5
Tuesday 24 Aug 2021 15:03

عزاداری امام حسینؑ کے محاسن اور بدعات

عزاداری امام حسینؑ کے محاسن اور بدعات
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

حضرت امام حسین (ع) کا غم منانا سنت نبویﷺ ہے۔ فریقین (اہل سنت و شیعہ حضرات) کی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں کہ ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ کو  اُن کی حیاتِ مبارکہ میں حضرت جبرائیل ؑ نے امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر دی تھی اور حضورﷺ نے اپنی زندگی میں ہی متعدد مرتبہ امام حسین (ع) پر گریہ کیا تھا اور آپ ؐ غمگین ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان آج غم منانے کی نفسیاتی کیفیات میں اختلاف ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اگر چار بھائیوں کا باپ فوت ہو جائے تو ایک بیٹے کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا، وہ زور زور سے روتا ہے اور اپنے آپ کو پیٹتا ہے، جبکہ دوسرا بے تابی کا اظہار کھلے عام نہیں کرتا، وہ مہمانوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور تیسرا باپ کی قبر کھودنے و کفن دفن میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چوتھا بیٹا باپ کیلئے قرآن خوانی و صدقہ و خیرات کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اختلاف سگے بھائیوں، دوستوں، میاں بیوی، ہمسایوں حتی کہ استاد و شاگرد کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے درمیان بھی غمِ امام حسینؑ منانے کے حوالے سے یہ فرق نظر آتا ہے۔ یہ اندازِ غم کی تفریق اپنی جگہ لیکن ظالم کے خلاف احتجاج کرنے، ظالم کی مذمت کرنے، ظالم پر لعنت کرنے اور مظلوم کی مدد و نصرت اور مظلوم پر گریہ کرنے میں قرآن و سنت کی رو سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اہلِ سنت کے ہاں بھی محرم الحرام میں حضرت امام حسین ؑ کی یاد میں تقریبات و محافل کا انعقاد ہوتا ہے، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں اور کانفرنسز کا اہتمام  کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں رسول ؐ کی سنت کے احیاء کیلئے امام حسین ؑ پر گریہ بھی کیا جاتا ہے اور امام حسینؑ کے قیام کے فلسفے و اہداف اور قاتلوں کی اصلیت کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اہلِ سنت کی محافل و مجالس کا حُسن یہ ہے کہ ان محافل و مجالس میں عشق و عقیدت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اہلِ سنت کے بعض خطباء بڑی بیباکی سے قاتلین کے چہرے سے نقاب کشائی کرتے ہیں اور اپنی ملت کو امام حسین ؑکے نقشِ قدم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ محرم الحرام میں اہلِ تشیع کے ہاں بھی اسی عقیدت اور ولولے کا اظہار بدرجہ اتم کیا جاتا ہے۔ اہلِ تشیع کے ہاں امام حسین ؑ کی یاد، غم اور گریے کے حوالے سے دو طرح کی چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے:

1۔ وہ چیزیں جن سے غم کا سماں اور ماحول بنتا ہے۔ جیسے کالے کپڑے، سیاہ رنگ، ذوالجناح، یعنی امام حسینؑ کے گھوڑے کی شبیہ بنانا، ننگے پاوں چلنا، سر اور بالوں میں مٹی ڈالنا، حضرت امام حسین ؑ اور دیگر شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ بنانا، شہدائے کربلا کے علم و پرچم کی شبیہ بنانا، ایسے بینر اور کتبے بنانا جن سے شہدائے کربلا کے ساتھ عقیدت کا اظہار ہو، ماتمی دستے بنا کر باقاعدہ ماتم کرنا، کربلا کے پیاسوں کی یاد میں پانی، شربت اور دودھ کی سبیلیں لگانا، تبرک، کھانے اور لنگر کا وسیع انتظام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
2۔ وہ چیزیں جو مصیبتِ امام اور مشن امام حسینؑ کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ جیسے نوحہ خوانی، قصیدہ گوئی، مرثیہ خوانی، تقاریر، مصائب، دوہڑے اور بند وغیرہ۔

جب ہم حقیقی و باشعور اہلِ سنت اور اہلِ علم شیعہ حضرات کے ہاں حضرت امام حسین ؑ کے بارے میں حضور نبی اکرمﷺ کی احادیث دیکھتے ہیں، آپ کا غم اور گریہ دیکھتے ہیں، امام حسینؑ کے زمانے کے حالات و واقعات دیکھتے ہیں، حضرت امام حسینؑ  کے مشن اور اہداف کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے صرف دو گروہ ہیں۔ ایک وہ ہیں جو  61 ھجری میں بھی یزید کے ہمراہ تھے، آج بھی اس کے ہمراہ ہیں اور دوسرے وہ ہیں، جو کربلا میں اگر موجود تھے تو شہید ہوگئے اور اگر موجود نہیں تھے تو وہ شہادتِ امام حسینؑ کی خبر سن کر سخت غمزدہ ہوئے اور آج بھی غمگین ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں، جو حضرت امام حسینؑ کو حق پر سمجھتے ہیں اور یزید کو مطلقاً باطل قرار دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ شہادت امام حسینؑ کے بعد مسلمانوں کے دو گروہ ہیں: ایک جو  بظاہر یا اندرونِ خانہ اس خونریزی پر خوش ہیں اور یزید کے مظالم پر سکوت اختیار کرنے کا پرچار کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں، جو اس ظلم و بربریت پر خاموشی کو بھی ظلم اور یزید کے ساتھ محشور ہونے کا باعث سمجھتے ہیں، وہ مسلسل چودہ سو سالوں سے غم ِامام حسینؑ مناتے ہیں اور یزید کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ پس اب کربلا کے نکتہ نظر سے دو طرح کے مسلمان ہیں: حسینی و یزیدی۔ باقی فقہی و فرعی تقسیم صرف نماز و روزے کے انجام دینے کے طریقے کی حد تک درست ہے۔

اب یہاں پر ان چیزوں کا بھی ذکر کیا جانا ضروری ہے کہ جو ہمارے معاشرتی رویوں، ذاتی دلچسبیوں اور عوامی جہالت کی پیداوار ہیں۔ خواص کو چاہیئے کہ وہ وسعت قلبی کے ساتھ، سارے فرقوں سے برتر ہو کر عوام کو ایسی عزاداری منانے کی دعوت دیں، جو خدا اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرنے کی باعث بنے۔ یہاں پر ضروری ہے کہ عوام کو یہ آگاہی دی جائے کہ بدعات اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بدعت کا مفہوم اور مصادیق سمجھائے جائیں۔ مفاہیم اور مصادیق کو واضح کئے بغیر صرف بدعت کا فتویٰ دینے سے مسائل نہیں سلجھیں گے۔
ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہر ایسا کام جس کی قرآن مجید اور پیغمبر ِاسلام کی زندگی میں مثال نہ ملے، اُسے بدعت کہتے ہیں۔ آسان لفظوں میں جو کام دینِ اسلام میں نہ ہو، اُسے دینی فعل کہہ کر دین میں داخل کرنے کا نام یا دین سے حذف کرنے کا نام بدعت ہے۔

مزید آسانی کیلئے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ بدعت کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ یا کمی کرنا۔
۲۔ کسی بھی فعل کو اپنی طرف سے ایجاد کرکے اس کے احترام، ثواب یا عذاب کا عقیدہ رکھ لینا۔
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ دینِ اسلام میں کسی بھی نوآوری کی ممانعت نہیں۔ ممانعت تب ہے، جب مسلمان کسی نئی چیز کو اختراع کرے اور اسے دین کہنا شروع کر دے۔ لہذا دین کے لیبل کے بغیر کوئی چاہے جتنی مرضی ہے تقریبات منعقد کرے اور جو مرضی ہے کرے، اُسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ ذکرِ امام حسینؑ اور عزاداری و ماتم میں چونکہ عوام کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، لہذا عام لوگ جو سوچتے ہیں، اُسے ہی اپنے طور پر ثواب سمجھ کر انجام دینا شروع کر دیتے ہیں، جو کہ گمراہی کا سبب ہے۔ عوام کو چاہیئے کہ وہ اپنی طرف سے دین سمجھ کر کسی چیز کا اضافہ کرنے کے بجائے اپنے دیندار اور باشعور علماء خصوصاً مراجع کرام اور مجتہدین سے رجوع کریں۔ ان سے پوچھیں کہ ہمارا یہ فعل کہیں بدعت اور گمراہی تو نہیں۔

اسی طرح بہت سارے ایسے سلسلے جو ماضی سے چلے آرہے ہیں، اُن پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ مثلا نوحہ خوانی، مرثیہ خوانی اور تقاریر میں عصرِ حاضر کے یزیدوں سے مقابلے کا عنصر بھی ہونا چاہیئے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیئے کہ آج اگر امام حسینؑ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ آج مسلمانوں کی پسماندگی، جہالت، فرقہ واریت، شدت پسندی ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازی، کشمیر اور فلسطین کی ماوں بہنوں کے حوالے سے ملت اسلامیہ کو کیا پیغام دیتے!؟ امام حسین کے مکتوبات و خطبات کو عصرِ حاضر کے تناظر میں بیان کیا جانا چاہیئے، تاکہ دنیا بھر کے مسلمان امام عالی مقام ؑ کے نقشِ قدم پر چل سکیں۔ راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ امام حسینؑ نے اپنا فریضہ اور ذمہ داری انجام دے دی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے مسالک اور فرقوں کی دکانوں سے بلند ہو کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر  کے تحت اپنے اپنے مسالک و مکاتب کے عوام کی اصلاح کریں اور کربلا والوں کا فریضہ انجام دیں۔ اگر آج بھی ہم امام عالی مقام ؑ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اصلاحِ معاشرہ کیلئے فعال ہیں تو ہم حسینی ہیں ورنہ۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 950150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش