0
Thursday 16 Sep 2021 11:11

افغانستان کے حالات میں پاکستان کا کردار

افغانستان کے حالات میں پاکستان کا کردار
تحریر: تصور حسین شہزاد

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد صورتحال غیر تسلی بخش ہی ہے۔ پوری دنیا افغانستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہاں چین کے اپنے مفادات ہیں جبکہ امریکہ اپنے اہداف لئے یہاں مقیم رہا، جہاں اسے ناکامی کا سامنا تو کرنا پڑا مگر ابھی بھی امریکہ افغانستان سے نکلا نہیں، صرف فوج نکالی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان امریکی رضامندی سے ہی اقتدار میں آئے ہیں، اتنی آسانی سے اقتدار ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں امریکی رضامندی شامل تھی۔ اب افغانستان میں عبوری سیٹ اپ سے کچھ ہمسایہ ممالک کو تحفظات ہیں کہ طالبان نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر کو ساتھ ملا کر چلیں گے، یہاں تک کہ طالبان نے محرم الحرام کے دوران مجالس اور جلوس ہائے عزاء کے انعقاد کی اجازت دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’نئے افغانستان‘‘ میں سب کو مذہبی آزادی بھی حاصل ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ مالی طور پر انتہائی کمزور افغانستان کیسے آگے بڑھے گا؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ابھی موجود ہے۔ چین نے اپنے تئیں مالی امداد دے کر طالبان کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ طالبان حکومت کیساتھ  ہے، یورپی یونین نے بھی اضافی امداد کا اعلان کیا ہے۔ روس بھی ابھی تو زبانی کلامی ہی حمایت کا یقین دلا رہا ہے، پاکستان مالی طور پر اس پوزیشن میں نہیں کہ افغانستان کی مدد کر سکے، البتہ اخلاقی امداد دے رہا ہے اور دیتا رہے گا۔ جہاں تک انڈیا کی بات ہے تو انڈیا طالبان سے بیک چینل رابطوں کیلئے کوشاں ہے، دہلی سرکار چاہتی ہے کہ طالبان کیساتھ تعلقات بہتر بنا لئے جائیں، جس سے جہاں اس کی ڈوبتی سرمایہ کاری بچے گی، وہیں وہ ایک بار پھر پاکستان کیخلاف افغان سرزمین کو استعمال کرسکے گا، مگر موجودہ افغان سیٹ اپ میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان مالی طور پر کمزور ہیں، انہیں سپورٹ کی ضرورت ہے، لیکن وہ انڈیا سے یہ سپورٹ پاکستان کیخلاف دشمنی کی قیمت پر کبھی نہیں لیں گے۔ بھارت کو اگر افغانستان کیساتھ تعلقات مستحکم کرنا ہیں تو اپنے ایجنڈے سے پاکستان دشمنی کو مائنس کرنا ہوگا، بصورت دیگر اسے کسی طور کامیابی نہیں مل سکتی۔ افغانستان کی بہتری اور استحکام کیلئے اگر کوئی قوت کردار ادا کرسکتی ہے تو ان میں چین، روس اور پاکستان سرفہرست ہیں، ایران کا بھی اہم کردار ہے، لیکن ایران ابھی ’’تیل دیکھو، اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق طالبان کے رویئے کو دیکھ رہا ہے۔ طالبان کی جانب سے ماضی قریب میں ایران کیساتھ جو وعدے وعید کئے گئے تھے، اگر طالبان وہ پورے کرتے ہیں تو ایران بھی اپنی خدمات پیش کر دے گا، بصورت دیگر ایران اس سیٹ اپ میں لاتعلق رہے گا۔

پاکستان کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کیلئے بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس کی مثال یورپی یونین کے حالیہ اجلاس میں پاس ہونیوالی قرارداد ہے۔ اس قرارداد میں پاکستان پر دباو ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا کردار ادا کرے، ورنہ جی ایس پی پلس کا سٹیٹس متاثر ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کے پارلیمان میں پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اس نے طالبان کی عسکری مدد کی ہے، تاکہ طالبان اقتدار پر قبضہ کرسکیں۔ پنجشیر میں ہونیوالی چڑھائی میں بھی پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے طالبان کو فضائیہ کی مدد فراہم کی۔ پاکستان نے ابھی تک اس قرارداد کے حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا، البتہ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی تردید کی ہے۔ افغانستان نے ہمسایہ ممالک سمیت دیگر ملکوں کیساتھ فضائی رابطے بھی بحال کر لئے ہیں۔ ایران کیساتھ پروازیں بحال ہوچکی ہیں جبکہ پاکستان کی سول ایوی ایشن کو بھی افغانستان کی جانب سے خط موصول ہوچکا ہے، جس میں پاکستان کیساتھ فضائی رابطے بحال کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ کابل سے لاہور، کراچی اور اسلام آباد پروازیں فعال کی جائیں گی۔

افغانستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔ افغانستان کے مرکزی بینک نے افغان عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان کرنسی میں ہی لین دین کریں اور بینک کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق حکومتی اہلکاروں کے گھروں سے رقم اور سونے کی مد میں ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر ملے ہیں، جنہیں قومی خزانے میں جمع کر لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں کے افسران کے گھروں سے بھی بھاری رقوم ملی ہیں، لیکن بینک نے کہا ہے کہ اس بات کا علم نہیں کہ حکام نے یہ رقوم اپنے گھروں میں کیوں رکھی ہوئی تھیں۔ تاہم سرکاری ملازمین کو کئی ماہ سے بند تنخواہوں کی ادائیگیاں بھی ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ ادائیگیاں بیرون ملک سے ملنے والی امداد سے کی جا رہی ہیں۔

مبصرین توقع کر رہے ہیں کہ اگر بیرونی امداد کا سلسلہ قائم رہا تو افغانستان کچھ عرصے کیلئے ضرور سنبھل جائے گا، مگر اسے مستقل استحکام کیلئے اپنی نئی معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ طالبان کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملانا ہوگا، مشترکہ حکومت قائم ہوئی تو ہی افغانستان میں استحکام آسکتا ہے۔ اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ساری حکومت پر خود قبضہ کرکے بیٹھ جائیں گے تو اس سے ملک میں استحکام نہیں آئے گا بلکہ خانہ جنگی کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے، اس سے ایک نیا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔ ابھی طالبان نئے نئے ہیں، مغرب ان سے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے اُمیدیں باندھنے میں لگا ہوا ہے، مغرب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انسانی حقوق سے زیادہ اہم یہاں کا استحکام ہے، حکومت مستحکم ہوگی تو اس سے حقوق کی توقع بھی رکھی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 954112
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش