0
Tuesday 14 Sep 2021 20:30

امریکہ کے ہاتھ کیا آیا؟ ندامت اور ہزیمت

امریکہ کے ہاتھ کیا آیا؟ ندامت اور ہزیمت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

امریکہ اور اس کے اتحادی بیس سال کے بعد آخرکار افغانستان سے باہر نکل گئے یا نکال دیئے گئے لیکن دہشت گردی، جنگ، تشدد میں اضافہ، عدم استحکام، بدامنی اور دسیوں لاکھ افغان شہریوں کا قتل عام، افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بیس سالہ موجودگی کے اہم نتائج میں شامل ہے۔ امریکی انخلاء اور افغانستان میں امریکی موجودگی کے بارے میں نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں اور اس بات کی توقع رکھنی چاہیئے کہ اب مزید راز بھی منکشف ہونگے۔ امریکہ کے اندر اور یورپ کے بعض حلقوں سے حیران کن انکشافات ایک ایسی حقیقت ہے، جو جلد عیاں ہوگی۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ بیان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنتونیوگوتریس کی صدارت میں افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے منعقدہ آنلائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو آج افغانستان میں نئے حالات اور چیلنجوں کا سامنا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات، افراتفری اور بدامنی کی ذمہ دار اس ملک میں امریکہ کی غلط پالیسیاں رہی ہیں۔

حسین امیر عبداللہیان نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ امریکیوں نے افغانستان پر غاصبانہ قبضے اور اس ملک سے نکلنے کے طریقہ کار سے ایسے المیے جنم دیئے  ہیں، جن کے بعض مناظر کا گذشتہ دنوں دنیا نے کابل ایئرپورٹ پر خود مشاہدہ کیا ہے۔
 ادھر امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کابل کے سقوط کے بارے میں کہا کہ بدترین حالات کے اندازوں اور تخمینوں میں بھی کسی نے یہ پیشگوئی نہیں کی تھی کہ امریکی فوج کی موجودگی کے دوران افغان سکیورٹی ادارے طالبان کے سامنے ڈھیر ہو جائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سامنے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے متعدد مفادات ہیں، جن میں سے کچھ ہمارے مفادات سے تضاد رکھتے ہیں، بائیڈن انتظامیہ جلد پاکستان سے امریکا کے تعلقات پر نظرثانی کرنے جا رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان کے مسئلے میں پاکستان کے تعاون کا اعتراف کرنے کے ساتھ ہی اس پر امریکی مفاد کے خلاف کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تازہ انٹرویو میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی رسوائی قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب آپ افغانستان اور وہاں رونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ بلاوجہ مارے گئے، بغیر کسی دلیل کے ہلاک ہوگئے۔
پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار کے بقول "افغانستان میں کیا ہوا؟ امریکہ کے پاس ایک راستہ تھا کہ افغان نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرتا۔ اس ملک میں صنعتوں اور دیگر معاشی اداروں کو مستحکم کرتا، تاکہ یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ امریکہ چاہتا تو ایک نئی مڈل کلاس پیدا کرسکتا تھا، جو سیاسی، سماجی اور معاشی تشکیلِ نو میں اپنا کردار ادا کرتی۔ جدید معیشت کے استحکام میں دنیا کے ہر ملک میں یہ کلاس ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک ٹرلین ڈالر کا اگر بیس فیصد افغان قوم کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا تو وہاں طالبان کے لیے آج کوئی جگہ نہ ہوتی۔
امریکہ نے اس مثبت راستے کی بجائے ایک منفی طریقہ اپنایا۔ سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے انہیں رشوت دی، ہتھیار دیئے۔ افغانستان کو تعلیم اور علم کا مرکز بنانے کے بجائے اسلحہ خانہ بنا دیا۔ آج اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے حمایت یافتہ اخلاقی قوت سے ایسے تہی دامن ہوئے کہ انہوں نے افغانوں کی تاریخ میں بزدلی کا ایک نیا باب رقم کر ڈالا۔ امریکہ کے ہاتھ کیا آیا؟ ندامت اور ہزیمت۔

ان بیالیس برسوں میں امریکہ کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا، اس نے مگر جسموں پر حکومت کو ترجیح دی، اس کے دو نتیجے نکلے۔ ایک تو یہ کہ اس وقت امریکہ سے نفرت پر مبنی ایک عالمگیر تحریک موجود ہے۔ دنیا میں اسرئیل کے علاوہ کوئی ایک ملک ایسا نہیں، جو دل سے امریکہ کی عزت کرتا ہو۔ عالمی واقعات کو عبرت کی نظر سے دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس نظامِ دنیا کو سمجھا جائے۔ ہمیں معلوم ہوسکے کہ قوموں کے عروج و زوال میں کیا اصول کارفرما ہیں۔ ان کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔ جو اپنے دائرے میں اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرے گا، ایک طرح کے نتائج کا سامنا کرے گا۔ کل سوویت یونین کو موقع ملا تھا۔ اس سے پہلے برطانیہ کو۔ آج امریکہ عالمی قوت ہے۔ سب زوال کے راستے پر ہیں۔ کاش امریکہ کے اربابِ حل و عقد سوچ سکیں کہ انہوں نے بیالیس سالوں میں کیا کھویا، کیا پایا۔"

طالبان کو اب بلا تاخیر ایک نظام کی طرف پیش قدمی کرنی ہے۔ پہلے امن اور پھر نظام۔ امن کے لیے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ نظام کے لیے افرادِ کار اور وسائل کی۔ دنیا نے ابھی تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، اس لیے سرِ دست کسی بین الاقوامی معاہدے کا تو سوال ہی نہیں۔ دنیا مان تو لے گی، لیکن کچھ ضمانتیں چاہے گی۔ کیا طالبان اس پر آمادہ ہوں گے۔؟ تصورِ حیات اور معاصر دنیا کے فہم کا امتزاج درست حکمتِ عملی کی اساس بن سکتے ہیں۔ تصورِ حیات کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، عملی افادیت نہیں رکھتا، اگر اپنے زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ انسانی بصیرت کے لیے امتحان یہی ہے کہ وہ اس بات کے ادراک کے ساتھ کوئی حکمتِ عملی بناتا ہے یا اس سے بے نیاز ہو کر۔ طالبان کو کتنا تبدیل ہونا ہے، اس کا انحصار بھی اسی بات پر ہے۔ تبدیل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ تبدیلی کے بعد بھی کیا وہ طالبان ہی رہیں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 953853
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش