1
Wednesday 8 Sep 2021 15:25

کتابوں سے عشق کی یہ آخری صدی ہے!!!

کتابوں سے عشق کی یہ آخری صدی ہے!!!
تحریر: سویرا بتول

اگر آپ کو کتابیں تحفے میں دینے والے دوست موجود ہیں تو سمجھیے کہ آپ اس دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں۔ آج کے اس ڈیجیٹل دور نے انسان کو کتاب دوستی سے دور کر دیا ہے۔ پہلے وقتوں میں جتنا وقت کسی اچھی معیاری کتاب کے مطالعہ کرنے، لاٸبریری جا کر اسے تلاش کرنے اور پھر اُس پر گھنٹوں تبصرہ کرنے پر لگتا تھا، اب یہ سب ایک خواب لگتا ہے۔ کالج کے زمانے میں دیوانِ غالب کی ورق گردانی، میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیے اور لکھنو کی تاریخ پر لکھی پرانی کتب کی تلاش، اردو زبان کی ترویج پر لکھی گٸی تصانیف، کتاب کے انتخاب میں سوچ و بچار اور مطالعے کے بعد گھنٹوں سہیلیوں کے ساتھ کتاب پر تبصرہ کرنا، اب پرانے وقتوں کی باتیں لگتی ہیں۔

شب کا سناٹا جب ہر سوں پھیلتا اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی تو مرحومہ والدہ کسی اچھی معیاری کتاب کے مطالعہ کرنے کی طرف رہنمائی کرتیں اور ہم بھی نانا جان کی لاٸبریری میں دبے قدموں ایسے داخل ہوتے جیسے یہ ہماری آبائی جاگیر ہے اور یہاں موجود کتب ہمارا خاندانی اثاثہ۔ شب کے نصف پہر، لاٸبریری میں اسٹول پر چڑھ کر کسی پرانے کتابی نسخہ کو تلاش کرنا، اپنی مطلوبہ گمشدہ کتاب کے مل جانے پر خوشی سے چیخ مارنا اور رات دیر تک سر دیٸے کتاب کا مطالعہ کرنا، یہاں تک کہ فجر کی اذانیں بلند نہ ہو جاٸیں، ہمارے بہترین مشاغل میں سے ایک ہے۔ اب وقت بدلہ، ہم ماڈرناٸز ہوٸے، سوشل میڈیا کا دور چلا اور وقت کی ضرورت کے ماتحت کتب بھی ای بکس بن گٸیں۔ اب بآسانی کتابوں کی پی ڈی ایف فاٸل بنا کر موبائل میں محفوظ کر لی جاتی ہے، مگر اب وہ کتاب کی مہک، کاغذ کا لمس اور ہاتھ میں پکڑ کر دیر تک کتاب کو محسوس کرنا ممکن نہیں رہا اور کتاب پڑھنے کے بعد دیر تک دوستوں کے ساتھ سیر حاصل تبصرہ کرنا آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں مشکل نہیں تو ناممکن ضرور لگتا ہے۔

کتابوں سے عشق کی بنإ پر ہم نے ایک شخصیت سے غلطی سے پوچھ لیا کہ آج کل کونسی کتاب زیر مطالعہ ہے؟ پہلے تو ہمیں خشمگیں نگاہوں سے دیکھا گیا، گویا ہم نے دونوں گردے مانگ لیے ہوں، پھر لمبا سانس کھینچا گیا، ایک متاسفانہ نگاہ ہم پر ڈالی گٸی، جیسے ہم کوٸی مجرم ہوں، پھر موصوف یوں گویا ہوٸے کہ اجی دیکھیے! آج کے دور میں کتابیں کون پڑھتا ہے؟ اور آپ لوگ جو خود کو اہل قلم کہتے نہیں تھکتے، ہر وقت کتابوں میں سر دیٸے لا ابالی بچوں کی طرح منہ بنا کر پھرتے، کچھ تلاش کرتے، لکھتے اور پڑھتے پاٸے جاتے ہیں، آپ لوگوں نے کونسے خزانے نکال لیے ہیں؟ یعنی یک نہ شد دو شد۔ جواباً سر جھکانے اور دل ہی دل میں کتاب دوستی سے دوری کا اظہار کرتے ہوٸے ہم نو دو گیارہ ہوگٸے۔

درس و تدریس کے شعبے سے کافی عرصہ منسلک رہنے کی بنا پر اکثر ماٸیں یہ شکوہ کرتیں ہیں کہ ہمارے بچے تہذیب یافتہ نہیں، آپ انہیں اپنی طرح بول چال اور ادب سکھا دیں۔ میں جوباً سر جھکا کر کہتی ہوں، آپ اپنے بچے کو درست معنی میں اردو بولنا سکھا دیجیے، وہ ادب و آداب اور لحاظ کرنا خود سیکھ لے گا۔ اردو زبان کی بات کی جاٸے تو اب اُس کو لکھنے اور پڑھنے والے کافی کم ہوچکے ہیں۔ انگریزی مصنفین کی کتب کافی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں، مگر اردو ادب کو زمانہ قدیم کی طرح فراموش کیا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے کسی انسان کی شخصيت کا اندازہ لگانا ہے تو دیکھیے کہ وہ کس طرح کی کتب کا انتخاب کرتا ہے۔ اچھی معیاری کتب کا انتخاب انسان کی نفیس شخصيت کی عکاسی کرتا ہے۔ اب کتابوں کا ذخیرہ صرف گھر آٸے مہمانوں کو متاثر کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ موٹی موٹی کتب سے بھری الماریاں میزبان کے ادبی ذوق رکھنے کی نشاندہی کرتیں ہیں۔ اگر مہمان خود بھی ادبی ذوق کا حامل ہو تو صورتحال خاصی پچیدہ ہو جاتی ہے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ آپ کی لاٸبریری سے کتاب اٹھا لی جاٸے اور مڑ کر وہ کبھی واپس نہ آٸے۔ ویسے جتنی کتابیں اس قوم میں ہم نے بانٹی ہیں، اب سوچتے ہیں کہ اُس سے ایک وسیع پبلک لاٸبریری کا قیام عمل میں لایا جاسکتا تھا۔

آج افسوس ہوتا ہے کہ باب العلم کے ماننے والے علم کی جستجو نہیں رکھتے، اچھی کتابوں کی تلاش میں خاک نہیں چھانتے، صاحبان علم و دانش کی نشست سے استفادہ نہیں کرتے۔ ہم خود سے سوال پوچھیں کہ وہ علی جو آسمان کے راستوں کو زمین کے راستوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، ہم اُن کی ولا کے دعویدار کتنے علم کے طالب ہیں؟ کتنی پبلک لاٸبریریز اپنے مولا و آقا کے عشق میں قاٸم کیں؟ کتنے بچوں کو علم کے سمندر سے سیراب کیا؟ آج کا انسان علم کا متلاشی ہے اور یہ تشنگی علم کی بدولت ہی پر کی جاسکتی ہے، ہم نے علی علیہ السلام کے نام پر کتنے تعلیمی انسٹيٹيوٹ قاٸم کیے؟ کتنی معیاری کتب کو عام کیا؟ زبانی ولا کے دعوے کیا ہمیں نگاہ امیر المومنین میں سرخرو کریں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 952829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش