QR CodeQR Code

افغانستان۔۔۔۔ 31 اگست کے بعد کیا ہوگا؟

30 Aug 2021 20:52

اسلام ٹائمز: یہ جو آج پھر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت پڑ رہی ہے اور نئے مواقع مل رہے ہیں تو ان سے پوچھیے کہ گذشتہ مواقع میں آپکے نفع و زیاں کا حساب کیا رہا! ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے زمانوں میں خوب خوب مواقع ملے، دنیا کو ہماری ضرورت پڑی۔ ہم اپنے شہریوں کو ایک ایک ہزار ڈالر میں فروخت تک کرتے رہے تو کیا ہم امیر ہوگئے؟ کیا غیر ملکی قرضے اتر گئے؟ کیا عام آدمی آسودہ حال ہوا؟ یہ کیسے مواقع تھے کہ آج ہم بین الاقوامی مالی اداروں کے پہلے سے بھی زیادہ محتاج ہیں۔؟ کہاں ہیں وہ ڈالر جو عشروں تک آتے رہے۔؟ ہمای بیلنس شیٹ میں اسی ہزار شہادتوں اور لاکھوں زخمیوں کے سوا کیا ہے۔؟


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

افغانستان کے حوالے سے خبروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان دنیا کے لئے اتنا اہم ہوجائیگا، کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر رہا تھا۔ افغانستان کے بارے میں پل پل کی خبریں اس وقت عالمی میڈیا میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ افغانستان کیوں اتنی اہمیت اختیار کر گیا ہے، اس پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے کہ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں، تاہم ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ 31 اگست کے بعد افغانستان سے غیر ملکی اور بیرون ملک جانے والے افغان باشندوں کا انخلا کس طرح ممکن ہوگا۔ بعض ذرائع یہ خبریں دے رہے ہیں کہ طالبان نے اس سلسلہ میں کچھ لچک کا مظاہرہ کیا ہے، اسی طرح پاکستان کو بھی انخلاء کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ادھر افغانستان کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے۔ افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے دھماکوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور عوام میں پائی جانے والی تشویش کے بعد افغانستان کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔

اس سے قبل سلامتی کونسل کا اجلاس افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے ایک دن بعد یعنی 16 اگست کو ہوا تھا۔ فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں فرانس اور برطانیہ کی جانب سے کابل میں اقوام متحدہ کے تحت سیف زون بنانے کی قرارداد پیش کی جائے گی، تاکہ وہ افراد جو افغانستان سے نکلنا چاہیں، باآسانی باہر جاسکیں۔ طالبان نے سیف زون بنانے سے متعلق فرانس کے صدر کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے قطر میں اپنے ایک بیان میں سیف زون بنانے سے متعلق فرانس کے صدر میکرون کی تجویز کو غیر ضروری بتاتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے اور بہتر یہ ہے کہ سیف زون ان ممالک میں بنانے کی ضرورت ہے، جن ممالک نے یہ تجویز پیش کی۔ دوسری جانب طالبان نے کہا ہے کہ غیر ملکیوں اور سفری دستاویزات رکھنے والے افغانوں کو 31 اگست کے بعد بھی افغانستان سے جانے کی اجازت ہوگی اور طالبان اس حوالے سے ایک سو ممالک کو یقین دہانی کروا چکے ہیں، تاہم اس فہرست میں روس اور چین شامل نہیں ہیں۔

دوسری جانب افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کی مہلت ختم ہونے سے پہلے کابل ايئرپورٹ پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ افغان دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے پر مسلسل دوسرے روز راکٹ حملہ ہوا ہے اور امریکی فوج نے راکٹوں کو فضا میں ناکارہ بنانے کا دعویٰ ہے۔ گذشتہ روز امریکی ڈرون طیاروں نے کابل میں ایک مکان اور گاڑی کو نشانہ بنایا تھا، جس میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے نو افراد مارے گئے تھے۔ امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے داعش کے خودکش بمبار کی گاڑی کو نشانہ بنایا ہے۔ طالبان نے کابل میں امریکی ڈرون حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں اس طرح کا حملہ غیر قانونی ہے۔ طالبان نے امریکہ کو کابل کی صورتحال کا اصل ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انخلاء کی مہلت ختم ہونے کے بعد طالبان کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھال لیں گے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان  ہونے والے دوحہ معاہدے کے تحت تمام امریکی فوجیوں کو اکتیس اگست تک افغانستان سے نکل جانا ہوگا۔

ادھر ایک امریکی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا پلان اے ناکام ہوچکا ہے جبکہ پلان بی جانی نقصان پر منتج ہوا ہے اور اب بائيڈن انتظامیہ پلان سی بر عملدرآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مذکورہ عہدیدار کے مطابق پلان سی کے تحت امریکی شہریوں کو افغانستان سے باہر نکالا جائے گا، جبکہ امریکی فوجی بدستور باقی رہیں گئے۔ اسی دوران طالبان کے ترجمان نے کہا کہ امریکی فوجیوں کا انخلاء وقت مقررہ پر مکمل ہو جانا چاہیئے، بصورت دیگر افغانستان میں باقی رہنے والے امریکی فوجیوں سے دوسرا سلوک کیا جائے گا۔ افغانستان سے اب تک 15 دنوں میں ایک لاکھ 90 ہزار افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اب تک ایک لاکھ 14 ہزار افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے، نکالے گئے افراد میں سے 5 ہزار 4 سو امریکی شہری جبکہ باقی تمام افغان شہری ہیں۔ برطانیہ نے 15 ہزار افرد کو ملک سے باہر نکالا ہے، ایک سو سے ڈیڑھ سو کے قریب برطانوی شہری انخلا کے دوران پروازیں حاصل نہیں کرسکے۔ اٹلی نے 5 ہزار 11 افراد کو نکالا ہے، جرمنی نے 5 ہزار 347 افراد کا انخلا ممکن بنایا۔ آسٹریلیا نے 4 ہزار ایک سو افراد کو کابل سے نکالا۔

 افغانستان سے امریکی انخلاء کے تناظر میں یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ  پاکستان کے کئی بڑے شہروں کے ہوٹل گذشتہ ہفتے سے ملک کے شہریوں کے لیے بند ہیں۔ آئندہ تین ہفتوں تک کسی بُکنگ کی اجازت نہیں۔ پہلے سے موجود لوگوں کو بھی ہوٹلوں سے چلے جانے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ نے ہوٹلز خالی کرانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ انگریزی معاصر کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے تمام ہوٹلوں کا کنٹرول انتظامیہ نے سنبھال لیا ہے۔ جو غیر ملکی آئیں گے، وہ پاکستان میں مختصر قیام کے بعد اپنے اپنے ملک کو روانہ ہوں گے۔ اس تجزیئے کا اختتام  معروف پاکستانی کالم نگار محمد اظہار الحق کے کالم کے اقتباس سے کرتے ہیں۔ "اگر یہ ملک (پاکستان) ٹرانزٹ کے لیے استعمال ہونا بھی ہے تو یہ افراد یہاں مبینہ طور پر تین ہفتے کیوں ٹھہریں گے؟ کیا اگلی فلائٹ سے یہ اپنے ملک کو نہیں جا سکتے؟ کیا گارنٹی ہے کہ ان میں ہمیں نقصان پہنچانے والے لوگ شامل نہیں ہوں گے؟ آخر تین ہفتے یہاں رہنے کا کیا مقصد ہے۔؟

شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ ہمیں نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ہمارا بہت بڑا رول ہے! ہم توجہ کا مرکز بننے جا رہے ہیں۔ ایک نئے مواقع کی کھڑکی کھل رہی ہے۔ ہر ایسے موقع پر ہم نے یہی کہا اور پرائی آگ میں کُود گئے۔ افغانستان میں روسی آئے تو جنگ کی ذمہ داری ہم نے سنبھال لی۔ سرحد کی لکیر مٹا دی۔ دنیا بھر کے جنگجوئوں کو اپنے ملک کی سرزمین پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی۔ ملک کے طول و عرض میں اسلحہ اور منشیات کی منڈیاں کھل گئیں۔ راکٹ تک بکنے لگے۔ سرکاری ملازموں کی اولادیں صنعتکار بن گئیں۔ شخصی ایمپائرز کھڑی کر لی گئیں، مگر ملک اتنا ہی غریب رہا۔ یہ جو آج پھر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت پڑ رہی ہے اور نئے مواقع مل رہے ہیں تو ان سے پوچھیے کہ گذشتہ مواقع میں آپ کے نفع و زیاں کا حساب کیا رہا! ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے زمانوں میں خوب خوب مواقع ملے، دنیا کو ہماری ضرورت پڑی۔ ہم اپنے شہریوں کو ایک ایک ہزار ڈالر میں فروخت تک کرتے رہے تو کیا ہم امیر ہوگئے؟ کیا غیر ملکی قرضے اتر گئے؟ کیا عام آدمی آسودہ حال ہوا؟ یہ کیسے مواقع تھے کہ آج ہم بین الاقوامی مالی اداروں کے پہلے سے بھی زیادہ محتاج ہیں۔؟ کہاں ہیں وہ ڈالر جو عشروں تک آتے رہے۔؟ ہمای بیلنس شیٹ میں اسی ہزار شہادتوں اور لاکھوں زخمیوں کے سوا کیا ہے۔؟

ہم ہمیشہ بیگانی شادی میں دیوانہ وار ناچتے ہیں اور پھر عزت نفس کو تار تار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے؟ دنیا نے ہمارے آگے کب ہاتھ جوڑے تھے کہ جناب! کرم کیجیے اور قربانی دیجیے؟ دنیا کیوں تسلیم کرے؟ اگر کوئی قربانی ہم نے دی بھی ہے تو کیا دنیا سے داد لینے کے لیے دی ہے؟ کیا ہم نے ہر قربانی کا معاوضہ نہیں لیا؟ آج پھر ہم اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں! افغانستان کے پڑوس میں ہمارے علاوہ بھی تو ممالک آباد ہیں۔ ایران کو تو خیر کوئی یہ کہنے کی جسارت ہی نہیں کرسکتا کہ ہمارے لیے اپنے ملک کو راہ داری میں تبدیل کر دو، مگر تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے بارڈر بھی تو افغانستان کے ساتھ لگتے ہیں! کیا وہاں ہوٹل نہیں؟ کیا ان ہزاروں افراد کا انخلاء ان ملکوں کے ذریعے نہیں عمل میں لایا جا سکتا؟ صرف پاکستان ہی ہر بار کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس لیے کہ پاکستان اپنے آپ کو خود پیش کرتا ہے۔ پھر جب استعمال کرنے والے، استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں تو ہم آہ و زاری اور نالہ و فریاد کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیا گیا! کبھی ہم سسکیاں بھرتے ہیں کہ ہمیں ٹیلی فون نہیں کیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد پھر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم پھر کُود پڑتے ہیں۔ ہم عجیب مومن ہیں، جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ افغان ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کی خوشی اور غم میں شریک ہیں۔ ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔ وہاں کے عوام خوشحال ہوں۔ ترقی کریں۔ تعلیم اور صحت کی وہاں سہولیات ہوں۔ افغان بچوں کے ہاتھوں میں بندوق کیوں ہو؟ کتاب کیوں نہ ہو؟ لیپ ٹاپ کیوں نہ ہو؟ تہذیبی، لسانی، نسلی، ادبی اور ثقافتی لحاظ سے ہم افغانستان سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں، مگر ہر بار افغانستان کے نام پر ہم یہ امریکی پنجالی اپنی گردن پر کیوں رکھ لیتے ہیں؟ سرسبز و شاداب کھیت میں یہ سانپ ہم سے کیوں لپٹ جاتا ہے؟ افغانستان آتے جاتے ہوئے ہم امریکی کھائی میں کیوں گر جاتے ہیں؟ ہم امریکہ کے ایک ٹیلی فون پر یا تو ڈھیر ہو جاتے ہیں یا ایک ٹیلی فون کے لیے ترستے رہتے ہیں! کبھی انخلا کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو کبھی ادخال کے لیے! علامہ اقبال نے افغانوں کو نصیحت کی تھی:
اپنی خودی پہچان، او غافل افغان!
افغان تو علامہ کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارا کیا ہوگا؟ ہم اپنی خودی کب پہچانیں گے۔؟"


خبر کا کوڈ: 951242

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/951242/افغانستان-31-اگست-کے-بعد-کیا-ہوگا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org