5
Thursday 19 Aug 2021 23:30

طالبان کی فتح پر لڈی ہے جمالو کا سا منظر!

طالبان کی فتح پر لڈی ہے جمالو کا سا منظر!
تحریر: محمد سلمان مہدی

جب سے طالبان نے بغیر کسی لڑائی کے کابل کا نامکمل کنٹرول حاصل کیا ہے، تب سے پاکستان میں بعض گروہ فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کی باقیات، جنرل حمید گل کے نام لیوا، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کا دفاع کرنے والے بھی اس کا کریڈٹ لینے کے چکر میں ہیں۔ آخر الذکر کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے دشمن کی جنگ کو ایک اور انداز سے ناکام کیا، اس لیے انہیں بھی کچھ نہ کہا جائے۔ یہ تو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی لائن پر چلنے والے اندھے مقلد ہیں، ان کی یہ کیفیت تو قابل فہم ہے، لیکن وہ نامور شخصیات جو پاکستان میں خود کو مقاومتی بلاک کے محور میں شمار کرتی ہیں اور ان سے اپنا تعلق ظاہر کرتی ہیں، ان کی نظر میں سقوط کابل امریکا کی شکست ہے۔ ایک کا فرمان ہے کہ امریکا نے فرار کیا ہے۔ زمینی حقائق کیا ہیں اور ماضی میں کیا رہے ہیں، اس کے پیش نظر یہ حقیر مجبور ہے کہ بعض نکات کی طرف متوجہ کیا جائے۔ سب سے پہلے تو خود سے یہ سوال کریں کہ کیا امریکا نے افغانستان سے فرار کیا ہے۔؟ کیا اس سوال کا جواب معلوم ہے۔؟ جب طالبان نے کابل پر ٹیک اوور کیا تو کابل کا ایئرپورٹ کس کے کنٹرول میں تھا اوراب تک ہے۔؟ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ 19 اگست2021ء تک کی صورتحال پر امریکی صدر جوزف بائیڈن نے اے بی سی نیوز کو جو کچھ بتایا، وہ سن لیں یا پڑھ لیں۔
That's why I authorized that there be 6,000 American troops to flow in to accommodate this exit, number one. And number two, provided all that aircraft in the Gulf to get people out. We pre-positioned all that, anticipated that. Now, granted, it took two days to take control of the airport. We have control of the airport now.

امریکی صدر بائیڈن نے یہ بھی یاد دلایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم مئی 2021ء کی ڈیڈلائن رکھی تھی۔ یعنی درحقیقت اصل ڈیل یہی تھی کہ یکم مئی 2021ء تک غیر ملکی افواج کا مکمل انخلاء ہو جائے تو کیا انخلاء ہوگیا۔؟ تاحال امریکی افواج افغانستان اور خاص طور پر کابل ہی میں ہیں اور یہ بھی جان لیں کہ کابل میں امریکی سفارتخانے کے چارج ڈی افیئرز، روس ولسن نے 17 اگست کی صبح ہی ایک ٹویٹ میں بتا دیا تھا کہ جھوٹی رپورٹس کے برعکس امریکی سفارتخانے کا عملہ اور وہ خود کابل ہی میں ہیں۔ مزید کہا کہ وہ ہزاروں امریکی شہریوں اور مستضعف افغانیوں کی مدد کے لیے سخت جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ یعنی وہ ہیلی کاپٹر اور طیارہ جس کے ذریعے امریکی سفارتخانے اور فوجیوں نے امریکی اور افغانی شہریوں کو وہاں سے منتقل کیا، یہ سب کچھ طالبان کے ٹیک اوور کے ساتھ اور حتیٰ کہ بعد میں ہوا اور تاحال ہو رہا ہے۔ امریکی سفیر نے مزید بھی جو کچھ کہا مکمل انگریزی متن کا مطالعہ کر لیجیے:
Contrary to false reports, @USEmbassyKabul staff & I remain in #Kabul working hard to help 1000s of U.S. citizens and vulnerable Afghans &  continuing engagement here. Our commitment to the Afghan people endures.
(https://twitter.com/USAmbKabul/status/1427480308845268994)

اب افغانستان کے دیگر قائدین کا احوال بھی ملاحظہ فرما لیں۔ نائب صدر امراللہ صالح نے 17 اگست کی شام کو ٹویٹ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے اندر موجود ہیں اور تو اور انہوں نے افغانستان کے آئین کے مطابق خود کو افغانستان کا قائم مقام صدر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دیگر رہنماؤں سے بھی رابطے میں ہیں۔ (https://twitter.com/AmrullahSaleh2/status/1427631191545589772)۔ صوبہ بلخ کے گورنر عطا محمد نور نے 15 اگست کو ٹویٹ کیے تھے کہ وہ اور عبدالرشید دوستم دونوں محفوظ مقام پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت گہری سازش ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بزدلانہ مگر منظم منصوبے کے تحت حکومتی اور فوجی ساز و سامان طالبان کے حوالے کر دیا گیا تھا، حالانکہ وہ اور رشید دوستم اور ان کے حامی شدید مزاحمت کر رہے تھے۔ (https://twitter.com/Atamohammadnoor/status/1426629155379109888) افغانستان کے صدر اشرف غنی کے حوالے سے متضاد خبریں نشر کی گئیں۔ پہلے کہا تاجکستان فرار کرگئے۔ بعد ازاں قزاقستان میں ان کی موجودگی کی خبریں آئیں اور اب بتایا جا رہا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ یعنی محفوظ مقام پر منتقل ہوچکے ہیں۔ یعنی صدر بائیڈن نے اے بی سی نیوز میں جو کچھ کہا، بالکل اسی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت سب کچھ انجام پا رہا ہے۔

ان کے علاوہ دیگر افغان قائدین کی روداد بھی ملاحظہ ہو۔ انہیں حکومت پاکستان نے دعوت دے کر بلا لیا، یعنی 15 اگست تا 18 اگست2021ء وہ قائدین دورہ پاکستان پر تھے۔ یہ بھی دلچسپ حسن اتفاق تھا کہ 15 اگست ہی کو کہ جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو افغانستان کے طالبان مخالف بہت سے سیاسی قائدین پاکستان پہنچ گئے۔ پاکستانی سفارتکار اور نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق نے پونے چھ بجے ٹویٹ پر یہ خبر دی کہ انہوں نے افغانستان کے قائدین کا استقبال کیا۔  افغانستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر میر رحمان رحمانی، صلاح الدین ربانی،  محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم خلیلی، احمد ضیاء مسعود، احمد ولی مسعود، عبدالولی پیدرم اور خالد نور پاکستان میں بیٹھ کر ملاقاتیں کرنے لگے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق افغانستانی وفد نے تازہ ترین صورتحال پر مشاورت کے لیے حکومت پاکستان کی دعوت کو سراہا۔ مطلب یہ کہ انہیں دعوت دے کر بلایا گیا تھا۔ حکومت پاکستان، ایران، چین تو ایک طرف حتیٰ کہ امریکا کا موقف بھی یہی ہے کہ افغانستان میں سبھی نمائندہ اکائیوں پر مشتمل افغانستانی حکومت قائم ہو اور اس ہدف کے حصول کے لیے مذاکرات یا مکالمہ کریں۔ پچھلی مرتبہ بھی ہم یہ واضح کرچکے تھے کہ افغانستان میں جو سیاسی نظام نافذ رہا تھا، یہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں عالمی اور علاقائی ممالک کی موجودگی اور افغانستان کی مختلف نمائندہ اکائیوں کے قائدین نے باہمی مشاورت سے بنایا اور نافذ کیا تھا۔ اس میں غیر ملکی افواج تعمیر نو اور سکیورٹی فورسز کی تربیت کے نام پر بیس سال سے موجود رہی۔ صدر بائیڈن کے مطابق تین لاکھ افغانیوں کو فوجی تربیت دی گئی اور بیس سالہ تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دارالحکومت کابل میں بھی وہ امریکا کے تربیت یافتہ افغانی فوجی طالبان کو ٹیک اوور سے باز نہ رکھ سکے۔

اب رہ گئی پاکستان کے بدترین فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی باقیات کی کیفیت، جو لڈی ہے جمالو پاو لڈی ہے جمالو سے مشابہت رکھتی ہے۔ تو ریکارڈ کی درستگی کے لیے نوٹ فرما لیں کہ جنرل ضیاء جن افغان قائدین کی وجہ سے بعد از مرگ شہید جہاد افغانستان کا تمغہ لیے بیٹھے ہیں، ان کے نام ذرا ایک صفحے پر لکھ کر آئینے کے سامنے خود سے پوچھیں کہ وہ کون صاحبان تھے۔؟ تو پتہ چلے گا کہ سال 1994ء میں ان نامور افغان ”مجاہدین“ کے لولے لنگڑے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہی طالبان بنائی گئی تھی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے پسندیدہ  ”مجاہد“ گلبدین حکمتیار کو افغانستان تو کیا پاکستان میں بھی جائے پناہ نہیں ملی تھی اور صدر محمد خاتمی کے دور میں وہ ایران کے مہمان بننے پر مجبور تھے۔ رشید دوستم ترکی کے مہمان بننے پر مجبور تھے۔ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود، اسماعیل خان سمیت سارے نامور اور جنرل ضیاء دور میں پاکستان میں افغان جہاد کی آن بان شان سمجھے جانے والے سارے افغان مجاہد کمانڈرز کی فہرست بنا کر خود ہی کو جواب دے دیں کہ طالبان نے 1994ء تا 1996ء کس سے لڑائی کی تھی۔؟ لڈی ہے جمالو کا دوسرا دعویٰ کہ طالبان کا کریڈٹ جنرل حمید گل کو دے رہے ہیں، وہ بھی ذرا ریکارڈ درست کر لیں، کیونکہ نمبر ایک حمید گل صاحب بھی جنرل ضیاء دور ہی میں اختر عبدالرحمان کے جانشین بنے تھے اور نواز شریف کے پہلے دور وزارت عظمیٰ ہی میں جنرل آصف نواز نے ان کو اس عہدے سے ہٹاکر کہیں اور ٹرانسفر کر دیا تھا۔ سابق جنرل نصیراللہ بابر نے طالبان کو ہمارے بچے کہہ کر ضرور متعارف کروایا تھا، لیکن تب جنرل حمید گل صاحب ریٹائرڈ ہوئے کافی وقت گذار چکے تھے اور حمید گل صاحب کی سرپرستی میں نکلنے والے ہفت روزہ تکبیر میں طالبان سے متعلق جو اولین رپورٹس تھیں، وہ بھی ملاحظہ کر لیں کہ طالبان کو امریکا اور برطانیہ کے کھاتے میں ڈالا گیا تھا۔ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد بھی طالبان کے قیام کے پس پردہ امریکی مغربی بلاک کا نام لیا کرتے تھے۔

لڈی ہے جمالو گروپ طالبان حکومت کے پاکستان میں مقرر سفیر عبدالسلام ضعیف کی کتاب کا ایک دفعہ مطالعہ ضرور کریں، تاکہ افاقہ ہو اور پھر یہ ضیائی باقیات یہ بھی بتا دے کہ طالبان حکومت کو دنیا کے صرف تین ملکوں نے ہی تسلیم کیا تھا، یعنی پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ تو کیا وجہ تھی کہ طالبان حکومت کے پاکستان میں مقرر سفیر عبدالسلام ضعیف کو امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا تھا اور ان کی تذلیل و توہین یہاں والوں نے بھی کی اور امریکی فوجیوں نے یہاں والوں کی موجودگی میں ان کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے، یعنی عریاں کر دیا۔ جنرل حمید گل صاحب اس وقت زندہ سلامت تھے، جب پرویز مشرف کی جرنیلی حکومت نے افغانستان پر جنگ کے لیے امریکی افواج کو پاکستان کی سرزمین، فضاء اور سمندری حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔ آپ کس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔؟ اشرف غنی تو متحدہ عرب امارات میں ہے۔ باقی طالبان کے مخالف افغان قائدین کو تو حکومت پاکستان نے خود پندرہ تا اٹھارہ اگست 2021ء تک دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔  ہمارا موقف وہی ہے، جو پاکستان حکومت کا رسمی موقف ہے کہ سبھی افغانستانی اکائیوں کی نمائندگی پر مشتمل سیاسی نظام و حکومت قائم ہو۔ یعنی انڈر اسٹوڈ ہے کہ اس میں طالبان کو نہ پہلے منع کیا گیا تھا، نہ اب کوئی ان کی شراکت اقتدار کا مخالف ہے۔ لیکن دیگر افغانستانی آبادیوں کے ناقابل تنسیخ حقوق کے منکروں کا موقف تو منافقانہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تکفیری ناصبی انتہاء پسند منافقین بھی اس تبدیل شدہ افغان طالبان کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو خود افغانستان کے بعض علاقوں میں شیعہ مسلمانوں کی مساجد اور امام بارگاہوں میں جا جا کر ان کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ نہ تو تکفیری ہیں نہ ہی داعشی۔ اور تو اور وہ تو مزار پر جا کر قبر پر فاتحہ خوانی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی ہیں۔ کیا یہ لڈی ہے جمالو گروپ بھول گیا کہ امام حسین (ع) کی عزاداری کے خلاف یہ خود کیا کچھ نہیں کرتے رہے اور بزرگان دین کے مزارات سے تو یہ اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کعبہ سے کافر۔ ابھی تو آپ پاکستانی قوم اور نال نال افغانی قوم کو یہ بتائیں کہ آپ کا 1996ء والا موقف اور عمل کیا تھا، نائن الیون کے بعد کا موقف اور عمل کیا تھا اور آج کیا ہے۔؟ کیا پھر امریکی سعودی اماراتی زایونسٹ غربی عربی بلاک نے کوئی اسائنمنٹ دی ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 949353
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش