QR CodeQR Code

عزاداری میں خرافات کی پرچھائیاں

25 Aug 2021 21:54

اسلام ٹائمز: سمجھدار لوگوں کو چاہیئے کہ وہ عزاداری کا تقدس اور حرمت عوام کو سمجھائیں، عزاداری کی مجالس میں خالصتاً منطقی، علمی، تحقیقی انداز میں توحید، عدالت، رسالت، ختم نبوت، امامت، قیامت، سیرت النبیﷺ، تعلیماتِ قرآن و سنت اور عالم اسلام کی وحدت کا پرچار ہونا چاہیئے۔ عزاداری کے جلوسوں میں دینی تقدس کی حاکمیت، اسلامی حجاب اور پردہ داری کی رعایت، باہمی احترام کا لحاظ، رواداری کا خیال، عزاداری کے جلوسوں میں با وضو رہنے اور پاکیزگی و طہارت کا بندوبست، اول وقت میں نماز، حقُ الناس اور حرام و حلال کی طرف توجہ، ملکی و قومی املاک کی حفاظت، قانون کا احترام، ٹریفک کے مسائل، راستوں میں صفائی و ستھرائی، خون کے عطیات دینے، سبیلیں لگانے اور ان جیسی تمام اعلیٰ و ارفع اقدار کا احیاء کیا جانا چاہیئے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ عزاداری امام حسینؑ دراصل اسلام اور انسانیت کی اعلیٰ و ارفع اقدار کے احیاء کا نام ہے۔


تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

انسانی زندگی میں عقل و شعور کا کلیدی مقام ہے۔ عقل کی وجہ سے ہی انسان کو انسان کہا جاتا ہے۔ دینِ اسلام میں تعقل، تدبر، تحقیق اور سوچ و بچار کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ جو انسان عقل و شعور اور فہم و فراست سے عاری ہو، وہ انسانی  اقدار، اعلیٰ اخلاق، سماجی تعامل، باہمی رکھ رکھاو اور اجتماعی میل جول کے لحاظ سے انتہائی پستی کو چھو لیتا ہے۔ ایک غیر عاقل انسان اپنے تئیں کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری تاریخ بشریت میں انسانوں پر اتنے بھیانک اور دلخراش مظالم جانوروں اور درندوں نے نہیں ڈھائے، جتنے خود انسان نے ڈھائے ہیں۔ چنانچہ  انسان جہاں احسن تقویم کا مصداق ہے، وہیں اسفل سفلین بھی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کربلا میں عقل و شعور سے بے بہرہ اور پست ترین لوگوں نے امام حسینؑ کو شہید کر دیا۔ یعنی بظاہر اسفل سفلین افراد نے میدان مار لیا۔ لاشوں پر گھوڑے دوڑا دیئے، سروں کو نیزوں پر آویزاں کر دیا، خیامِ نبیﷺ کو لوٹ کر جلا دیا اور  آلِ نبیﷺ کو اسیر کرکے کوچہ و بازار میں پھرایا۔

صاحبانِ عقل کیلئے مقامِ تفکر اور تعقل ہے کہ یہ بازی کا پانسہ پلٹ کیسے گیا!؟ یہ کیا ہوا کہ واقعہ کربلا کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس میں سے کسی کو پھر خاندانِ رسولﷺ سے بیعت مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی؟ وہ کونسی حکمتِ عملی تھی، جس کے باعث دنیا بھر میں ماضی کے فاتحین یزید، ابنِ زیاد، شمر، عمر ابن سعد  وغیرہ اور بنو امیہ کا نام گالی بن گیا۔؟ یہ کیسا معجزہ ہے کہ یزید کی محبت گنتی کے چند ناصبیوں تک محدود ہے اور جو بھی یزید سے محبت کرے اس سے بھی عام مسلمانوں کو گھن آنا شروع ہو جاتی ہے، لیکن حضرت امام حسین ؑ کی محبت ہر مسلمان اور منصف مزاج انسان کے دل میں رچی بسی ہوئی ہے!؟ یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ آخر کیوں امام حسینؑ پر گریہ و ماتم تو جگہ جگہ ہوتا ہے، لیکن یزید کی فتح کا جشن کوئی نہیں مناتا۔؟

خونِ حسین ابن علی ؑ نے جس طرح یزید اور بنو امیہ سے اسلام کی مخالفت کا انتقام لیا ہے، اس کی دوسری مثال کہیں نہیں ملتی۔ ہمیشہ جہاں بھی ظلم ہوتا ہے، وہاں امام حسینؑ کی سیرت اور کربلا کے پیغام کو بیان کیا جاتا ہے۔ بلا شبہ ثواب و عذاب سے ہٹ کر امام حسین ؑ کی معرفت دنیا کی ضرورت بن گئی ہے۔ ظلم کی تاریک جیل میں مقید، مظلوم اور محکوم انسانوں کی ہر تحریک، ہر تنظیم اور ہر قیادت کو امام حسینؑ سے ہی امید، روشنی اور ہدایت ملتی ہے۔ انسانی قلوب کی تطہیر، تذکیہ نفس، ظالموں کی شناخت، مظلوموں کی مدد، ظلم سے نفرت اور مظلوم سے محبت کیلئے ہر سال واقعہ کربلا کو دہرایا جاتا ہے۔

یقین جانیئے! انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان یہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے کہ وہ امام حسین ؑ جو اتنی مظلومیت کے ساتھ شہید ہوئے کہ آپ کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیا گیا، آج آپ کے ساتھ لوگوں کا اتنا عجیب اور والہانہ عشق ہے کہ آپ کی شہادت کے مہینے میں مسلمانوں کا دل ہی نہیں کرتا کہ وہ کسی شادی یا خوشی کی تقریب کا سوچیں بھی۔ بلاتفریقِ مسلک ہر مسلمان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس نے اپنے آنگن میں شہداء کی تازہ تازہ لاشیں رکھی ہوئی ہوں۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ عشق کی یہ تازگی کیسے نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔؟ ان سارے سوالوں کا صرف ایک جواب ہے اور وہ ہے عزاداری امام حسینؑ۔ جی ہاں یہ عزاداری امام حسینؑ ہی ہے کہ جس نے بنو امیہ اور بنو عباس کی سفاکیت کے بیچ میں حسین ابن علیؑ کی یاد کی شمع کو جلائے رکھا۔

یہ عزاداری امام حسینؑ ہی ہے کہ جس سے نسل در نسل اہداف امام حسینؑ کا پرچار اور تبلیغ ہوئی۔ یہ عزاداری  امام حسینؑ ہی ہے کہ جس کی بدولت سینہ بہ سینہ عشق امام حسینؑ کا دریا بہہ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال عزاداری امام حسینؑ معاشرے میں ایک فلٹر کی مانند اسلامِ حقیقی و مصطفویﷺ کو چھان کر بادشاہوں کے دین سے جدا کر دیتی ہے۔ عزاداری امام حسینؑ کسی ایک مکتب، مسلک یا فرقے تک محدود نہیں ہے۔ تاہم یہ امر توجہ طلب ہے کہ عزاداری کو  مقصدِ امام حسینؑ سے ہٹانے کیلئے کچھ نادان اور ناسمجھ افراد اور بعض سمجھدار دشمن  تیزی سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ دونوں طرح کے لوگ عزاداری جیسی مقدس حسینی تحریک کو بدعات و خرافات سے آلودہ کرنے کے درپے ہیں۔

سمجھدار لوگوں کو چاہیئے کہ وہ عزاداری کا تقدس اور حرمت عوام کو سمجھائیں، عزاداری کی مجالس میں خالصتاً منطقی، علمی، تحقیقی انداز میں توحید، عدالت، رسالت، ختم نبوت، امامت، قیامت، سیرت النبیﷺ، تعلیماتِ قرآن و سنت اور عالم اسلام کی وحدت کا پرچار ہونا چاہیئے۔ عزاداری کے جلوسوں میں دینی تقدس کی حاکمیت، اسلامی حجاب اور پردہ داری کی رعایت، باہمی احترام کا لحاظ، رواداری کا خیال، عزاداری کے جلوسوں میں با وضو رہنے اور پاکیزگی و طہارت کا بندوبست، اول وقت میں نماز، حقُ الناس اور حرام و حلال کی طرف توجہ، ملکی و قومی املاک کی حفاظت، قانون کا احترام، ٹریفک کے مسائل، راستوں میں صفائی و ستھرائی، خون کے عطیات دینے، سبیلیں لگانے اور ان جیسی تمام اعلیٰ و ارفع اقدار کا احیاء کیا جانا چاہیئے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ عزاداری امام حسینؑ دراصل اسلام اور انسانیت کی اعلیٰ و ارفع اقدار کے احیا کا نام ہے۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس طرح پیغمبرِ اسلامﷺ نے انسانوں کے درمیان سارے فرق اور تعصبات مٹا دیئے تھے، لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ نعوذ باللہ اپنے جد ہاشم اور عبدالشمس (امیہ) کے جنگ ہی لڑتے رہے اور پھر کربلا کی جنگ بھی دو شہزادوں کی جنگ تھی، ایک ہاشمی شہزادہ تھا اور دوسرا اموی شہزادہ۔ یعنی پیغمبر اسلامﷺ نے تو ساری جدوجہد تعصبات کے خلاف کی، لیکن آپ کو ہی نعوذ باللہ متعصب کہہ دیا گیا۔ اسی طرح امام علیؑ نے ساری عمر کفر اور شرک کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری اور آپ کا ہی نام لے کر غلو اور شرک شروع کر دیا گیا۔ یونہی امام حسینؑ نے تو خرافات و بدعات کے خاتمے کیلئے قیام کیا تھا اور آپ کی عزاداری نے  گذشتہ چودہ سو سالوں میں انسانی شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردار کیا ہے، لیکن بعض جگہوں پر اسی عزاداری میں خرافات کی پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔

یہاں پر اولین ذمہ داری سارے باشعور مسلمانوں اور علمائے کرام کی بنتی ہے کہ وہ عزاداری کے تحفظ کیلئے میدان میں آئیں۔ ہر باشعور مسلمان اور عالم دین کی طرف سے عزاداری میں خرافات و بدعات کا باعث بننے والے افراد اگر قابلِ اصلاح ہیں تو ان کی اصلاح کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ اگر ناسمجھ ہیں تو انہیں سمجھایا جانا چاہیئے، اگر برطانوی سامراج کے وظیفہ خور ہیں تو انہیں عزاداروں کی صفوں سے دور  کیا جانا چاہیئے، بہرحال کسی بھی قیمت پر عزاداری کو بدنام کرنے اور اصلی اہداف سے ہٹانے والوں کی ہر ممکنہ طریقے سے حوصلہ شکنی ہونی چاہیئے۔ یاد رکھئے! انسانی زندگی اور دینِ اسلام میں عقل و شعور کا کلیدی مقام ہے۔ ایک غیر عاقل اور دین سے لاعلم انسان اپنے تئیں کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ لہذا عزاداری جیسے شعوری، عبادی اور عشق و معرفت سے پھرپور فعل کی مدیریت دیندار، باشعور اور پڑھے لکھے افراد کو کرنی چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 950425

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/950425/عزاداری-میں-خرافات-کی-پرچھائیاں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org