0
Saturday 11 Sep 2021 00:25

افغانستان کی بدلتی صورتحال، پاکستان پر اثرات اور امکانات

افغانستان کی بدلتی صورتحال، پاکستان پر اثرات اور امکانات
رپورٹ: ایم رضا

پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی کے اشتراک سے پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی میں منعقدہ خصوصی سیمینار بعنوان ”افغانستان کی بدلتی صورتحال، پاکستان پر اثرات اور امکانات“ کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار سے پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر شاہد امین، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی اور انچارج پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی ڈاکٹر ارم مظفر سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں شاہد امین نے کہا کہ طالبان نے ایک عظیم فوجی جیت حاصل کی، جس پر پوری دنیا حیران ہے، دنیا حیران ہے کہ تین لاکھ کی افغان فوج جو دنیا کی بہترین تربیت کی حامل تھی، وہ بغیر کسی مزاحمت کے سرنڈر کرگئی اور افغان فوج کا امریکی فوج پر انحصار کچھ زیادہ تھا، جو اس کی ایک بڑی وجہ ہے، امریکی فوج کے اچانک انخلاء اور افغان فوج کی اندرونی کمزوریوں کہ وجہ سے بھی طالبان اتنی جلدی کابل پر قابض ہوگئے اور افغان فوج کے اندرونی حلقوں میں بھی طالبان کی حمایت تھی۔

افغانستان میں 40 سال جنگ ہوئی، جس سے عوام مایوس تھے، امریکی صدر جوبائیڈن کے امریکی فوج کے انخلاء کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر انہوں نے ایک مضبوط فیصلہ کرکے امریکہ کو 20 سالہ جنگ سے نکالا اور انہیں تاریخ یاد رکھے گی، ان کو اپنی پارٹیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے، امریکہ اس جنگ میں واضح شکست کھا گیا، جس سے اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ڈاکٹر شاہد امین نے مزید کہا کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد خوش آئند بیانات کے ذریعے دنیا کو اچھا پیغام دیا، جس میں انہوں نے خواتین کی تعلیم کو جاری رکھنے کا اعلان کیا اور ان کو حجاب کے ساتھ کام کرنے کی بھی اجازت دی، ان کی جانب سے عام معافی کا اعلان بھی خوش آئند تھا اور انہوں نے دوسرے مذاہب کی آزادی کو بھی تسلیم کیا، ان کے بیانات انتہائی مثبت تھے، مگر عبوری کابینہ کے اعلان سے ان کے بیانات کی نفی ہوتی ہے۔

شاہد امین نے کہا کہ طالبان نے جب پہلی بار حکومت بنائی تو اسے شمالی اتحاد اور غیر پختون آبادی نے تسلیم نہیں کیا، غیر پختون آبادی جن میں تاجک، ازبک اور ہزارہ شامل ہیں، مگر اس بار بھی طالبان نے ان کو شامل نہیں کیا ہے، جس سے ایک بار پھر خانہ جنگی ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں، ماضی میں روسی انخلاء کے بعد سے طالبان حکومت کے دوران بھی شمالی اتحاد کی جانب سے طویل خانہ جنگی جاری رہی، بدقسمتی سے عبوری حکومت کا اعلان افسوناک ہے، کیونکہ اس میں صرف طالبان شامل ہیں، حالانکہ ایک مخلوط حکومت کے قیام کے لئے طویل مذاکرات ہوئے، جس میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے، مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں آیا۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ ٓاج کا موضوع انتہائی اہم ہے، ڈاکٹر شاہد امین پاکستان کے بہترین سفارتکاروں میں سے ایک ہیں، اب ہم پرانے اور نئے طالبان کی بات کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت کو کیا دنیا تسلیم کرے گی یا نہیں، ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں، جو گلوبل ولیج ہے اور سیاسی و سفارتی تنہائی میں کوئی بھی ملک نہیں رہ سکتا، طالبان کو دنیا بھر سے سفارتی تعلقات استوار کرنے ہونگے، روسی مداخلت کے بعد افغان جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر آگیا اور اس سے پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، افغان جنگ سے پاکستان میں شدت پسندی اور کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا اور لاکھوں مہاجرین کا مسئلہ بھی پیش آیا، پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنی پالیسی میں یوٹرن لیا اور طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا، ہمیں وہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، جس سے پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ ہو، ہمیں افغان پالیسی سوچ سمجھ کر بنانی ہوگی، افغان پر حکومت کرنا اب آسان نہیں کیونکہ طالبان کے پاس حکومتی تجربہ کم ہے اور ملک کو شدید معاشی چیلنجز درپیش ہیں، افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان، روس اور چین کا کردار اہم ہے۔

انچارج پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی ڈاکٹر ارم مظفر نے کہا کہ افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے اہمیت کی حامل ہے، قیام پاکستان کے بعد سے اب تک افغانستان کے حالات کا پاکستان پر گہرا اثر رہا ہے اور سکیورٹی کے خدشات پیدا ہوتے رہے ہیں، چاہے سویت یونین کا افغانستان پر حملہ ہو یا امریکہ کی افغانستان پر یلغار تمام حالات و واقعات سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا ہے، اسی طرح موجودہ حالات میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان حکومت کے قیام کا بھی پاکستان کی سکیورٹی سمیت سیاسی اور معاشی صورتحال پر گہرا اثر پڑے گا، پاکستان کے سامنے اس وقت دو اہم ترین سوال ہیں، تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کیسے کرنا ہے اور پالیسی کس قسم کی ہونی چاہیئے، ہم نے دو قابل اسکالرز کو دعوت دی ہے، جن کے جمہوریت پر تجربے اور تحقیقی کام کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ لیکچر کے اختتام پر سوال جواب کا مرحلہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ آخر میں چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی ڈاکٹر نعیم احمد نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
خبر کا کوڈ : 953211
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش