0
Saturday 21 Aug 2021 11:22

بائیڈن جی، اتنا ڈو مور کافی ہے یا کچھ اور بھی ہو۔۔۔

بائیڈن جی، اتنا ڈو مور کافی ہے یا کچھ اور بھی ہو۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستانیوں کی شوخ مزاجی اور زندہ دلی معروف ہے، مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی خوش ہونے کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے ہیں۔ ابھی سوشل میڈیا پر پاکستانی امریکی صدر جیو بائیڈن صاحب کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمیشہ ڈور مور کا مطالبہ فرمایا کرتے تھے، اتنا ڈو کافی ہے یا مزید مور کریں۔؟ اسی طرح ایک بڑی لاجیکل بات کی گئی تھی کہ امریکہ نے طالبان کو طالبان سے بدلنے کے لیے  ٹریلن ڈالر خرچ کیے اور اپنے سینکڑوں سپاہیوں کو مروایا۔ سوچا جائے تو بڑی اعلیٰ فکر کی بات ہے کہ دو سو جوتے بھی کھائے اور چار سو پیاز بھی نوش کیے ہیں۔ امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے دانشور کا انٹرویو سن رہا تھا، اس نے بڑی خوبصورت بات کی کہ امریکہ تہذیبوں سے آگاہی نہیں رکھتا، اس لیے پچھلے چالیس سال میں جہاں جاتا ہے، ویت نام، عراق، سنٹرل امریکہ اور افریقی ممالک ہر جگہ سے جوتے کھا کر واپس آتا ہے۔ امریکہ کا بڑا المیہ ہر مسئلے کو فوجی نقطہ نظر سے دیکھنا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کے پاس ایک طاقتور فوج ہے اور اسی لیے وہ اس فوج کو استعمال میں لا کر اپنی خارجہ پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر صرف طاقت کے ذریعے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

اگر ایک ٹریلین ڈالر افغانوں کی تعمیر پر خرچ کیے ہوتے، ہر جگہ ہسپتال، یونیورسٹیاں، کھیل کے میدان اور دیگر انفراسٹکچر  بنایا ہوتا تو آج امریکہ ایک فاتح کی حیثیت اختیار کرچکا ہوتا، مگر آج جب امریکہ خطے سے جا رہا ہے تو ایک ذلت آمیز شکست اس کا مقدر بن چکی ہے۔ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا فوجی اتحاد ایک ایسے ملک کے خلاف تشکیل دیا گیا، جو دنیا کا غریب ترین ملک تھا، جس کے پاس لڑنے کے لیے جدید وسائل ہی نہیں تھے۔ اس نے صرف امریکہ ہی نہیں مغربی دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کو شکست سے دو چار کر دیا۔ کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ افغانستان برباد ہوگیا تو شکست امریکہ کو کیسے ہوئی؟ یہ بات درست سوال ہے مگر نتیجہ غلط ہے، اصل میں قوموں کی فتح و شکست پلوں اور بلڈنگوں کی تباہی سے نہیں ناپی جاتی، یہ نقصان پورا کیا جا سکتا ہے، اصل بات آزادی کی ہوتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اکیسویں صدی میں تمام تر وسائل کے باوجود افغانستان سے بھاگنے کے لیے طالبان کے محتاج ہوئے۔ کل کا امریکی صدر کا خظاب سن لیں یا برطانوی وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں ہونے والی عزت افزائی اور ان کے جوابات سن لیں تو سب کے سب افغانستان سے امریکی اور برطانوی شہریوں کے پرامن انخلا کی افغان طالبان سے درخواست سے شروع ہوتے ہیں اور اسی پر ختم ہو جاتے ہیں۔

افغانستان ابھی بھی خطے کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چیلنج ہے، ہر ملک اس سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان نے تو تمام تر اختلافات کے باوجود سرحد پر انتہائی تیز رفتاری سے باڑ لگا دی ہے، جو تھوڑا بہت بارڈر رہ گیا ہے، اسے بھی اگلے چند ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ یہ افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے بہت اچھا ہے، تاکہ ہر نقل و حرکت قانون کے دائرہ کار میں ہو۔ اسی طرح ایران، زبکستان، تاجکستان اور دیگر ممالک بھی طالبان سے یہ یقین دہانیاں حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ افغان سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اگر افغان سرزمین ان ممالک میں سے کسی کے بھی خلاف استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تو طالبان کے لیے شدید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پاکسانی طالبان کے حوالے سے افغان طالبان کو کردار ادا کرنا ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ انہیں جان کی ضمانت دلا کر واپس پاکستان بھجوا دیا جائے اور یہ لوگ آئندہ کسی بھی قسم کی وطن دشمن سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔

داعش کے حوالے سے طالبان کا موقف بہت واضح ہے، داعش طالبان کے شدید خلاف ہے، اس لیے دونوں کی ماضی میں بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ اب عمر خراسانی کو گولی مارنا اور اس کا اعلان کرنا یہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، اس طرح طالبان نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، ایک تو اپنے دشمن کا خاتمہ کر دیا، دوسرا مغرب کو یقین دہانی کرائی کہ ہم داعش کے خلاف ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک پاکستانی کو ایک انڈین نے کابل میں کہا تھا کہ آج کل یہ زمین آپ کے لیے سازگار نہیں رہی۔ میرا یہ خیال ہے کہ اب اگر وہ انڈین مجھے ملے تو اس سے یہ ضرور کہوں گا کہ اب کابل کی زمین تمہارے لیے سازگار نہیں رہی۔ انڈین میڈیا جس طرح طالبان کے خلاف کمپین کر رہا ہے، اس سے یہ لگتا ہے جیسے کابل میں طالبان کی نہیں پاکستان کی حکومت قائم ہوگئی ہو۔ انڈین میڈیا کو طالبان کے حوالے سے ہاتھ ہولا رکھنا ہوگا، نہیں تو جیسے طالبان ترجمان شاہین نے کہا انڈین مفادات کا تقاضا یہی ہے۔

انڈیا کے لیے اب افغانستان میں حالات کافی مختلف ہوں گے، جس طرح انڈین میڈیا میں طالبان کو بالکل آئی ایس آئی کے ایک گروہ کے طور پر پروپیگنڈا کیا گیا، جو کہ حقیقت کے بھی خلاف ہے۔ ویسے چند لمحوں کے لیے ایسا مان بھی لیا جائے تو آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ انہوں نے ایک ٹریلن کے مقابل میں ایک بلین ڈالر سے بھی کم رقم خرچ کرکے انڈین بارڈر کو بھی محفوظ رکھا اور ابی نندن کو چائے پلا کر واپس بھجوایا اور ادھر سے امریکہ کو اس کے نیٹو اتحادیوں سمیت شکست سے دو چار کر دیا۔ تفصیل سے پھر کسی کالم میں ذکر کروں گا، ابھی انڈیا کو امریکہ کی پشت سے نیچے اترنا ہوگا اور ہمیں پسند ہو نہ ہو، افغانستان میں ایک حکومت بن چکی ہے، اس کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور ویسے بھی قطر میں رو دھو کر انڈین وزیر خارجہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بنایا گیا۔ اب انڈیا صرف ڈیم، سڑکیں، ہسپتال اور دیگر انفراسٹکچر ہی بنا سکے گا، اب وہاں سے بیٹھ کر پاکستان میں حملے کرانا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی اب پاکستان کے کونسل خانے جلوائے جا سکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 949598
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش