طور پر طالبان کے ہمسایہ ممالک نے کوئی سوچی سمجھی مشترکہ حکمت عملی اختیار نہ کی تو طالبان اپنے تمام تر دعووں کے باوجود ماضی سے مختلف ثابت نہیں ہوں گے۔ اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ ماضی سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے، تاہم ان کا فہم شریعت تبدیل نہیں ہوا اور فتویٰ کے لیے وہ اب بھی اپنے انہی مفتیوں کی طرف رجوع کریں گے، جن کے فتووں پر وہ پہلے عمل کرتے رہے ہیں۔ اس وقت تک امریکہ اور برطانیہ اپنے سفیر افغانستان سے نکال چکے ہیں۔ بھارت بھی بیشتر سفارتی عملہ واپس بلا چکا ہے، تاہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک جن میں پاکستان، ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں، کا سفارتی عملہ کابل میں موجود ہے۔ پاکستان کا سفارت خانہ خاصا سرگرم ہے، پاکستان کے ہوائی جہاز پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں کو کابل سے انخلا میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ روس نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا سفارتی عملہ واپس نہیں بلا رہا۔ شمالی افغانستان کا ایک وفد بھی گذشتہ روز پاکستان پہنچا ہے۔

پوری دنیا میں امریکہ کے طرز عمل اور طرز انخلا کی مذمت کی جا رہی ہے، یہاں تک کہ برطانیہ نے بھی امریکہ کو سرزنش کا نشانہ بنایا ہے۔ سترہ سال سے امریکہ کی زیر تربیت فوج نے تقریباً ویسے ہی طالبان کے سامنے ہتھیار پھینکے ہیں، جیسے عراق میں امریکہ کی تربیت یافتہ فوج نے موصل میں داعش کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے اور فرار کا راستہ اختیار کیا تھا۔ امریکی فوج کے افغانستان کے انخلاء کو بعض تجزیہ کار ویتنام سے امریکی فوج کے انخلاء کے مماثل قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال کوئی رسوائی سی رسوائی ہے جو امریکہ کے حصے آئی ہے۔ بھارت کو بھی افغانستان میں قائم حکومت اور افغان فوج کی تیز رفتار پسپائی سے خفت اٹھانا پڑی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہندو بنیا دل میں سوچے کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے لیکن جو دولت افغانستان میں ضائع ہوئی، اس کا بڑا ارمان ہے۔ پاکستان کے پورے بارڈر پر بھارت نے جو قونصل خانے قائم کیے تھے، ان کا مستقبل خاصا تاریک ہوچکا ہے۔ اس واقعے میں عبرت کے بہت سے پہلو ہیں، لیکن عبرت ’’اولوا الابصار‘‘ ہی حاصل کیا کرتے ہیں۔ ہمارے کانوں میں بعض نابیناوں کی یہ آواز گونج رہی ہے ’’آنکھوں والو! آنکھیں بڑی نعمت ہیں۔‘‘

ایسے میں ہمیں ترکی کا بھی خیال آتا ہے، جس نے خود سے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کابل کے ہوائی اڈے کی سکیورٹی کا انتظام سنبھالے گا۔ ترکی کے اس فیصلے پر ہم اپنے گذشتہ ایک کالم میں لکھ چکے ہیں: ’’ترکی نے امریکہ کی ایما پر کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کا جو فیصلہ کیا ہے، طالبان نے اسے مسترد کر دیا ہے اور اسے امریکہ کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہماری نظر میں طالبان کا یہ ایک مثبت فیصلہ ہے۔ ضروری ہے کہ افغانستان میں حقیقی امن قائم کرنے کے لیے خود افغانوں کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے اور تمام غیر ملکی افواج اور سکیورٹی ادارے افغان سرزمین سے نکل جائیں۔‘‘ ترکی کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کے اس فیصلے کی حمایت کرے۔ پاکستان کے ترکی سے بہت دوستانہ اور برادرانہ مراسم ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان تمام عالمی مسائل میں ترکی کا ساتھ دے یا ترکی کا ہم فکر ہو۔

ترکی نیٹو میں امریکہ اور برطانیہ کا اتحادی ہے۔ ترکی کے اسرائیل سے سفارتی، اقتصادی اور فوجی تعلقات ہیں جب کہ پاکستان نہ نیٹو میں ہے اور نہ اس کے اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات ہیں۔ افغانستان کے مسئلے میں پاکستان کا اعلانیہ موقف یہ ہے کہ اس کے فیصلے خود افغانوں نے کرنے ہیں۔ طالبان نے اگر امریکی فوج کے سامنے سر نہیں جھکائے اور امریکہ کی دھونس اور دھاندلی کو قبول نہیں کیا تو وہ ترکی کے یک طرفہ ایسے فیصلے کو بھی قبول نہیں کریں گے۔ بہتر یہ ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں ترکی کی ہمنوائی نہ کرے، کیونکہ اس سے طالبان کی خواہ مخواہ کی مخالفت مول لینا پڑے گی بلکہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ترکی کو بھی سمجھائے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے اور برادرانہ تعلقات کا یہی حق ہے کہ اپنے بھائی کو اچھا مشورہ دیا جائے۔ ترکی پہلے ہی بہت سے ملکوں میں اپنی فوجی مشینری پھیلا چکا ہے۔ فوجی مشینری جوں جوں دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے، توں توں ملک کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جب امریکہ اپنی فوجی مشینری کو سمیٹ رہا ہے اور سویت یونین ایسے فوجی پھیلائو کا تلخ پھل چکھ چکا ہے تو ترکی بھی اس کا شیریں پھل نہیں چکھ پائے گا۔

طالبان کی گذشتہ حکومت کے دور میں افغانستان کے شمال میں ’’شمالی اتحاد‘‘ کی حکومت رہی ہے، لیکن اس وقت طالبان پورے افغانستان پر قابض ہوچکے ہیں۔ اس موقع پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ فوجی قبضے کا یہ مطلب نہیں کہ سارے علاقوں کے عوام کے دل بھی طالبان کے ساتھ ہوں۔ عالمی ادارے جس طرح کی خبریں کابل اور دیگر بڑے شہروں سے دے رہے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے افغانی وحشت اور سراسیمگی کی حالت میں ہیں۔ اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے، لیکن عوام کا ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کی داخلی حکمت عملی پہلے سے کچھ مختلف ہوگی یا نہیں اور مختلف ہوگی تو کس معنی میں۔؟ طالبان زبانی طور پر ابھی تک یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ خواتین کو تعلیم، ملازمت اور کاروبار کا حق دیں گے، لیکن اگر انھوں نے اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی کہ کوئی خاتون محرم کے بغیر باہر نہیں نکل سکتی تو یہ حق نہ ہونے کے برابر قرار پائے گا۔ اسی طرح سے اگر طالبان حجاب کا اپنا تصور سب خواتین پر ٹھونسنے کی کوشش کریں گے تو اس کا بھی نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ہر مکتب فکر کے علماء کا حجاب کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہے۔ طالبان کو چاہیے کہ تمام مکاتب فکر کے پیروکاروں کو اجازت دیں کہ وہ اپنے مکتب فکر کے مطابق عمل کریں۔

ضروری ہے کہ ایک ہم آہنگ، مستحکم اور پائیدار حکومت قائم کرنے کے لیے مختلف قبائل، قومیتوں اور مسالک کو شریک اقتدار کیا جائے، تاکہ تمام افغانی کابل میں موجود حکومت کو اپنی نمائندہ حکومت تصور کرسکیں۔ اس حقیقت کو اگر طالبان خود سمجھ لیں تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی اور اگر اپنے تصور مذہب اور فتوحات کے نفسیاتی اثرات کی وجہ سے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح درک نہ کرسکیں تو پھر ہمسایہ ممالک کو طالبان کی مدد کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں تمام ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ وہ ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور طالبان کو عصری حقائق سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوں، کیونکہ ہمسایوں سے اچھے تعلقات کے بغیر کابل میں حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ اصولی طور پر تو یہ بات اچھی ہے کہ طالبان نے تقریباً تمام ہمسایہ ممالک سے گذشتہ مختصر سے عرصے میں مذاکرات کیے ہیں، ان مذاکرات میں یقینی طور پر وہ ان ممالک کا نقطہ نظر بھی جان چکے ہوں گے۔

حالیہ چند ہفتوں میں افغانستان میں داعش بظاہر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ہے، جب کہ جون کے شروع میں داعش نے افغانستان میں چند خون آشام سانحات کو جنم دیا تھا۔ یہ وحشی افغانستان میں ابھی تک موجود ہیں۔ ان کے بارے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو ایک عرصے سے تشویش چلی آرہی ہے۔ خود طالبان بھی ان کے خلاف کئی معرکے لڑ چکے ہیں۔ داعش کے وجود کو زیادہ دیر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ورنہ خود طالبان کو اس کے خطرات بھگتنا پڑیں گے۔ افغانستان کی سرزمین سے داعش کے وجود کو جتنا جلدی پاک کیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔ ابھی طالبان کی ہیبت داعش پر موجود ہوگی۔ یہ بہترین موقع ہے کہ اس کا استیصال کیا جائے۔ اگر داعش نے افغانستان کے اندر اور ہمسایہ ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا تو اس سے نئی مشکلات جنم لیں گی۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے جہاں داعش کا افغانستان میں وجود خطرناک ہے، وہاں تحریک طالبان کی قیادت اور بڑی تعداد میں اس کے اراکین کا افغانستان میں ہونا بھی تشویش ناک ہے۔ تشویش کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اپنے آپ کو تحریک طالبان افغانستان کی قیادت کے ماتحت قرار دیتی ہے۔ پاکستان کی حکومت یقینی طور پر طالبان سے مذاکرات میں اس موضوع کو پیش نظر رکھے گی۔ ہمارے نقطہ نظر سے اس مسئلے کو جتنی جلدی حل کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے، ورنہ یہ عنصر طالبان کے ساتھ تعلقات کو بھی خراب کرسکتا ہے۔
مانیں نہ مانیں آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
خبر کا کوڈ : 948861
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش