QR CodeQR Code

افغانستان سے ابہامستان تک

26 Aug 2021 00:40

اسلام ٹائمز: طالبان کیلئے جہاں دیگر چیلنجز ہیں، وہاں چین، پاکستان، ایران، روس اور وسطی ایشیاء کے بعض ممالک کی طالبان سے یہ توقع ہے کہ وہ ان تمام انتہاء پسندوں اور دہشتگرد گروہوں کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ افغانستان میں رہ کر ہمسایہ ممالک کیخلاف کسی طرح کی منفی سرگرمیاں انجام دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ان تمام گروہوں کو جو ماضی میں انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بقول انکے جہاد کرتے رہے ہیں، انکو ہمسایہ ممالک کے کہنے پر اپنے سے دور کر دینگے۔؟ کیا طالبان اپنے اقتداد کے تحفظ کیلئے یہ کر گزریں گے اور یہ مسلح گروہ بھی خاموشی سے افغان طالبان کے مقابلے میں سر تسلیم خم کر لیں گے۔؟


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ماہرین سیاسیات کے مطابق اقتدار کے اپنے تقاضے اور اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ اقتدار میں آکر سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں اور مصلحت کے نام پر اصولوں کو پس پشت بھی ڈالنا پڑتا ہے۔ اس وقت طالبان گروہ کو بھی اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ طالبان کی طرف سے افغانستان اور خاص طور پر دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لینے کے اعلان کو تقریباً دو ہفتے کا عرصہ گزر جانے کے بعد ابھی تک افغانستان کی آئندہ حکومت کے خدوخال واضح نہيں ہوسکے ہيں جبکہ دوسری جانب وادی پنجشیر میں طالبان اور احمد مسعود کی فورس کے درمیان لڑائی بدستور جاری ہے۔ اگرچہ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے افراد نے پنچشیر کا محاصرہ کر لیا ہے اور ہم چاہتے ہيں کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے، لیکن متعدد ذرائع سے موصول ہونے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ پنجشیر میں طالبان اور احمد مسعود کی مزاحمتی فورس کے درمیان لڑائی جاری ہے اور دونوں جانب سے اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوے بھی کئے جا رہے ہيں۔ احمد مسعود طالبان کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے پر قائم ہیں، لیکن ساتھ ہی مذاکرات کیلئے بھی رضامند ہیں۔

فرانسیسی جریدے کو انٹرویو میں احمد مسعود کا کہنا تھا کہ میں طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں احمد شاہ مسعود کا بیٹا ہوں اور ہتھیار ڈالنے کا لفظ میری لغت میں نہیں۔ احمد مسعود نے دعویٰ کیا کہ ہزاروں افراد پنجشیر میں قومی مزاحمتی محاذ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی رہنماؤں کی تاریخی غلطیاں نہیں بھول سکتا، جن سے 8 دن پہلے اسلحہ مانگا تھا، لیکن انہوں نے انکار کیا اور آج وہی ہتھیار، ہیلی کاپٹر اور ٹینک طالبان کے ہاتھ میں ہیں۔ مذاکرات کے حوالے سے احمد مسعود کا کہنا تھا کہ ہم بات کرسکتے ہیں اور تمام جنگوں میں بات چیت ہوتی ہے، میرے والد ہمیشہ اپنے دشمنوں سے بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے افغان حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہوں۔

دریں اثناء غیر ملکی ذرائع ابلاغ منجملہ امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ افغانستان کا نظم و نسق چلانے کے لئے طالبان نے چوبیس رکنی ایک انتظامی کونسل کو اپنے مدنظر رکھا ہے، جس میں طالبان لیڈروں کے ساتھ افغانستان کے دیگر گروہوں اور جماعتوں کے رہنماء بھی شامل ہوں گے۔ طالبان کی طرف سے اس کونسل کے لئے جن لیڈروں کے نام سامنے آرہے ہيں، ان میں ملا عبدالغنی برادر، طالبان کے سابق لیڈر ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب اور خلیل حقانی کے نام بھی شامل ہيں۔ البتہ افغانستان کے دیگر گروہوں اور سیاسی جماعتوں میں سے کن جماعتوں کے رہنماؤں کو شامل کیا جائے گا، ابھی یہ واضح نہيں، تاہم امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اس کونسل میں احمد مسعود کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ طالبان کے ساتھ حامد کرزئی و عبداللہ عبداللہ اور حکمتیار کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کی شیعہ علماء کونسل کہا ہے کہ مطالبات تسلیم ہونے کی شرط پر حکومت کی تشکیل میں طالبان کے ساتھ تعاون کرے گی۔ افغانستان کی شیعہ علماء کونسل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے افغانستان میں بسنے والے تمام لوگوں، مسلک اور مذاہب کیلئے قابل قبول وسیع البنیاد اسلامی حکومت کی تشکیل پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان نے ہمارے مطالبات مان لئے تو حکومت کی تشکیل میں ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ کابل میں افغان شیعہ علماء کونسل کے اجلاس کے اختتامی بیانیے میں جسے افغانستان کے سابق وزیر برائے مہاجرین سید حسین عالمی بلخی نے پڑھا، کہا گیا ہے کہ افغانستان کی ابتر اور عوام کی ناگفتہ بہ صورتحال کو ٹھیک کرنے اور افغانستان کی ترقی و پیشرفت کیلئے تمام اقوام، مذاہب اور اہل افراد پر مشتمل قومی اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل ضروری ہے۔ افغانستان کی تشیع نے اپنے موقف کا کھل کر اعلان کر دیا ہے، تاہم پاکستان کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے جبکہ دوسرے ہمسایہ ممالک کو کئی خدشات ہیں۔

معروف پاکستانی صحافی سلیم صافی کے بقول افغان طالبان نے پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے مطالبے پر افغان طالبان کے امیرالمومنین نے ٹی ٹی پی کے ایشو سے متعلق ایک کمیشن بھی تشکیل دیا ہے تو یہاں پاکستان کے لوگوں کی اکثریت یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان کو پکڑ پکڑ کر پاکستان کے حوالے کر دیں گے، حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ بہرحال طالبان کے لئے جہاں دیگر چیلنجز ہیں، وہاں چین، پاکستان، ایران، روس اور وسطی ایشیاء کے بعض ممالک کی طالبان سے یہ توقع ہے کہ وہ ان تمام انتہاء پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ افغانستان میں رہ کر ہمسایہ ممالک کے خلاف کسی طرح کی منفی سرگرمیاں انجام دیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ان تمام گروہوں کو جو ماضی میں ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بقول ان کے جہاد کرتے رہے ہیں، ان کو ہمسایہ ممالک کے کہنے پر اپنے سے دور کر دیں گے۔؟ کیا طالبان اپنے اقتداد کے تحفظ کے لئے یہ کر گزریں گے اور یہ مسلح گروہ بھی خاموشی سے افغان طالبان کے مقابلے میں سر تسلیم خم کر لیں گے۔؟ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت سارے "اگر" ہیں، جہاں "اگر" زیادہ ہوں، وہاں ابہامات بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت افغانستان کو اگر ابہامستان کہا جائے تو بہتر ہے۔


خبر کا کوڈ: 950447

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/950447/افغانستان-سے-ابہامستان-تک

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org