0
Saturday 28 Aug 2021 11:58

بغداد سمٹ سے وابستہ امیدیں

بغداد سمٹ سے وابستہ امیدیں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پچھلی تقریباً دو دہائیاں ایسی گزری ہیں، جس میں بغداد کا نام آتے ہی بم دھماکے   یا کسی بھی قتل عام کی خبر کے منتظر ہو جاتے تھے۔ امریکہ خطے کے جس ملک میں بھی گیا، اس کی تہذیبی شناخت کو داغدار کر دیا۔ ان میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی امید تک سلب کر لی، اس طرح نسل نو کو غلامی کی طرف ہی مائل کیا۔ امریکہ اور مغرب یہ چاہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے دماغ تو وہ لے جائیں، باقی مایوس نسل کو انہی ممالک کے بارڈرز میں قید کر دیا جائے۔ اگر کوئی خود سری کرے تو ڈیزی کٹر بموں کے ذریعے ان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ یاد رکھیں۔ اس سب کے باوجود نہ تو ان سرزمینوں پر بزدلوں کو اکثریت ملی اور نہ ذہین لوگوں کی قلت ہوئی بلکہ مٹی سے محبت کرنے والے پرتعیش زندگی کو ٹھکرا کر ملت کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے ہمیشہ موجود رہے اور مشکل سے مشکل حالات میں اپنے لیے راہ نکالتے رہے۔

عراق کے وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی نے چھ مئی 2020ء کو چارچ سنبھالا، یہ چار سال تک ملک کی نیشنل سکیورٹی کے سربراہ رہے۔ یہی کاظمی کا سب سے طاقتور پوائنٹ ہے کہ وہ انتہائی حساس ترین وقت میں عراق کے سکیورٹی کے سربراہ رہے، جب عراق پر داعش کے سیاہ بادل چھائے تھے، اسی کاظمی نے امریکی فورسز سے براہ راست معاملات کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ  داعش کے مقابل بڑی تیز رفتاری سے حشد الشعبی کو کھڑا کر دیا، جنہوں نے داعش کی کمر توڑ دی۔ اس سے انہیں خطے کے سکیورٹی اداروں بالخصوص ایران کے ساتھ بھی انتہائی قریب سے کام کا موقع ملا۔ جب کاظمی عراق کے وزیراعظم بنے تھے تو اسی وقت تجزیہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ یہ خطے مین انتہائی موثر انداز مین آگے بڑھیں گے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی بغداد میں سفارتی پیغام کے ساتھ عراقی حکومت کی دعوت پر آئے تھے، جس کی کاظمی نے شدید امریکی مخالفت کے باوجود نہ صرف تائید کی تھی بلکہ اس پر اصرار کیا تھا یہ امریکہ کی بڑی سفارتی ناکامی تھی، جس کا جواب امریکہ نے صرف قیاس آرائیوں سے دیا تھا۔ امریکہ اور اسرائیل خطے کے ممالک کو ایران سے ڈرا کر دشمنی پیدا کر رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت بارہا کہہ چکی ہے کہ آئیں مذاکرات کریں، ہم بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ ایران کے نئے صدر جناب ابراہیم رئیسی یہ کہہ چکے ہیں کہ  وہ ریاض کے ساتھ تعلقات کو بحال کرسکتے ہیں، اب بال ایک طرح سے سعودی کورٹ میں ہے۔ خیر  عراق نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کرانے کی بھرپور کوشش کی، معاملات کہیں آکر رک جاتے تھے، پچھلے دنوں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے العربیہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت ہی حوصلہ افزا باتیں کیں۔

 اس سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ روابط بہرحال موجود ہیں اور بات آگے بڑھ رہی ہے، عراق کا کردار بھی پیغام رساں سے مصالحت کار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ بہت اہم پیش رفت ہے، کب تک خطے کے مسائل کے فیصلے نیویارک، پیرس اور ویانا میں ڈسکس ہوں گے۔ خطے کے ممالک کے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے مالک لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل باہم حل نہ کرسکیں۔ باہر کے لوگ مسائل حل کم کرتے ہیں اور انہیں خراب زیادہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا خطہ نیوریارک، ویانا اور لندن میں ہونے والے فیصلوں کی وجہ سے آگ و خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ سب کو مائنس کرکے خود بات چیت کی جائے اور آگے بڑھا جائے۔ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے بڑے خطے کو کالونی بنانے والے ممالک آج بھی اپنے ذہن تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وائسرائے کی جگہ سفیروں کے ذریعے حکمرانی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

بغداد میں ہو رہی اس سمٹ میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی، اردن کے شاہ عبداللہ ثانی اور فرانس کے صدر کی شرکت کنفرم ہے، ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کی شرکت بھی متوقع ہے، ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان پہلے ہی بغداد پہنچ چکے۔ ترکی کو بھی اس سمٹ میں دعوت دی گئی ہے، ترکی کا بھی وفد اس سمٹ میں شریک ہوگا۔ یہ سمٹ صرف ایران سعودیہ تعلقات تک محدود نہیں ہوگی، اس میں پورے خطے کی صورتحال پر بات ہوگی۔ لبنان کے حالات بڑی تیزی سے خراب کیے جا رہے ہیں۔ لبنانی عوام شدید مشکلات کا شکار ہوچکی ہے، لبنان پر بات ہوگی۔ اسی طرح یمن کی صورتحال پر بات ہوگی۔ ایران اور سعودیہ بات چیت کا مرکزی کردار ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر اس کانفرنس میں ایران اور سعودیہ کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی اور باہم بات چیت کا آغاز ہو جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی اور خطہ جنگی ماحول سے باہر آنے لگے گا۔

مشرق وسطی کو دیکھا جائے تو اسرائیلی اور امریکی مہربانیوں سے خطہ بند گلی میں پہنچ چکا ہے، اسرائیلی اور امریکی وعدوں پر تنازعات کو شروع کرنے والے اب بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سمٹ امید کا افق روش کر رہی ہے اور خطے کو امید دلا رہی ہے۔ امریکہ اور اس کی پوری لابی یہ کوشش کرے گی کہ یہ سمٹ ناکام ہو جائے اور مسلمان ممالک کے تعلقات اسی طرح تناو کا شکار رہیں اور اسرائیل کو اسی طرح من مانی کرنے اور مسلمانوں کو قتل عام کی کھلی چھوٹ ملی رہے۔ اب یہ ان ممالک کے سفارتکاروں کی نیتوں اور صلاحیتوں پر ہے کہ وہ کس طرح تنازعات کو ختم کرکے امن کو موقع دیتے ہیں۔ امن ہی میں تمام ممالک کا بھلا ہے۔ سچ پوچھیں تو بغداد کا یہ نیا چہرہ بہت اچھا لگا، اب بغداد سے اچھی خبریں بھی آرہی ہیں، خدا بغداد کو نظر بد سے بچائے۔
خبر کا کوڈ : 950873
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش