QR CodeQR Code

افغانستان سے غیر ذمہ دارانہ انخلاء کا نتیجہ

10 Sep 2021 18:42

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ امریکی اور دیگر مغربی ممالک جب افغانستان میں داخل ہوئے تو اس ملک کے عوام کیلئے مشکلات ساتھ لائے اور جب اس ملک سے انخلا کیا تو المیہ چھوڑ کر گئے۔ انھوں نے کہا کہ ایران، افغانستان کیلئے اپنے ملک کی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، ریلوے لائنوں اور سرحدی گذرگاہوں کے ذریعے انسان دوستانہ امداد منتقل کرنے میں سہولیات فراہم کرنے کیلئے آمادہ ہے۔ مجید تخت روانچی نے کہا کہ عالمی برادری سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے گی اور اس پر عمل کریگی اور پناہ گزینوں کیلئے امداد کی فراہمی کیلئے مزید اقدامات عمل میں لائے گی۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے افغانستان کے چھے پڑوسی ملکوں کے آن لائن اجلاس میں ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے حصہ لیا۔ جمعرات کی شب جاری ہونے والے مشترکہ بیان کے مطابق پاکستان کی میزبانی میں آن لائن اجلاس کے اختتامی بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں شریک ملکوں کے وزرائے خارجہ نے مثبت اور تعمیری ماحول میں بات چیت کی اور اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اس ملک کے عوام کو کرنا ہوگا، کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ بیان میں زور دیا گیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ اس بحران کو فوجی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ بیان میں افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جس میں تمام اقوام کو نمائندگی حاصل ہو۔ افغانستان کے چھے پڑوسی ملکوں کے اجلاس کے اختتامی بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سماجی اور اقتصادی ترقی کے میدان میں افغانستان کی حمایت کریں نیز اس ملک کے عوام کے لیے انسان دوستانہ امداد کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ بیان میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور تعمیر نو کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور مشکل کی اس گھڑی میں افغانستان کے عوام کو تنہا نہ چھوڑیں۔

 اس سے پہلے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جمعرات کے روز افغانستان کے چھے پڑوسی ملکوں کے ورچوئل اجلاس میں کہا ہے کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل سے متعلق ایران کی کوشش جاری ہے اور امید کی جاتی ہے کہ طالبان بھی اس سلسلے میں اپنے وعدے پر عمل کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کے علاوہ کو‏ئی دوسرا راستہ اختیار کئے جانے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا اور کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی بیس سالہ موجودگی کے نتیجے میں اس ملک میں ہونے والی تباہی و بربادی کا جواب دینا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا اور جنگ سے افغان عوام بالکل تنگ آچکے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران تقریباً چالیس لاکھ افغان شہریوں کا میزبان بنا ہوا ہے اور سخت ترین و ظالمانہ پابندیوں کے باوجود تہران نے ان چالیس لاکھ افغان شہریوں کے ویکسینیشن کے عمل کو اولویت میں رکھا ہے اور یہ کہ ایران، افغان عوام کی کسی بھی حمایت سے دریغ نہیں کرے گا۔

اسی دوران اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ افغانستان اس وقت ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کی یہ صورت حال افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی براہ راست مداخلت اور پھر افغانستان سے غیر ذمہ دارانہ انخلا کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ امریکی اور دیگر مغربی ممالک جب افغانستان میں داخل ہوئے تو اس ملک کے عوام کے لئے مشکلات ساتھ لائے اور جب اس ملک سے انخلا کیا تو المیہ چھوڑ کر گئے۔ انھوں نے کہا کہ ایران، افغانستان کے لئے اپنے ملک کی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، ریلوے لائنوں اور سرحدی گذرگاہوں کے ذریعے انسان دوستانہ امداد منتقل کرنے میں سہولیات فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ مجید تخت روانچی نے کہا کہ عالمی برادری سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے گی اور اس پر عمل کرے گی اور پناہ گزینوں کے لئے امداد کی فراہمی کے لئے مزید اقدامات عمل میں لائے گی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے چھے ہمسایہ ملکوں کے اجلاس میں حاصل ہونے والا اتفاق رائے، خاص طور سے ایک آزاد اور وسیع البنیاد سیاسی نظام کے قیام کا مطالبہ، اتنہائی اہم ہے، جو افغانستان کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ افغانستان کے چھے ہمسایہ ملکوں کے مشترکہ بیان میں دو باتیں قابل غور ہیں، جن میں کچھ مطالبات اور توقعات ہیں، جو طالبان کو پورا کرنا چاہیئے اور ان میں سب سے پہلے افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا ہے اور دوسرے اس ملک میں پائیدار امن کے قیام کا معاملہ ہے۔ بنا برایں طالبان اور پاکستان کی جانب سے افغان عوام کے حقوق کو یقینی بنائے جانے کی سمت آگے بڑھنا، خاص طور افغان عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ایک آزاد اور خودمختار حکومت کے قیام کو عملی شکل دینا، بحران افغانستان کے حل کا راستہ ہموار کرسکتا ہے اور اس حوالے سے اہم اور بنیادی قدم شمار ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ایسے اجلاسوں کے انعقاد اور مشترکہ بیانات سے افغانستان میں حالیہ بحران ختم ہوتا ممکن نہیں دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی افغانستان کے امور میں پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی مداخلت کی کوئی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے۔

اگر آج افغانستان میں بعض ممالک کے خلاف افغان عوام احتجاج کر رہے ہیں تو یہ ان کا  قانونی و قومی حق ہے۔ اسی طرح افغانستان کا اربوں ڈالر کا سرمایہ روکنے سے اس ملک کی معیشت مزید خراب ہوگی اور نتیجے میں اس ملک میں اقتصادی مسائل و مشکلات شدید تر ہوں گی اور افغان پناہ گزینوں کی تعداد نیز ان کی غربت و افلاس میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ بیرون ملک افغانستان کے سرمائے و اثاثے منجمد کرنا ایک منفی اقدام ہے۔ افغانستان کی رقم افغانستان پر ہی صرف ہونی چاہیئے، اسے طالبان پر دباؤ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔ افغانستان کی دولت و ثروت کو افغان عوام کے مفاد میں ہی میں کام میں لائے جانے کی ضرورت ہے اور افغانستان کے اثاثے منجمد کئے جانے کی مخالفت ہر سطح پر ہونی چاہیئے۔ واضح رہے افغانستان کا دس ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ بیرون ملک روک لیا گیا ہے اور امریکی وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ طالبان کے خلاف پابندیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا اور دنیا کے مالی ذرائع تک ان کی دسترسی کو بھی محدود کر دیا جائے گا۔


خبر کا کوڈ: 953180

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/953180/افغانستان-سے-غیر-ذمہ-دارانہ-انخلاء-کا-نتیجہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org