0
Thursday 16 Sep 2021 15:20

الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 37 اعتراضات کیا ہیں؟

الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 37 اعتراضات کیا ہیں؟
تحریر: نادر بلوچ

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت کے درمیان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر ایک بڑا تصادم نظر آرہا ہے، وزراء مسلسل اپنے بیانات کی صورت میں الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کا مخالف نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکرٹری کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کو خط لکھا گیا ہے، جس میں 37 تحریری نکات سامنے رکھے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہی کہا تھا کہ الیکشن کمیشن پارلیمانی امور کی کمیٹی میں جا کر اپنی رائے کا اظہار کرے، جس پر یہ تحریری نکات لکھ کر اپنی آزادانہ رائے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھ دی ہے، وہ چیلنجز سامنے رکھ دیئے ہیں، جو مستقبل میں درپیش ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ چیلنجز سامنے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ کل اگر ای وی ایم کا پورا سسٹم ہی ناکام ہو جاتا ہے یا ناکارہ ثابت ہوتا ہے تو اس کا ملبہ الیکشن کمیشن پر نہ آئے، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کم از کم ہم پر یہ الزام تو نہیں ہوگا کہ اس وقت آپ نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، آپ نے اپنی کوئی اِن پٹ نہیں دی تھی۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد نہیں کیا، جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ حکومتی مشینوں پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر الیکٹرانک مشینوں کے استعمال سے پیدا ہونے والے ممکنہ چیلنجز بتائے ہیں کہ وہ کیا ہوسکتے ہیں، اس میں حکومت کی مشین پر کوئی ایک بھی اعتراض نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات میں ان یورپی ملکوں کا بھی ذکر کیا ہے، جہاں پر الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال اس مشین پر اٹھنے والے اعتراضات کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں جرمنی، نیدرلینڈ، اٹلی، فرانس اور آئرلینڈ شامل ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن 2023ء میں ٹیکنالوجی کا استعمال چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دو ہزار تئیس سے پہلے ہی اس ٹیکنالوجی کا استعمال ہو، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر اسے چھوٹے پیمانے پر استعمال کریں، پہلے آپ اسے لوکل باڈیز کے الیکشن میں استعمال کریں۔ لوکل الیکشن پائلٹ پرواجیکٹ کیلئے ایک نادر موقع ہے، مخصوص حلقوں پر ای وی ایم لگایا جائے، پھر کامیابی ملنے کے بعد تمام پولنگ اسٹیشن پر یہ مشین لگائی جا سکتی ہے۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اگر حکومت الیکشن اصلاحات بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرا لیتی ہے تو پھر الیکشن کمیشن کے پاس کیا راہ حل ہوگا؟، اس پر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ہم جائزہ لیں گے کہ کہیں یہ قانون آئین سے تصادم تو نہیں ہے، دوسرا کیا پارلیمینٹ اگر یہ قانون پاس کر دے کہ الیکشن کمیشن دو دن میں الیکشن کرائے تو کیا ایسا حقیقت میں ممکن بھی ہے؟ جس کا جواب نفی میں ہے۔ جو قانون نافذ ہی نہیں ہوسکتا یا اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا، یا گراونڈ کی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر نہ بنایا گیا ہو، اس پر عمل درآمد کیسے ہوسکتا ہے۔؟ الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں لکھ دیا ہے کہ دو ہزار تئیس میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال ناممکن ہے۔ کوئی بھی جلد بازی عوام کی بداعتمادی کا باعث بنے گی، قانون بن جانے کے بعد بھی یہ معاملہ لٹکتا ہی نظر آرہا ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کے حامی ہیں، لیکن ٹیکنالوجی محفوظ اور ٹیسٹڈ ہونی چاہیئے۔ جب بڑی سطح پر ٹیسٹ ہو جائیں تو پھر سمال اسکیل پر مشینوں کی خریداری کی جائے، ایسا نہ ہو کہ آپ پورے ملک کیلئے 9 لاکھ مشینیں خرید لیں، پھر پتہ چلے کہ ان مشینوں میں یہ مسئلہ آرہا ہے۔؟ جب مختصر سطح پر مشینیں خرید لیں گے اور اس کی پراپر چیکنگ اور تحفظ کو یقینی بنا لیں، پھر عام الیکشن کیلئے ان مشینیوں کی خریداری کریں۔ پہلے ان کا استعمال بلدیاتی الیکشن کے کچھ حلقوں میں کریں، پھر اگلا فیصلہ کریں۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ الیکٹرانک مشین کے استعمال سے آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ رائے شماری کمپرمائز ہوسکتی ہے، ای وی ایم ہر قسم کے فراڈ کو نہیں روک سکتی، نئے قسم کے فراڈ کیلئے بھی راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو مشینوں سے متعلق شعور دینا بھی الیکشن کمیشن کا کام ہے، لوگوں کی بڑی تعداد ناخواندہ ہوتی ہے، ان کو ووٹ ڈالنے سے متعلق آگاہی دینا بھی الیکشن کمیشن کا ہی کام ہے۔ یہ ٹاسک بہت بڑا ٹاسک ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ وہ یہ ہے کہ کسی بھی تنازع کی شکل میں شواہد نہیں ملیں گے، کیونکہ بہت سے ایسے شواہد ہیں، جن کا فیزکل شکل میں ہونا ضروری ہے۔ آئین کی کئی ایسی شقیں ہیں، جو فیزیکل شکل میں ہیں، اگر ای وی ایم مشین لانا بھی ہے تو اس کیلئے آئین میں ترمیم درکار ہوگی۔ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مشینوں میں بائیومیٹرک شناخت کا سلسلہ نہیں ہے، اگر ایسا ہے تو پھر مسائل تو برقرار ہی رہیں گے۔

اس کے علاوہ یہ ایک مہنگا منصوبہ ہے۔ ملک بھر کیلئے نو لاکھ مشینیں درکار ہوں گی۔ اس سسٹم کے تحت ملک بھر میں ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن قائم جائیں گے، جن میں چار لاکھ پولنگ بوتھ ہوں گے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے الگ مشینیں ہوں گی، یعنی کم و بیش نو لاکھ مشینیں درکار ہوں گی، اس منصوبے پر 150 ارب روپے کی کاسٹ آئے گی، اس کاسٹ میں تربیت اور انسٹالیشن شامل ہیں، ان نو لاکھ مشینوں کو محفوظ بنانا یا اسٹور کرنا ایک مشکل ترین ٹاسک ہے، اس کیلئے ویر ہاوسز بنانا پڑیں گے۔ یعنی ان مشینوں کی اسٹوریج پر بھی اچھی خاصی کاسٹ آئے گی۔

الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب مختلف کمپنیوں سے پریزٹیشن لی گئی تو ان میں سے کئی کمپنیوں نے یہ کہا کہ یہ مشنیں صرف ایک ہی مرتبہ استعمال ہوسکیں گی، جبکہ کچھ نے کہا کہ دو سے تین مرتبہ استعمال ہوسکتی ہیں، اس کے بعد یہ مشینیں فارغ تصور ہوں گی۔ ٹیکنالوجی ویسے بھی ہر دس سے پندرہ سال میں بدل جاتی ہے، تو کیا اتنی بڑی انویسٹمنٹ ضائع تصور کی جائے گی۔؟ الیکشن کمیشن کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ ہے کہ ان مشینوں کو آپریٹ کرنے کیلئے تربیت یافتہ اسٹاف کی ضرورت ہے، موجودہ اسٹاف سے یہ کام چلانا کسی خطرے سے کم نہیں ہوگا، پوری دنیا کی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ موجودہ اسٹاف پر ای وی ایم تھونپ دینا اور ان کو کہنا کہ چلا کر دکھاو، خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن ہیں تو اگر فی پولنگ اسٹیشن کیلئے ایک بندہ بھی تیار کیا جائے تو الیکشن کمیشن کو ایک لاکھ افراد کی تربیت درکار ہوگی، جو اس میشن کو آپریٹ کرسکیں گے اور یہ کام الیکشن کمیشن کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں، اس کے علاوہ ان مشینوں کی فول پروف سکیورٹی اور نقل و حرکت کا کام بھی ایک چیلنج ہے۔

الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مشین کا سافٹ وئیر جس کے انٹی لیکچول رائٹس تو خود اسے بنانے والی کمپنی کے پاس ہوں گے، پھر یہ سوال اٹھے گا کہ اصل الیکشن کروا کون رہا ہے؟، کیا وہ کمپنی کروا رہی ہے، جس کے پاس سافٹ وئیر کے انٹیی لیکچول رائٹس ہیں یا الیکشن کمیشن۔؟ کیونکہ سافٹ وئیر کی مالک تو وہ کمپنی ہوگی جبکہ الیکشن کمیشن فقط آرگنائزر ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ای وی ایم کے استعمال سے فوری نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟، اس پر ابہام موجود ہے، کیونکہ اصل نتیجہ تو آر او آفس پہنچے گا، چاہے وہ انٹر نیٹ کے ذریعہ پہنچے یا فزیکل شکل میں پہنچے، آر او نے ہی ایک ایک حلقے یا پولنگ بوتھ کے نتیجے کی تصدیق کرکے آر ایم ایم میں ایڈ کرنا ہے، اگر ایک حلقے میں 300 یا 400 پولنگ اسٹیشنز ہیں تو اس کی تصدیق تو کرنا ہوگی نا، تو فوری نتیجہ تو حاصل پھر بھی نہیں ہو پائے گا۔ الیکشن کمیشن اپنے خط میں یہ تسلیم کرچکا ہے کہ دو سال میں اس الیکٹرانک مشین پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ معاملہ بہت پیچیدہ ہے، جس پر اتفاق رائے انتہائی ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 954150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش