0
Friday 27 Aug 2021 23:20

موت سے ڈر کے کیا ہم علی چھوڑ دیں

موت سے ڈر کے کیا ہم علی چھوڑ دیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

محرم الحرام میں عاشورہ بظاہر پرامن طور پہ گزر گیا ہے، مگر ملک بھر میں تفصیلی رپورٹ اور مختلف شہروں میں ہونے والے واقعات کو جمع کیا جائے تو یہ بہت زیادہ خطرناک اور تفرقہ انگیز ترین محرم تھا۔ اگرچہ محرم کے پروگرام، مجالس، یوم حسینؑ، سیمینارز اور کانفرنسز کا سلسلہ جاری ہے مگر عمومی طور پر حکومت عاشورہ گزر جانے کے بعد بہت زیادہ آرام و سکون میں چلی جاتی ہے۔ ملک بھر مین ہونے والے واقعات میں سب سے سنگین واقعہ بہاولنگر کا تھا، جہاں پرامن عزاداران شیعہ و سنیوں پر ایک مسجد کی چھت سے ایک دہشت گرد نے دستی بم پھینکے اور بیسیوں لوگوں کو زخمی کر دیا جبکہ اس واقعہ میں ایک ہندو، ایک اہل سنت سمیت چار لوگ شہید ہوئے۔ ایک چھ سالہ بچی بھی شہید ہوئی، جبکہ یہ شہادتیں انتظامیہ کی طرف سے ایمرجنسی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بروقت امداد نہ ملنے کے باعث بھی ہوئیں۔ عاشور کے جلوسوں میں عمومی طور پہ ہر جگہ ایمرجنسی ڈاکٹرز اور ایمبولینس سروس مہیا ہوتی ہیں جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ جب دہشت گرد نے حملہ کیا تو زخمی ہونے والے عزاداران کو اپنی مدد آپ کے تحت اسپتالوں میں پہنچایا گیا، جس سے زخمی ہونے والوں کا خون بہہ گیا اور وہ جام شہادت نوش کر گئے۔

اسی طرح ملک کے کئی حصوں میں ایام محرم مین سوشل میڈیا پر بدتمیزی کا طوفان کھڑا کیا گیا ہے اور کئی ایک شہروں میں انتظامیہ نے انتہائی متعصبانہ روش اپناتے ہوئے بے گناہ شیعہ جوانوں پر توہین صحابہ کے جھوٹے الزامات لگا کر ایف آئی آرز کاٹی ہیں، جن کی تعداد شاید پچاس تک ہوسکتی ہے، جبکہ تعصب و متعصبانہ انتظامیہ کی اسی روش کے نتیجہ میں جہلم میں ایک بدترین ایف آئی آر سامنے آئی، جس میں مقامی خواتین کو بھی نامزد کیا گیا جبکہ جس مجلس پر ایف آئی آر دی گئی ہے، وہ لائسنسی مجلس تھی۔ اسی طرح کمالیہ میں یکم محرم کی ایک زنانہ مجلس کی بانی خاتون، اس کے فرزند اور امام بارگاہ کے متولی کے خلاف ایک گھنٹہ تاخیر سے ختم کرنے کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی، جو سراسر اتظامیہ کے تعصب کا شاخصانہ ہی ہے۔ اسی دوران حیدر آباد میں فسادات کی پوری کوشش کی گئی، شیعہ گھروں پر حملے اور فائرنگ کی گئی۔ کئی شہروں میں تکفیری عناصر اور فرقہ پرست کالعدم گروہ نے شر اور فساد پھیلانے کیلئے خود توہین آمیز چاکنگ کی اور اس کا الزام اہل تشیع پہ لگا کر امن و امان کا مسئلہ کھڑا کر دیا اور اس نام نہاد توہین کی آڑ میں اہل تشیع کے مقدسات کی توہین کی گئی۔

بہت سی جگہوں پہ علم مبارک کی توہین کی گئی، کئی ایک جگہوں پہ سبیل امام حسین ؑ جہاں سے بلا تخصیص لوگوں کو شربت، پانی، دودھ پلایا جاتا ہے، پر حملے کئے گئے اور بزور طاقت سبیل بند کروانے کی کوشش کی گئی، جس سے فساد اور شر کا ماحول پیدا ہوا۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں جسے ایک شیعہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ان تھک محنت اور قربانیوں سے حاصل کیا تھا اور اس کی بنیادوں میں اگر کسی کا کچھ خرچ ہوا تو وہ اہل تشیع ہی تھے، انہی اہل تشیع کیلئے اس ملک میں اتنی مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں، ان کے مقدسات کی توہین، ان کی عبادت میں رخنہ اندازی، ان پر جارحیت، حملے اور دھونس دھمکیاں وہ بھی ان عناصر کی طرف سے جن کے بڑوں نے اس مملکت کی تاسیس کی مخالفت کی اور وہ اس پر آج بھی فخر کرتے ہیں۔ آخر اس ملک کے ذمہ داران، حکمران اور اتھارٹیز اسے کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔؟

 اہل تشیع کی تکفیر کا جو سلسلہ اسی کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں اس ملک میں اسی ہزار لوگ جان سے چلے گئے، ملک کی اقتصاد کا بیڑہ غرق ہوگیا، معیشت آج تک سنبھل نہیں پائی اور جیسے ہی معیشت میں بہتری ہونا شروع ہوتی ہے تو یہ تکفیری عناصر اور فرقہ پرست اپنا ایجنڈا لے کر میدان میں آن کھڑے ہوتے ہیں اور پھر معیشت سمیت ترقی کا ہر پہیہ رک جا تا ہے۔ سماج میں بے یقینی اور بداعتمادی جنم لیتی ہے، سرمایہ گزار عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں اور مارکیٹ سے بھاگ جانے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ اس حکومت میں وہ عناصر جن کے خلاف آپریشن ضرب عضب کیا گیا، وہ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا تھا، وہ بر سر عام فرقہ واریت اور شر و فساد پھیلانے کیلئے آزاد پھر رہے ہیں، ان کو لگام دینے کے بجائے معصوم و بے گناہ اہل تشیع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جن لوگوں کو ان کی ملک دشمن، دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باعث پابندی لگا کر کالعدم قرار دیا گیا تھا، انہیں ملک کے حقیقی مدافعان و محبان کا خون بہانے کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ پہلی بار اس حکومت میں خواتین پر مجالس میں تاخیر کا بہانہ بنا کر ایف آئی آرز کاٹی گئی ہیں، پہلی بار اس حکومت میں یزید ابن معاویہ پر لعن کرنے والے پر توہین کی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، سبیل لگانے پہ گرفتاریاں ہوئی ہیں، گھروں میں ہونے والے ذکر حسین ؑ کے پروگراموں پر پرچے کاٹے گئے ہیں، تعصب کی انتہاء دیکھیں کہ ایک طرف فرقہ پرست دہشت گردوں کو کھلا چھوڑا گیا ہے، دوسری طرف بے گناہ اور ملک کے امن و امان کیلئے قربانیاں دینے والوں کو پس دیوار زندان ڈالا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ایف آئی آرز سے اہل تشیع کو ان کے مقصد سے دور کیا جا سکتا ہے۔ کیا اہل تشیع کو ان جلوسوں، مجالس اور عزاء کے پروگراموں سے دور رکھا جا سکتا ہے، کیا اہل تشیع ان پرچوں سے ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں گے، کیا اہل تشیع ان بوگس ایف آئی آرز اور فورتھ شیڈول کی دھمکیوں سے ڈر کر راہ حسین ؑ کو ترک کر دیں گے تو ہمارا ماضی گواہ ہے کہ اس طرح کی شر انگیزیاں، اس طرح کے متعصبانہ اقدامات، اس طرح کی دھونس دھمکیاں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔

اگر خود کش دھماکوں سے چیتھڑوں میں تبدیل ہو جانے کے بعد انہیں اپنے راستے سے الگ نہیں کیا جا سکا تو ان ایف آئی آرز کی ان کے نزدیک کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ اگر بم دھماکوں، فائرنگ، مسلح یلغار سے حسینیوں کو راستے سے نہیں ہٹایا جا سکا تو جو قسط اب چلائی جا رہی ہے، اس کو چلانے والے کنٹرولرز کی یاد داشت کمزور ہے یا پھر کسی اور کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اہل تشیع اس سے قطعاً پریشان ہونے والے نہیں، کسی بھی حسینی گھر میں جنم لینے والا بچہ ہو یا بڑا، جوان ہو یا بزرگ، خاتون ہو یا مرد ان کی گھٹی میں حسینیت پلائی جاتی ہے، ان کی مائیں انہیں دودھ میں کربلا پلاتی ہیں، عزائے حسین ؑوہ ورثہ ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے، جس کی تاثیر چودہ صدیاں گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوئی نہ ہوگی، حسینی ہر دور میں جھوٹے محبان رسول، جھوٹے، منافق دعویٰ محبت اہلبیت ؑکرنے والوں اور  نام نہاد عاشقان آل رسول کو بے نقاب کرتے آرہے ہیں اور یہ مصائب و مشکلات جھیل کر مزید چہروں سے نقاب کھینچتے رہینگے۔ دشمنان ولا و عزاء کیلئے ایک نوحے کا یہ مطلع عرض کئے دیتے ہیں۔۔
موت سے ڈر کے کیا ہم علی چھوڑ دیں
اس سے بہتر ہے یہ، زندگی چھوڑ دیں
خبر کا کوڈ : 950775
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش