1
Friday 20 Aug 2021 19:02

داستان کربلا

داستان کربلا
تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی رہنماء شیعہ علماء کونسل پاکستان

کربلا کی داستان کا تعلق جہاں مذہب سے ہے، وہاں مذہب سے زیادہ انسانیت سے ہے۔ نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں بہتر (72) پاکیزہ نفوس کے خون سے جو داستان رقم کی، اس کا احاطہ و بیان انسانی بساط میں نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے دنیا کے مختلف علماء، تاریخ دان، مصنفین، محققین، مقررین اور ذاکرین کربلا کی داستان بیان کرتے چلے آرہے ہیں، لیکن یہ کربلا کا اپنا منفرد اثر اور امتیاز ہے کہ اس عظیم داستان کے بیان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکے، نہ ہی شاید کبھی پورے ہوں۔ ریگزار کربلا میں رقم ہونے والی داستان نے انسانی تاریخ اور معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آج کوئی بھی مظلوم کربلا کے بغیر اپنی مظلومیت کو مکمل نہیں سمجھتا، کربلا ہر مظلوم کے لیے ڈھارس اور زندگی کی امید ہے۔ جب بھی کسی مظلوم کو کربلا کا خیال آتا ہے، اسے اپنی مظلومیت اور اپنے ساتھ ہونے والا ظلم بہت کم نظر آتا ہے۔

داستان کربلا صبر و تحمل سے عبارت ہے۔ اس داستان میں صبر اپنی آخری منزل کو چھو رہا ہے۔ ایک ایک کرکے پہلے اپنے اصحاب اور اس کے بعد اپنے خاندان کے پاکیزہ افراد کے مظلومانہ قتل پر صبر کرنا بے مثال ہے۔ فقط جنگجو جوانوں کی شہادت پر صبر نہیں بلکہ کڑیل جوان شبیہہ پیغمبر (ص) کی شہادت سے لے کر چھ ماہ صغیر اصغر کی دردناک شہادت تک ہر مقام پر صبر ہی داستان کربلا کا لازوال اثاثہ ہے۔ داستان کربلا جہاں مظلومیت کی داستان ہے، وہاں حریت و استقامت سے بھی مزین ہے۔ کربلا نے رہتی دنیا تک یہ سلیقہ بتا دیا کہ ظالم اور جابر کے سامنے کس طرح سینہ سپر ہونا ہے؟ ظلم کے سامنے کس طرح بند باندھنا ہے؟ حکمرانوں کے منفی عزائم کس طرح ناکام بنانے ہیں؟ ظلم کے تمام تر ضابطوں کو اپنے حوصلے سے کس طرح پچھاڑنا ہے؟ تمام تر سرکاری حربوں کے باوجود کس طرح ڈٹ کر جابروں کے سامنے کھڑے ہو جانا ہے۔؟ حریت پسند زندگی گزارنے کے لیے کن راستوں سے گزر کر آنا پڑتا ہے؟ تمام تر پابندیوں اور مظالم کے باوجود کس طرح استقامت کا راستہ اختیار کرنا ہے؟

یہ راستہ اختیار کرکے چھوڑ نہیں دینا بلکہ اس راستے کو حق سمجھ کر اس پر استقامت کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔ آج حریت پسندی کی جتنی بھی تحریکیں کرہ ارض پر موجود ہیں، سب کی سب کربلا سے رہنمائی لے رہی ہیں۔ کربلا کی داستان قربانیوں کی داستان ہے۔ اپنی ذات کے لیے قربانی نہیں، اپنے مفادات کے لیے قربانی نہیں، کسی قسم کی شہرت کے لیے قربانی نہیں، کسی قسم کے اقتدار یا جاہ طلبی کے لیے قربانی نہیں۔ اپنے خاندان کی ہیبت قائم کرنے کے لیے قربانی نہیں۔ اپنے گروہ کو مضبوط کرنے کے لیے قربانی نہیں۔ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے قربانی نہیں بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے قربانی۔ پرچم توحید کی سربلندی کے لیے قربانی۔ احیائے دین و شریعت کے لیے قربانی۔ بقائے رسالت و نبوت کے لیے قربانی۔ دفاع نظام و روایات کے لیے قربانی۔ انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے قربانی۔ انسانی شرف و عزت و غیرت و حمیت کے لیے قربانی۔ انسانی معاشروں کو  عدل و انصاف پر مبنی نظام کی فراہمی کے لیے قربانی۔ اجتماعیت اور اجتماعی سسٹم کے فروغ کے لیے قربانی۔ ظالم کو ظلم سے باز رکھنے اور اس ظلم کو بے نقاب کرنے کے لیے قربانی پر مبنی داستان کربلا کی داستان ہے۔

داستان کربلا اگرچہ ایک مذہب یعنی اسلام کے بانی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقرباء، اصحاب و انصار کی قربانی پر محیط نظر آتی ہے، لیکن اس کا حقیقت میں کسی خاص مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ یہ فقط دعویٰ نہیں بلکہ امام ِعالی مقام کے خطبات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی طرف سے کربلا برپا کرنے کا مقصد کسی خاص مذہب کا تحفظ یا دفاع نہیں تھا بلکہ ایک فاسد، جابر، ظالم اور مسلط شدہ حکمران اور نظام کے خلاف ایک انصاف کے طلب گار، ظلم اور جبر کے خلاف سرگرم عمل اور لوگوں کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرنے والے انسان، یعنی حسین (ع) کی کاوشوں، کوششوں، زحمتوں اور قربانیوں پر محیط داستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین (ع) کے قافلے میں بعض روایات کے مطابق مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف شامل تھے بلکہ انہوں نے جان کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ اسی پس منظر میں برصغیر کے معروف شاعر مہندر سنگھ بیدی نے کہا تھا:
اس قدر رویا میں سُن کر داستان کربلا
میں تو ہندو ہی رہا آنکھیں مسلماں ہوگئیں 


کربلا کی داستان کسی جنگ کی روئیداد پر نہیں بلکہ ظلم و جبر کی حقیقت بیانی ہے۔ یہ داستان 61 ھجری کو عاشور کے دن ختم نہیں ہوئی بلکہ امام حسین (ع) کا پیغام لے کر اسیران کوفہ و شام گلی گلی، گھر گھر، بازار بازار، دربار دربار اور کونے کونے تک پہنچے۔ بالخصوص ثانی زہراء حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے کربلا کے اگلے مرحلوں میں جس طرح شہدائے کربلا کی قربانیوں اور مشن کو زندہ رکھا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ان دونوں محترم شخصیات کی قربانیاں اور جدوجہد نہ ہوتی تو شہدائے کربلا کی قربانیاں رائیگاں جانے کا خدشہ پیدا ہو جاتا اور داستان کربلا شاید ایک قصے یا کہانی کی شکل میں موجود ہوتی، جس میں روح اور جاذبیت قطعاً موجود نہیں ہوتی۔ داستان کربلا جیسے ان دو ہستیوں اور عینی شاہدین نے بیان کی، ویسے کوئی نہ کرسکا، نہ ہی کوئی بیان کرسکتا ہے۔ بعد میں آنے والے داستان گوووں نے انہی دو شخصیات سے طرزِ بیان لیا اور داستان کربلا کو آگے پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کو کہنا پڑا کہ
حدیث ِعشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین (ع) رقم کرد، دیگرے زینب (س)


انسانی بساط سے باہر ہے کہ کربلا کی داستان کو بیان کر پائے۔ مدینہ سے روانگی سے لے کر مکہ میں قیام تک۔ مکہ میں احرام ِحج کو عمرہ میں تبدیل کرنے سے کعبۃ اللہ میں قتل کی سازشوں کے افشاء تک۔ خانہ خدا یعنی بیت اللہ کو حج سے قبل ہی خدا حافظ کہہ کر کربلا کے میدان میں خیمہ زنی تک۔ یکم محرم سے نو محرم تک یزیدی و شامی افواج کے ساتھ مذاکرات تک۔ شب عاشور اپنے جانثاروں کو آزاد کرنے کے لیے چراغ بجھانے سے لے کر صبح عاشور کی عبادات و مناجات تک۔ صبح عاشور سے لے کر عصر عاشور کے ماحول تک۔ یزیدی افواج کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے لے کر اپنے قتل سے باز رہنے کی حجت تمام کرنے تک۔ چھ ماہ کے معصوم کی شہادت سے لے کر خود نواسہ رسول اکرم (ص) کی دلسوز شہادت تک۔ گنج شہداء کی حالت سے لے کر شام ِ غریباں اور شام غریباں سے لیکر سفر کوفہ و شام تک کے ظلم کا مکمل بیان انسانی قدرت سے باہر ہے۔

چودہ سو سال سے بیان ہونے کے باوجود لگتا ہے کہ آج بھی اس مظلومانہ، غریبانہ اور المناک داستان کے لیے الفاظ مہیا نہیں ہیں۔ سوز فراہم نہیں ہے۔ درد دستیاب نہیں ہے۔ جملے احاطہ نہیں کرتے۔ طرز بیان شکستہ ہیں۔ یہ داستان ِکربلا کا فیض ہے کہ اس نے نہ صرف خود کو ہر غمزدہ چشم میں، ہر افسردہ دل میں، ہر انصاف پسند دماغ میں، ہر حریت پسند انسان میں اور ہر عدل کے خواہاں معاشروں میں زندہ رکھا ہوا ہے، بلکہ کائنات کا ہر انسان اس داستان کے سبب زندہ ہے۔ اگرچہ مراسم ِعزاء کے ذریعے داستان کربلا بیان کرنے اور مشن ِکربلا کو جاری رکھنے کی سعی جاری ہے، لیکن داستان ِکربلا کے تقاضے کون پورے کرسکتا ہے؟ پروفیسر انور مسعود نے کہا تھا:
دل میں رہ جائیں گی لاکھوں حسرتیں اظہار کی
خامشی ہونٹوں پہ آنکھوں میں نمی رہ جائے گی
شعر میں کیسے بیاں ہو داستان ِکربلا 
لاکھ مضموں باندھ لیجے تشنگی رہ جائے گی
خبر کا کوڈ : 949451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش