0
Friday 3 Sep 2021 09:10

اس سے پہلے کہ کربلا برپا ہو جائے!!!

اس سے پہلے کہ کربلا برپا ہو جائے!!!
تحریر: سویرا بتول

مدافعین حرم یعنی وہ مٹھی بھر عاشقان خدا و اہل بیت جنہوں نے آج کی کربلا میں "کلنا عباسک یا زینب" کا نعرہ بلند کیا اور حرم آل رسول کا دفاع کیا۔ مدافعین حرم یعنی غیرت مند جوان جنہوں نے تحریک زینبی کی اپنے خون سے آبیاری کی اور دشمن کو پیغام دیا کہ اگر کوئی یزیدی، حرمِ سیدہ زینب سلام علیہا کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ جب تک تحریک زینبی ہے، اس وقت تک حسینیت کا نام باقی ہے، انسانیت باقی ہے، یہ وہ مٹھی بھر عشاق تھے، جو اپنے ہدف اور وظیفہ سے بخوبی آگاہ تھے۔ شہادت کے متمنی اور اپنی جانوں کو حرم رسول کی حفاظت کے لیے قربان کر دینے والے، پاک طینت جوان۔ ہم جب آج تکرار کے ساتھ فلسفہ شہادت اور مدافعین حرم کا تذکرہ کرتے ہیں تو بعض احباب ناراضگی کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ بھلا آج کے دور میں شہادت اور شہدائے زینبیون کا ذکر تکرار کے ساتھ کیوں جا رہا ہے؟ بھلا اب کونسی کربلا برپا ہے۔؟

یہ وہی روشن فکر لوگ ہیں، جن کے مطابق کربلا بس سن اکسٹھ ہجری کا ایک سانحہ تھا، ایسا معرکہ جس میں حسین ابن علی علیہ السلام مع دوست و رفقاء شہید کر دیئے جاتے ہیں اور اب بس ہمیں اپنی ساری زندگی امام عالی مقام کی مظلومیت پر روتے ہوئے گزارنی ہے۔ ان کی نظر میں امام ایک مظلوم اور لاچار شخصیت ہیں، جنہیں بغیر آب و غذا کے جنگل بیابان میں اعوان و انصار کے ساتھ شہید کر دیا جاتا ہے اور اب ہمارا وظیفہ ساری زندگی حسین علیہ السلام پر آنسو بہانا، سبیل لگانا، لنگر و نیاز کا اہتمام کرنا اور پھر اگلے برس محرم کا انتظار کرنا، تاکہ یہی امور تکرار کے ساتھ انجام دیں سکیں۔ امام عالی مقام علیہ السلام کے درس حریت، درس شہادت اور درس رضائے الٰہی کو سراسر فراموش کر دیں، کیونکہ کربلا آپ کو صرف گریہ زاری اور آہ و بکاہ کے لیے سنائی گئی تھی۔

وقت عصر امام کی صدائے "ھل من الناصر ینصرنا" کسی اور قوم کو جھنجھوڑنے کے لیے تھی، نہ کہ قیامت تک کے حریت پسند انسان کے لیے اور صدائے خیمہ زینبی سے معصوم بچوں کی العطش کی صدا فقط اس دور کے لیے تھی، بس اب آپ کا وظیفہ چند آنسو اور نیاز کھانے اور کھلانے تک ہے۔ کل شب جب شہدائے زینبیون کے شہید شاہد حسین کی والدہ کے انتقال کی خبر سنی تو کئی دقیقے جہاں شہدائے زینبیون کی مظلومیت پر سوچتے گزرے، وہی اپنی بے حسی اور نام نہاد مصلحت پر بھی خون کے آنسو رونا آیا۔ خیمہ زینبی کے یہ نگہبان، یہ درس دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ خود کو عاشق کہہ لینا بہت آسان ہے اور عاشق بن کر دکھانا بہت مشکل ہے۔ شہادت آسانی سے اور اتفاق سے نہیں ملتی بلکہ یہ مانند رزق ہے، جو کمایا جاتا ہے۔ شہادت سے پہلے خود کو شہید کرنا پڑتا ہے، یعنی نفسانی خواہشات سے کنارہ کشی، دنیاوی لذتوں سے دوری، تاکہ خود کو دنیاوی بو سے دور کیا جائے اور کردار میں شہادت کی بو پیدا ہو۔ "شہداء سونگھتے ہیں، اگر تم سے دنیا کی بو آتی ہیں تو تمہیں چھوڑ جاتے ہیں۔"

شہید زاہد حسین کی ماں (وہ ماں جو کربلائی ماں تھی) نے اپنے بیٹے کی ایسی تربیت کی کہ وہ نگہبان خیمہ زینبی بن گئے، اس کربلائی ماں نے بیٹے کو عاشق بنا دیا اور اس عاشق کو جناب سیدہ نے چن لیا اور زاہد پھر زاہد نہیں رہے بلکہ شہید زاہد حسین مدافع حرم زینب سلام اللہ علیہا بن گئے. ایسی ماوں کی عظمتوں کو ہمارا سلام جنہوں نے راہ حق پر اپنے لخت جگر قربان کر دیئے اور خود ان کے فراق میں صبر کرتی رہیں اور پھر خدا نے اس فراق کو ختم کر دیا، ماں بیٹے سے ملنے چلی گئی۔۔۔۔!! ایسی ہزاروں مائیں ہیں، جنہوں نے اپنے لال سیدہ کے حرم کی حفاظت کے لیے بھیجے۔ ایک طویل فہرست جن کے نام ہمارے پاس موجود ہیں، مگر ایسے ہزاروں پاک طینت عاشقان خدا ہیں، جن کے مرقد صرف جناب سیدہ جانتی ہیں اور انہوں نے گمنامی کی سند شب کی تاریکی میں سیدہ سے توسل کرکے حاصل کی ہے۔

خیمہ زینبی کے یہ شہداء ولایت کے محافظ ہیں۔ ہر عاشق اہل بیت ان کا مقروض ہے اور ہر محفل میں ان کا تذکرہ کرنا واجب ہے۔ مقامات مقدسات کی حفاظت ہمارا شرعی وظیفہ ہے اور ہمیں کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہ پاک طینت جوان ہر یزیدی کو یہ پیغام دیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہم اپنے مقدسات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں اور کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ حرم سیدہ کو میلی آنکھ سے دیکھے، ابھی ان کے عباس زندہ ہیں۔ مکتب اہل بیت کو یہ افتخار حاصل ہے کہ اس ملت کے پاس مولا حسین علیہ السلام اور جناب سیدہ کے غلام زندہ ہیں، جو وقت کے ہر اک یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں: ذلت ہم سے دور ہے۔
ہم میں حیدر کی طاقت ہے
ہم میں شبر کی طاقت ہے
ہم میں اکبر کی طاقت ہے
ہم میں اصغر کی طاقت ہے
مت ہم کو ڈراؤ طاقت سے
مرنا جینا ہے عزت سے 
ھیھات من الذلۃ
خبر کا کوڈ : 951926
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش