4
Friday 10 Sep 2021 21:00

بلیک ستمبر اور لاعلم پاکستان

بلیک ستمبر اور لاعلم پاکستان
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

بلیک ستمبر سے شاید اکثر پاکستانی آشنا نہ ہوں۔ یہ اردن کے شاہ حسین کی طرف سے فلسطینیوں کے قتلِ عام کا نام ہے، یہ قتلِ عام ستمبر 1970ء میں شروع ہوا اور جولائی 1971ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی کمر توڑنے کے ساتھ ختم ہوا۔ اسی قتل و غارت کو بلیک ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جان کر شاید آپ چونک جائیں گے کہ اس قتل و غارت کا گہرا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جون 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ نے عربوں کی کمر توڑ دی تھی۔ اس جنگ کے بعد فلسطینی مغربی کنارے کے بہت سے لوگ اردن بھاگ گئے تھے۔ اس ہجرت سے پہلے بھی تقریباً 650،000 فلسطینی اردن کے اس منطقے میں آباد تھے۔ چنانچہ دنیا اس سے پہلے بھی اس علاقے کو  مشرقی فلسطین کے نام سے جانتی تھی۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے 1948ء میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد اس علاقے کا نام مشرقی فلسطین کے بجائے اردن  کر دیا گیا۔ نام تو تبدیل کر دیا گیا لیکن مغربی کنارے کے دو لاکھ سے زائد نئے پناہ گزینوں کے شامل ہونے سے اردن میں فلسطینی ایک بڑا اور مضبوط گروہ بن گئے۔

1959ء میں یاسر عرفات اور خلیل الوزیر (ابو جہاد) نے فلسطین محب وطن لبریشن موومنٹ کے نام سے فتح نامی ایک تنظیم بھی بنائی تھی، جس کا مقصد فلسطین کو گوریلا جدوجہد کے ذریعے اسرائیلی کنٹرول سے آزاد کرانا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی فلسطینی مزاحمتی تحریکیں موجود تھیں۔ یہ تنظیمیں اور تحریکیں دریائے اردن کے دوسری طرف سے اسرائیلی افواج کے خلاف گوریلا کارروائیاں کرتی رہتی تھیں۔ یہ مہاجر فلسطینی اردن میں اسی طرح آباد تھے، جس طرح ہمارے ہاں آزاد کشمیر والے کشمیری، پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مہاجر فلسطینیوں کی قیادت الفتح اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے یاسر عرفات کر رہے تھے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے اردن میں فلسطینی مہاجرین کے علاقوں کو مقبوضہ فلسطین کے علاقوں کی آزادی کے لئے ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

یہ صورتحال اردن کی بادشاہت کو خوفزدہ کر رہی تھی۔ خصوصاً یاسر عرفات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ایک غیر معمولی خطرہ بن چکی تھی۔ چنانچہ 25 ستمبر کو شاہ حسین نے اردن میں مارشل لاء لگا دیا۔ دو دن تک فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور اردن کی فوج کے مابین داخلی جنگ جاری رہی۔ دو دن کے بعد شاہ حسین اور یاسر عرفات کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔ ساتھ ہی جولائی 1971ء تک اردن کے بادشاہ نے الفتح اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے تمام ارکان کو اردن بدر کرتے ہوئے  انہیں زبردستی شام کے علاقے کی طرف جلاوطن کر دیا۔ جولائی 1971ء میں الفتح، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور اس کی بیشتر نیم فوجی فورسز کی قیادت لبنان منتقل ہوگئی۔

یہاں پر قابلِ ذکر یہ ہے کہ محمد ضیاء الحق "جنگی تربیتی مشن" کے کمانڈر کی حیثیت سے 1967ء سے 1970ء تک اردن میں اردنی فوجیوں کی تربیت کر رہے تھے۔ وہاں اردن کے بادشاہ کے اقتدار کو مضبوط کرنے اور ان کے مخالفین کو کچلنے کیلئے ضیاء الحق نے اپنے فرائضِ منصبی سے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ وہ بلیک ستمبر کی کارروائیوں میں شریک ہوئے۔ چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ایک سال میں ضیاء الحق نے جتنے فلسطینی مارے ہیں، اتنے آج تک اسرائیل نے نہیں مارے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس ایک سال میں تقریباً بیس ہزار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، 1973ء تک ضیاء الحق نے پاک فوج کے پہلے بکتر بند یونٹ کے کمانڈر کی حیثیت سے اردن میں خدمات انجام دیں۔ فلسطینیوں کے خلاف ضیاء الحق کی مثالی کارکردگی کے اعتراف میں  مرحوم شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو اردن کے اعلیٰ اعزاز ’’کوکب استقلال‘‘ سے نوازا۔ 1975ء میں وہ پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل بنے۔

ذرائع کے مطابق اردن کے بادشاہ نے اپنے تجربے کی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹو کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ضیاء الحق کو آرمی چیف بنائیں۔ مسٹر بھٹو نے سمجھا کہ ضیاء الحق اردن کے بادشاہ کی طرح ان کی بھی مکمل تابعداری کریں گے اور ان کے مخالفین کو کچل کر رکھ دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے 1976ء میں آٹھ سینیئر جرنیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ضیاء الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا۔ تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق، جنہیں بھٹو نے 8 جرنیلوں کو نظر انداز کرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایا تھا، انھیں دن میں دو مرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہر دفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:
سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکر مند نہیں ہونا چاہیئے۔[۱] ضیاء الحق کی دین ِاسلام اور شریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کو بھی یہ کہنا پڑا کہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔[۲]

اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہی ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کارروائی کو استعمال کیا، اس مقصد کیلئے بھٹو کے انتہائی مخالف ججز کو لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا، اس بات کا اعتراف جیو ٹی وی پر افتخار احمد کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا تھا۔ یاد رہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا تعلق ان چار ججوں سے ہے، جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھا تھا۔ انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ بھٹو کے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائو کی بناء پر کیا گیا تھا۔ پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد 21 مئی 1979ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھا، جس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کارروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایا گیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر یہ تشدد اقبالی بیان لینے کی خاطر کیا گیا تھا کہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایا ہے۔

اگر آپ ضیاء الحق کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف میکاویلی کے حقیقی معنوں میں پیروکار تھے، یا ان سے بھی کچھ آگے۔ جس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو کہا کہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں، اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایا ہے، اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیا ہے۔ بہرحال آج کل جب آزاد کشمیر کا نام تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے، مقبول بٹ جیسی شخصیات کو غدار کہا جاتا ہے، سید احمد گیلانی مرحوم جیسے قائدین کی ایک نہیں سُنی جاتی، آزاد کشمیر کو بیس کیمپ کے بجائے پاکستان کا صوبہ بنانے کی مہم چلائی جاتی ہے، کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ اور شہہ رگ کہنے کی بجائے متنازعہ علاقہ کہا جاتا ہے تو ایسے میں مجھے بلیک ستمبر یاد آنے لگتا ہے۔ قارئین محترم! تاریخ عبرت کیلئے ہوتی ہے، چاہے ضیاء الحق کی ہی کیوں نہ ہو، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں، کاش ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
o جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہر سہیل
o ضیاء کے آخری ١٠ سال از پروفیسر غفور احمد
• جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد
• اور الیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد
• بھٹو ضیاء اور میں از لفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی
خبر کا کوڈ : 953192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش