0
Sunday 5 Sep 2021 23:27

مرثیہ شہداء سے جُڑا ہے ہمیشہ زندہ رہے گا

مرثیہ شہداء سے جُڑا ہے ہمیشہ زندہ رہے گا
لاہور سے توقیر کھرل کی خصوصی رپورٹ

ابتداء میں مرثیہ نگاری ادبی صنف نہ تھی، اس لئے بگڑے شاعر کو "مرثیہ گو" کہا جاتا تھا۔ اب یہ مقبول صنف ہی نہیں بلکہ ادب کا قیمتی سرمایہ بن چکا ہے۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ سماجی مسائل کے باعث دیگر ادبی صنفوں کے ساتھ مرثیہ نگاری کی ترویج پر گہرا اثر ہوا ہے۔ مرثیہ کی اہمیت کو زندہ رکھنے کیلئے جو کام ادب سے جڑے لوگوں کا تھا، وہ کام سماجی تنظیم آئیڈیاز نائن کے نوجوانوں نے کر دکھایا۔ ان خیالات کا اظہار ادبی نشست میں نظامت کے فرائض سرانجام دینے والے معروف شاعر عدنان محسن نے کیا۔ سماجی تنظیم خیال نو کے زیراہتمام لاہور میں مرثیہ نگاری کی ترویج کیلئے ادبی نشست بعنوان تہذیب ِحُزن کا انعقاد ہوا۔ نشست میں مرثیے میں متنوع جہات کے موضوع پر مقررین نے خطاب کیا۔

نشست کی صدارت مجلس ترقی ادب کے سربراہ منصور آفاق نے کی جبکہ معروف شاعر اختر عثمان، ڈاکٹر ہلال نقوی، ڈاکٹر مصباح رضوی، محترمہ رخشدہ بتول، سید باقر علی شاہ، عدنان محسن اور محمد علی ظاہر نے مرثیہ نگاری کی اہمیت کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ محمدی مسجد گلبرگ میں منعقدہ اپنی نوعیت کی منفرد ادبی نشست میں شعراء حضرات، پروفیسرز، ادباء اور طلبہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ نشست کی ابتدائی گفتگو میں محمد علی ظاہر نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرثیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پہلا مرثیہ سیدہ زینبؑ سے منسوب ہے، جو انہوں نے امام حسینؑ کی شہادت کے بعد پڑھا تھا۔ اس کے بعد تمام آئمہ کرام نے مرثیہ گو شاعروں سے نہ صرف مرثیہ سنے بلکہ مرثیہ کی خوبصورت ادائیگی کی تعریف بھی کرتے تھے۔ اگر اردو مرثیہ کی ترویج کی بات کی جائے تو دلی نے مرثیہ کو ادبی رنگ دیا جبکہ مرثیہ کا تیسرا بڑا پڑاؤ لکھنو قرار پایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرثیہ شہداء سے جڑا ہے، اس لئے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

جی سی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر مصباح رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ مرثیہ کو خاص حکومتوں میں ترویج ملی تو یہ تاثر بالکل غلط ہے، مرثیہ کو حکومتوں نے تقویت دی ہوتی تو حکومتوں کے خاتمہ کے ساتھ مرثیہ بھی ختم ہو جاتا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ مرثیہ کو شیعت سے جوڑ کر اس ادبی صنف کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مرثیہ انسانیت کی میراث ہے، اس کو شیعہ، سنی، سکھ اور ہندو شاعر حضرات نے بھی بیان کیا، اس کو کسی خاص مسلک سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے کنیڈا سے براہِ راست خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرثیہ کو بیان کرتے ہوئے ہمیں اسے آسان پیرائے میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیادی گھتیاں سلجھنی چاہیئے، اس کو غیر شرعی کہہ کر اس ادبی صنف سے دور نہیں کرنا چاہیئے۔

ڈاکٹر ہلال نقوی نے عظیم مرثیہ نگار میر انیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انیس نے اسے انسانی رشتوں کی شاعری بنا دیا۔ مرثیہ میں ایسے کردار و واقعات کو شامل کیا گیا، جو محسوساتِ انسانی کو زیادہ متاثر کرتے تھے، جیسا کہ بہن کا بھائی کی محبت میں قربان ہونا، کمسن جوانوں کا حق کے لئے جہاد کرنا، اکبر جیسے جوان کا باپ کے سامنے برچھی کا پھل کھانا، دودھ پیتے بچوں کے گلے پر تیر کا لگنا، ایسے واقعات کو شامل کیا گیا، جن سے نفسیاتی اور انسانی پہلو زیادہ نمایاں ہوئے۔ اس لئے مرثیہ خوانی میں ہر مذہب و ملت کے افراد کو روحانی اور اخلاقی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ انیس نے ادبی دنیا میں مرثیہ کو بلندی دی، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

معروف شاعر اختر عثمان نے مرثیہ کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرثیہ نے  اصناف سخن کو جنم دیا، مرثیہ کی اصطلاح صرف خانوادہِ رسول سے منسوب ہوچکی ہے۔ مرثیہ کا رزمیہ شاعری سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ سماجی یا خونی رشتوں کے تقدس کا درس ہمیں کربلا سے ملتا ہے۔ صدرِ محفل، مجلس ترقی ادب کے سربراہ منصور آفاق نے صدارتی خطبہ میں مرثیہ پیش کیا۔ نشست میں لاہور کی عزائی تہذیب کی پہچان جعفری برادران نے روایتی انداز میں بھی مرثیہ پیش کیا۔ شاعر عدنان محسن نے اختتامی کلمات میں سماجی تنظیم کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ واقعہ کربلا سے منسوب شاعری ہمارے ادب کا بیش قیمت اثاثہ ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ اس نادر و نایاب رثائی اثاثے کو  سنبھال کر رکھیں گے۔ نشست کے اختتام پر مہمان گرامی میں اعزازی شیلڈز اور پودے تقسیم کئے گئے۔
خبر کا کوڈ : 952321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش