0
Friday 3 Sep 2021 10:33

ایک یادگار تقریر

ایک یادگار تقریر
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی خفت مٹانے کے لیے اس انخلاء کو غیر معمولی کامیابی قرار دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن جو مرضی کہتے رہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ جس انداز سے افغانستان سے نکلا ہے، اس نے ویت نام سے امریکی افواج کے فرار کی یاد تازہ کر دی ہے۔ امریکی حکام بے شک کہتے رہیں کہ انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اور اپنی مرضی سے انخلا کیا ہے، لیکن دنیا اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ انخلاء سے چند دن پہلے امریکی سی آئی اے کے سربراہ جس انداز سے طالبان لیڈروں سے انخلاء کی مدت میں توسیع کی بھیک مانگتے رہے تھے، اسے امریکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس انخلاء پر امریکہ کے اندر سے بالخصوص سینیئر بیوروکریٹ اور سابق جرنیلوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ امریکی صدر اور امریکی وزیر جنگ سے استعفیٰ کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

امریکہ کی ناکامی کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ امریکہ جن نعروں اور دعووں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تھا، وہ سب کے سب ان بیس سالوں میں ہوا میں اڑ گئے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے انخلاء کے بعد اپنی تقریر میں جہاں یہ بتایا ہے کہ ہم نے افغانستان میں بیس سال تک تیس کروڑ ڈالر روزانہ خرچ کیے ہیں اور 2400 سے زائد امریکی فوجی اس جنگ میں کام آئے۔ وہاں اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اب امریکہ کو اپنی حکمت عملی بدلنا ہوگی اور ہمیں اب انسداد دہشت گردی کے لیے زمین پر فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ 2001ء میں افغانستان میں آیا اور اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں حکومت کی تشکیل کا کام انجام دے گا۔ حکومت سازی بالخصوص ملت سازی یا ملت کی تشکیل سے امریکہ کی کیا مراد ہے۔ امریکی صدر نے اپنی حالیہ تقریر میں اس بات کی تکرار کی ہے کہ ہم افغانستان میں حکومت اور ملت کی تشکیل چاہتے تھے۔ ملت کیا ہوتی ہے اور ملت کی تشکیل کس طرح انجام پاتی ہے، یہ ایک طویل بحث ہے، لیکن امریکہ کی اس بات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں ملت کی تشکیل کی ضرورت تھی، کیونکہ افغان باشندے ایک "ملت" نہیں ہیں۔

ملت کی تعریف سمجھنے والے امریکہ کے صدر کے اس دعوے کو ملت افغانستان کی توہین قرار دیتے ہیں، کیونکہ ملت اور قوم کی مشترکہ تشریح یہ ہے کہ جو افراد ایک سرزمین اور ایک وطن کے مالک ہیں، نیز ان کے سماجی تعلقات میں ہم آہنگی و مشابہت پائی جاتی ہو، اس طرح وہ ایک مشترکہ اقتصادی نظام، مشترکہ کرنسی، مشترکہ ثقافت اور مشترکہ اور مساوی سماجی و شہری حقوق کے حامل ہوں، انہیں ایک ملت اور قوم کہا جا سکتا ہے۔ افغان بھی ایک قوم ہیں، کیونکہ ان کی اپنی مخصوص سرزمین اور وطن ہے۔ ان کا اپنا مخصوص اقتصادی نظام اور ایک مشترکہ کرنسی ہے۔ ان کا اپنا مخصوس جھنڈا ہے اور ان کی ثقافت ایک ہے۔ اففان معاشرے کی بہت سی اقدار، روایات، رسم و رواج اور مذہبی و قومی مشترکات ہیں اور افغان قوم کی واضح اکثریت ان صفات کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اس پر فخر بھی کرتی ہے۔ لہذا امریکہ کی طرف سے یہ کہنا کہ وہ افغانستان میں "ملت سازی" یعنی ملت کی تشکیل اور افغان باشندوں کی ایک قوم میں تبدیل کرنے آئے ہیں، ایک جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں۔ افغان گذشتہ ایک سو سال سے آزاد و خود مختار ہیں، ان کی کرنسی، پرچم، سرحدیں، آداب و رسوم، مذہبی عبادات اور اسلام پر کاربند ہونا، وہ مشترکہ خصوصیات ہیں، جو کسی بھی قوم کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے اپنی الیکشن مہم میں بھی افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں ایک قوم بننے کی خصوصیات نہیں ہیں، حقیقت میں افغان قوم کی توہیں کی تھی، اب جبکہ انہیں نہایت بے آبرو ہو کر افغانستان سے انخلاء کرنا پڑا ہے تو اب بھی وہ اس طرح کی نعرے بازی سے رائے عامہ کو منحرف کرنے کے درپے ہیں۔ ایک اور موضوع جس کا امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں حکومت کی تشکیل کے عمل کو یقینی بنائیں گے۔ اس سے مراد افغانستان میں مغربی ماڈل کی حکومت کی تشکیل تھی، جو جمہوری ہونے کے ساتھ عالمی معیارات پر پورا اتر سکے۔ حکومت سازی یا حکومت کی تشکیل میں بھی امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ امریکہ کی مداخلت سے پہلے افغانستان میں ایک باقاعدہ حکومتی ڈھانچہ موجود تھا اور مختلف ادوار میں بادشاہی اور جمہوری حکومتیں برسراقتدار رہ چکی تھیں۔

امریکہ نے مغربی دنیا کو فریب دینے کے لیے یہ دعوے کیے تھے، لیکن عملی میدان میں انھوں نے نہ صرف افغان قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی بلکہ حکومت کی تشکیل کے لیے جو راستہ اور طریقہ اپنایا، اس سے صورتحال بد سے بدتر ہوگئی۔ امریکی مداخلت کے بعد افغانستان میں جو حکومتیں تشکیل دی گئیں اور امریکی افواج کی چھتری میں جو جمہوری نظام رائج کرنے کی کوشش کی، اس کی تفصیلات جان کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں بھی امریکہ نے افغان قوم کے ساتھ فریب اور دھوکہ سے کام لیا۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی میں واشنگٹن کے اشارے پر جو لبرل ڈیموکریسی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، اس میں افغانستان کی محدود مغرب نواز اقلیت ہی شریک رہی، افغان عوام کی اکثریت اس کا حصہ نہ بن سکی۔ امریکی چھتری کے نیچے جو انتخابات منعقد کیے گئے اور جس طرح کے غیر منتخب اور امریکہ نواز افراد اقتدار میں آئے، ان کو افغان عوام کی اکثریت کی کبھی تائید حاصل نہیں رہی۔

امریکہ کی طرف سے زمان و مکان اور افغان معاشرے و کلچر کو نظر انداز کرکے جو جمہوری نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے گذشتہ بیس برسوں میں کوئی مقتدر اور مقبول حکومت سامنے نہ آسکی۔ افغانستان میں اگر مضبوط، مقبول اور مقتدر حکومت ہوتی تو اشرف غنی طالبان کے سامنے اتنی جلدی شکست تسلیم کرکے ملک سے فرار نہ کر جاتے۔ اشرف غنی کے ساتھ اقتدار میں شریک دوسرے افراد بھی افغان قوم کی ثقافت اور افغان عوام کے احساسات و جذبات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے، وہ مغرب کے اشارے پر اقتدار میں آتے تھے، انہیں افغان عوام کی بجائے مغربی طاقتوں اور اپنے آقائوں کی خوشنودی عزیز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی افغان عوام میں جڑین نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ان کا مرکز و محور امریکہ اور مغرب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان کے معمولی دبائو کے سامنے بھی نہ ٹھہر سکے اور افغانستان سے فرار ہو کر افغان حکومت کو پلیٹ مین رکھ کر طالبان جنگجوئوں کو پیش کر دیا۔ جس حکومت کی تشکیل کا نعرہ اور دعویٰ کرکے امریکہ نے افغانستان میں قدم رکھے تھے، وہ حکومت ریت کی دیوار کی ثابت ہوئی۔

امریکہ اگر اففانستان میں افغان عوام کی اکثریت کو مدنطر رکھ کر ایک حقیقی جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالتا تو اسے آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ امریکہ تو افغان عوام میں جمہوریت کے فروغ کی بجائے جمہوریت کے راستے میں رکاوٹ بنا رہا۔ افغان عوام نے گذشتہ بیس برسوں میں چند بار تمام تر دھمکیوں کے باوجود محدود پیمانے پر انتخابات میں شرکت کی، لیکن امریکہ نے اس عوام کے لیے بھی کوئی خاطر خواہ کام انجام نہیں دیا۔ طالبان کی جان کی دھمکیوں کے باوجود بعض افغان باشندوں نے انتخابات میں شرکت کی، یہاں تک کہ طالبان نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو بھی ووٹ ڈالے گا اور اس کی جس انگلی پر ووٹ کاسٹ کرنے کا نشان ہوگا، اسے کاٹ دیا جائے گا۔ ایک طرف سے طالبان جمہوریت کے راستے میں رکاوٹ تھے تو دوسری طرف افغانستان مین موجود امریکی حکومت جمہوری آزادی کی روشنی میں اقتدار میں آنے والے افراد کی بجائے اپنے ٹائوٹوں اور جاسوسوں کو اقتدار میں لاتی رہی، جس کا نتیجہ اشرف غنی کے فرار اور طالبان کے ہاتھوں کابل کے سقوط کی صورت میں منتج ہوا۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان بیس برسوں میں افغانستان میں کیا گل کھلائے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید واضح ہوں گے۔ سرسری جائزے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کو ہر شعبے میں کمزور رکھا گیا۔ امریکہ صدر جو بائیڈن اپنی تقریر میں صرف امریکی فوجی انخلاء کو غیر معمولی قرار دے سکے ہیں۔ ان کی شکست خوردہ تقریر میں اس بات کا کہیں شائبہ تک نہیں ملتا کہ وہ جن اہداف کے لیے افغانستان میں داخل ہوئے تھے، انہوں نے وہ پورے کر لیے ہیں۔ ان کی تقریر میں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف اس بات پر خوش نظر آرہے تھے کہ وہ اپنے فوجیوں کی جانیں بچانے میں کامیاب رہے۔ جو بائیڈن نے اپنی تقریر کے ایک حصہ میں واضح طور پر اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔ ایسے اہداف بنائیں، جنہیں حاصل کیا جا سکے۔ افغانستان مین تیسری دہائی بھی گزارنا امریکی مفاد میں نہِیں تھا۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ افغانستان میں ہزاروں امریکی فوجیوں کو تعینات کرکے امریکہ کی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکی صدر کی اس تاریخی اور شکست خوردہ تقریر نے امریکی اتحادیوں کو سخت مایوس کیا ہے اور اس کے اثرات بہت جلد خطے کی سیاست پر بھی پڑِیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عراق سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد جو بائیڈن کس طرح کی تقریر کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 951909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش