0
Monday 20 Sep 2021 02:11

ٹی ٹی پی کو معاف کرنیکا فیصلہ؟

ٹی ٹی پی کو معاف کرنیکا فیصلہ؟
رپورٹ: عدیل زیدی

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں کئی خدشات تھے، وہیں اپنی جگہ ایک امکان یہ بھی موجود تھا کہ کہیں پاکستان میں موجود افغان طالبان کے حامی یا پھر تحریک طالبان پاکستان ایک مرتبہ پھر متحرک ہو کر دہشتگردی کا بازار نہ گرم کر دے، علاوہ ازیں افغانستان میں پاکستان کے کردار کی مخالف قوتیں خاص طور پر ہندوستان بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان قیادت کیساتھ مذاکرات میں ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کے مطالبے اور پھر افغان طالبان کے پاکستانی طالبان کیساتھ اظہار لاتعلقی کے اعلان کے بعد ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کیلئے پاک افغان سرحد کے دونوں جانب گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشنز کے بعد بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغانستان منتقل ہوئے تھے، جنہیں وہاں سابقہ افغان حکومت کے دور میں محفوظ پناہ گاہیں میسر تھیں اور پاکستانی حکام کی جانب سے یہ بیانات بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ یہاں دہشتگردی کے مختلف واقعات میں افغان سرزمین استعمال ہوئی۔

اس صورتحال میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ پر شائع ایک رپورٹ میں بھی اس خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان حالات میں ٹی ٹی پی کے مردہ گھوڑے میں ایک مرتبہ پھر جان آسکتی ہے، جس کی ایک جھلک پاکستانی طالبان کی قبائلی علاقہ جات کے صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیاں تھی۔ اب اگر افغانستان میں طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف اگر کارروائی کرتے ہیں تو وہ دہشتگرد کسی نہ کسی طرح پاکستان کا رخ کرینگے اور یہاں حالات خراب ہوسکتے ہیں، لہذا بعض صحافتی حلقوں کا خیال تھا کہ شائد حکومت پاکستان ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے کی خاطر ٹی ٹی پی کے ان دہشتگردوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرے، جو امن کی جانب واپس آنا چاہتے ہیں۔ ابھی یہ بحث صحافتی حلقوں میں زیر گردش ہی تھی کہ صدر مملکت جناب عارف علوی کے اس بیان کہ ’’حکومت کالعدم گروپس کے ارکان کے لیے مشروط معافی کا اعلان کرسکتی ہے‘‘، نے اس بحث کو مزید تقویت پہنچائی اور یہ موضوع باقاعدہ میڈیا کی زینت بن گیا۔

اس حوالے سے جب گذشتہ دنوں برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے انٹرویو کے دوران سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ افغان جیلوں سے ٹی ٹی پی کے قیدی نکلنے کی خبروں پر تشویش ہے، اگر تحریک طالبان پاکستان دہشتگردی میں ملوث نہ ہونے کا وعدہ کرے، حکومتی رٹ اور پاکستان کا آئین تسلیم کرے تو پاکستان انہیں معافی دینے پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہاں قارئین کو یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ملک میں ہزاروں دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی گئی، جن میں اب تک لگ بھگ 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان پر ملک کے سنجیدہ و محب وطن حلقوں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی اور ایسے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کیا گیا۔ اس حوالے سے اہم پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب خود تحریک طالبان پاکستان نے شاہ محمود قریشی کی اس معافی کو پیشکش کو مسترد کر دیا۔ 

بی بی سی اردو کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’جہاد‘‘ نہ کرنے کے وعدے پر معافی ان کیلئے بے معنی ہے، کیونکہ معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے جبکہ ہماری جدوجہد کا مقصد پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی، تحریک طالبان نے حکومت پاکستان کی جانب سے معافی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں معافی دینے کی مشروط پیشکش کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اگر ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ یا ارادہ کیا جائے تو ہم اپنے دشمن کے لیے معافی کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اگر پاکستان کے سیکولر جمہوری رہنماء اور فوجی اسلام دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا رییں گے تو ان کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔ ٹی ٹی پی کے اس بیان کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ الٹا طالبان حکومت پاکستان کو معافی کی مشروط پیشکش کر رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔

اس معاملہ پر دہشتگردی سے متاثرہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر اور اسفندیار ولی خان کے فرزند ایمل ولی خان نے کہا کہ دہشتگردوں کو عام معافی کا اعلان کرنے والے پاکستانی تشخص کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جن کیلئے عام معافی کا اعلان کیا جا رہا ہے، انہوں نے کل بھی تخت بھائی میں ایک پولیس اہلکار کو شہید کیا۔ دہشتگردی و دہشتگردوں کی حمایت کرنیوالوں کو سمجھ آگیا ہوگا کہ اس حماقت کا بین الاقوامی سطح پر کیا اثر پڑ رہا ہے، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تشخص تباہ کر دیا گیا ہے، نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ منسوخ ہونا صرف کرکٹ کی بات نہیں، یہ پاکستان کے تشخص کا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر اور وزراء کی جانب سے جب دہشتگردوں کی حمایت کی جائیگی تو نتیجہ یہی نکلے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن دہشتگردی کے خلاف موقف واضح ہے۔ آج بھی سلیکٹڈ وزیراعظم، صدر اور انکے وزراء دہشتگردوں کی حمایت میں مقابلہ کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 954235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش