2
0
Monday 29 Aug 2011 16:02

امریکہ طالبان خفیہ مذاکرات اور خدشات

امریکہ طالبان خفیہ مذاکرات اور خدشات

تحریر:عادل بنگش
عصر حاضر میں پوری دنیا بالخصوص افغانستان اور مشرق وسطٰی کی سیاسی، دفاعی و عسکری اور معاشرتی و معاشی صورتحال اس حد تک ایک دوسرے سے جُڑ گئے ہیں کہ کسی ایک ملک یا کسی ایک مسئلے پر بات کرتے ہوئے دوسرے ملک یا مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بات جب افغانستان کی آتی ہے تو نہ صرف مسائل کا گراف بلند ہو جاتا ہے بلکہ مفادات و تحفظات رکھنے والے ممالک کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بات اگر صرف افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی ہوتی تو شاید مسائل اتنے گھمبیر نہ ہوتے، یہاں تو ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے جنگی جنون والے ممالک بھی اپنے مفادات کے حصول کیلئے قلب ملتِ افغان میں خنجر گھونپ چکے ہیں۔ اگرچہ افغانستان میں جاری کشت و خون کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ افغانستان تاریخی طور پر اندرونی مسائل، خانہ جنگیوں، بیرونی مداخلتوں (علاقائی اور عالمی) اور عالمی استعماری یلغاروں کی زد میں رہا ہے، تاہم افغانستان اس وقت جس طرح عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے شاید اس سے قبل کبھی نہ ہوا تھا۔ اس عالمی توجہ کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کارزارِ افغانستان کی دلدل میں ایک ایسے عالمی تھانیدار کی ناؤ پھنس چکی ہے جو فراعنہِ وقت میں سے خود کو سب سے زیادہ مقتدر سمجھتا تھا۔
کہتے ہیں کہ "ڈوبتے کو تنکے کا سہارا"۔ شدید اقتصادی بحران، اندرونی دباؤ اور چھاپہ مار گروہوں کے کمر توڑ حملوں سے حواس باختہ عالمی تھانیدر (امریکہ)، بوڑھا استعمار (برطانیہ) اور اُن کے دیگر اتحادی حواری اپنی ہزیمت کا اعتراف کرنے کے متراد ف "Safe Exit" اور "Honourable Return" کے نام پر " Bad Taliban" کے ساتھ بھی مذاکرات کیلئے آمادہ ہو گئے۔
مذاکرات کی بات کرنے سے قبل قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ 18 اگست 2011ء کو سرزمینِ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے پر حملے میں 27 امریکی فوجی ہلاک ہوئے، اسی طرح 6 اگست کو ISAF کے CH-47 چینوک ہیلی کاپٹر پر حملے میں 30 سے زائد "امریکی نیول سیلرز" کے کمانڈوز کی ہلاکت ہوئی۔ امریکی جریدے " Front Page " کے مطابق افغانستان پر NATO کے قبضے کے 10سالوں کے دوران یعنی (2001ء سے اب تک) سال2010،2009ء اور 2011ء میں قتل ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے U.S.A کے اندر عوام میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے۔ اگر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2012ء تک قتل ہونے والے فوجیوں کی تعداد سویت یونین کے مارے جانے والے فوجیوں سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔
یاد رہے کہ طالبان سے مذاکرات کی باتیں کافی عرصہ سے گردش کر رہی ہیں، لیکن برطانوی "Daily Telegraph " اور "The Independent News" کے مطابق سابقہ امریکی دفاعی سیکرٹری رابرٹ گیٹس نے جون 2011ء میں ان مذاکرات کی باقاعدہ تصدیق کر دی تھی کہ امریکہ افغانستان سے باہر افغانی طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ افغانی صدر حامد کرزئی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ کافی عرصہ سے رابطے بنائے جا رہے تھے, تاکہ مذاکرات کیلئے طالبان کو آمادہ کیا جاسکے۔
ان مذاکرات کے دو سیشن جرمنی میں جبکہ ایک قطر میں ہوا، جس کی چیئرنگ مائیکل سٹینز نے کی جو جرمنی کی طرف سے افغانستان اور پاکستان کیلئے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ ان مذاکرات میں طالبان نے اپنی شمولیت کسی نتیجے پر پہنچنے تک اخفائے راز سے مشروط کی تھی۔ ٹیلی گراف کے مطابق "طالبان قیادت ان مذاکراتی ملاقاتوں کے بارے میں خاصے تناؤ کا شکار تھے کیونکہ کوئی بھی منفی پروپیگنڈہ اُن کی تحریک کو متاثر کر سکتا ہے اور اُن کی مقبولیت Credibility کو بھی متاثر کرسکتا ہے"۔
ان مذاکرات میں طالبان کی طرف سے "طیب آغا" شریک ہوتے رہے۔ Express Tribune کے مطابق طیب آغا کا شمار ملا محمد عمر کے قریبی معتمد ساتھیوں میں ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ طالبان کا ایک آنکھ والا قائد ملا عمر اس سے قبل بھی اہم معاملات طیب آغا کے ذریعے سرانجام دیتا رہا ہے۔ نسلی طور پر قندھار کا پختون طیب آغا طالبان کے ترجمان کے طور پر اپنی حکومت کے دوران پاکستان میں کام کر چکا ہے۔ مذاکرات سے قبل طالبان کی قیادت اور دیگر مزاحمتی گروہ بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ جب تک تمام غیر ملکی بیرونی قوتیں افغانستان کی سرزمین سے انخلاء کو یقینی نہیں بناتیں، کوئی امن معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور حملے بھی جاری رہیں گے۔
مارچ اور اپریل 2011ء میں ہونے والے مذاکرات کے دوران طیب آغا تیسرے سیشن کے فوراً بعد منظر عام سے غائب ہو گئے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ UAE چلے گئے ہیں یا پھر پاکستان یا افغانستان واپس گئے ہیں۔ مذاکرات کے بیچ میں سے یوں اچانک غائب ہونے نے نہ صرف یہ کہ جارح اتحادی ممالک کے تھنک ٹینکس کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا بلکہ شدید پریشانی سے بھی دوچار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ذمہ دارانِ مذاکرات کافی کوششوں کے بعد بھی دوبارہ طیب آغا سے رابطہ قائم نہیں کر سکے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب مذاکرات کے بارے میں کچھ تفصیلات واشنگٹن پوسٹ، ڈیر ہیگل اور ٹیلی گراف میں نشر ہوئیں تو طالبان قیادت نے فوری طور پر خود کو مذاکرات سے علیحدہ کر لیا کیونکہ یہ اُن سے دھوکہ کے مترادف تھا اور اسے شرط توڑے جانے سے تعبیر کیا گیا۔ طالبان قیادت کے اس ردِعمل سے مذاکرات برُی طرح ناکام ہوئے اور بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ 
NATO کی قیادت نے افغان حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے کہ مذاکرات کا راز انہوں نے ڈر و خوف کے باعث فاش کر دیا ہے۔ اس ناکامی کے بعد امریکہ کی طرف سے افغانی شہریوں پر پُرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اُدھر طالبان نے بھی اپنی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔ ایک طرف تو یہ استعمار مذاکرات کی بات کر رہا ہے تو دوسری طرف اپنے مخالفین کو ننگی فوجی جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے، جس سے ان کے جنگی جنون کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد طالبان کسی امن معاہدے کیلئے آسانی سے تیار نہیں ہو سکتے، مگر مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کیلئے کئی اہم باتوں پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اگر اتحادی افواج صحیح معنوں میں انخلاء کی یقین دہانی کروائیں تو امن معاہدہ بھی ہو سکتا ہے۔ اتحادی ممالک نے مذاکرات میں پاکستان کو نظر انداز کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی، جس کا انہیں شدید احساس ہے۔ اس لیے اب وہ پاکستان سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ طالبان سے رابطوں کے قیام میں مدد فراہم کرے۔ جبکہ پاکستانی فوجی قیادت اتحادی افواج کی قیادت کو یہ بات واضح کر چکی ہے کہ امریکہ کی طرف سے افغانستان اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں براہ راست پر تشدد کارروائیوں سے صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔ اوبامہ انتظامیہ، وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کا اظہار کر چکے ہیں مگر یہ واضح نہیں کہ آیا سی آئی اے اور پنٹاگون بھی ایسا ہی چاہتے ہیں یا نہیں۔
پریس ٹی وی کے مطابق حال ہی میں ایک انکشاف ہوا ہے جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن Tobias Ellwoodنے بتایا ہے کہ برطانوی حکومت نے ایک پلان تیار کیا ہے جس کے تحت افغانستان کو نسلی و لسانی بنیادوں پر 8 اسٹیٹس States  میں تقسیم کرنا ہے جس سے مستقبل میں افغانستان کو سیاسی طور پر قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی اور اس کام کیلئے حامد کرزئی پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس پلان کو تسلیم کر کے اس کی حمایت میں اقدامات کرے۔
ایسے پلانز اور کوششوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادی ممالک اپنی شکست کے داغ چھپانے کیلئے ہر ممکن ذریعے سے کوئی نیا ایڈوانچر کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی و برطانوی اور دیگر قابض ممالک کے ان عزائم اور اقدامات سے پاکستان قطعاً لاتعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ پاکستان کو افغانستان کے اندر ایک دوستانہ حکومت کی ضرورت ہے اور وہ اس بات کو بھی جانتا ہے کہ اتحادی ممالک کے علاوہ روس اور بھارت کے کیا عزائم ہیں۔ اس تمام عمل میں پاکستان سیاسی و فوجی قیادت کو مملکتِ عزیز پاکستان کی سالمیت کیلئے بہترین حکمت عملی کے ساتھ ساتھ اندرونی استحکام کیلئے بھی سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے، بالخصوص قبائلی عوام کی احساس محرومیت کو ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے بالخصوص فاٹا طویل عرصے سے بدامنی کا شکار ہیں۔ اس طویل عرصے میں قبائلی عوام حکومتِ پاکستان او ر سیکیورٹی اداروں کے اقدامات سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر کرُم ایجنسی میں ہونے والے فوجی آپریشن"کوہ سفید" سے متعلق ISPR نے 19اگست2011ء کو یہ اعلان کیا کہ کرُم سے دہشت گردوں کے صفایہ اور جی ٹی روڈ کو محفوظ بنانے سمیت تمام اہداف حاصل کئے گئے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ پاراچنار کی جی ٹی روڈ بالکل بھی محفوظ نہیں ہے اور گزشتہ دنوں بھی کئی پرتشدد واقعات سمیت افغانستان کے راستے مجبوری کی وجہ سے سفر کرنے والے 5 سے زائد مرد و زن مسافروں کی یرغمالی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قبائلی عوام کے ساتھ کئے جانے والے وعدے حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ اسی طرح فاٹا کے بارے میں صدر کا خصوصی آرڈیننس بھی سامنے آیا ہے مگر قبائلی عوام کا اب بھی یہ مطالبہ ہے کہ خدا را جو بھی اعلان ہو اُسے حقیقی معنوں میں لاگو بھی کر دیا کریں۔
یہ بات اظہر امن الشمس ہے کہ بغیر اندرونی استحکام اور پرُامن قبائلی علاقوں کے، پاکستان آزادانہ طور پر افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا نہیں کرسکتا۔ مضبوط قبائلی علاقے ہی مضبوط پاکستان کے ضامن ہیں۔ اسی لیے بلوچستان سمیت تمام قبائلی علاقوں کی محرومیوں کا فوری ازالہ ازحد ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح ایک پرُامن افغانستان پرُامن ایشیاء اور کامیاب پاکستان کا ضامن بن سکتا ہے۔ ان حالات میں ملت افغان اور ملت پاکستان اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ دونوں ممالک میں بدامنی اور انتشار خطے میں امریکی و اتحادی ممالک کی فوجی و سیاسی مداخلت کے باعث ہے اور یہ کہ اس خطے کا امن ان قابض افواج کے فوری انخلاء میں مضمر ہے۔

خبر کا کوڈ : 95406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
بالکل ٹھیک کہا ہے
Mashallah. America aur os k sathee apni aakhri sansen le rahay hain.
ہماری پیشکش