1
Saturday 18 Sep 2021 23:03

افغانستان میں امریکہ کا بلیک باکس (حصہ اول)

افغانستان میں امریکہ کا بلیک باکس (حصہ اول)
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
افغانستان کے حالات نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر رکھی ہے۔ امریکی حکام عالمی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے فوجی انخلاء کے بعد افغانستان میں ایک قسم کا خلاء پیدا ہو چکا ہے اور اس دوران اس ملک میں جو بھی ناگوار واقعہ پیش آ رہا ہے وہ اسی خلاء کے باعث ہے۔ یوں امریکہ گذشتہ بیس سالوں پر محیط اپنی نامعقول، نقصانات سے بھرپور اور غاصبانہ فوجی موجودگی کو سودمند ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد رونما ہونے والے ناگوار واقعات ان حادثات کا دو فیصد حصہ بھی نہیں جو بیس سالہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی موجودگی میں رونما ہوئے تھے۔
 
دوسری طرف بعض عناصر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تھوڑا صبر کریں پھر آپ دیکھیں گے کہ افغانستان میں کیسے نت نئے بحران پیدا ہوتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ رکھنے والے عناصر کی نظر میں افغانستان کے روشن مستقبل کی امید محض ایک سراب ہے اور بہت جلد اس ملک میں جنم لینے والے شدید بحران پورے خطے اور حتی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ البتہ اس بارے میں دیگر بھی بہت سے تجزیات پائے جاتے ہیں۔ ہم اس بارے میں چند اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہتے ہیں:
1)۔ طالبان نے ایک خاص حکومت ماڈل پیش کیا ہے اور طالبان کے تمام ذمہ داران اور حامی بھی اس حکومتی ماڈل کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا طالبان اپنے مطلوبہ حکومتی ماڈل یعنی "امارت اسلامی افغانستان" کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں؟
 
فی الحال ملک کے اندر طالبان کے مقابلے میں ایسی کوئی مضبوط اپوزیشن موجود نہیں ہے جس کی مخالفت کے نتیجے میں طالبان اپنے اس حکومتی ماڈل سے دستبردار ہو جائے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق صدر اشرف غنی کو ملک سے فرار اختیار کئے اور کابل پر طالبان کا قبضہ ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، پس ابھی تک طالبان نے کیوں سرکاری سطح پر اپنے مدنظر حکومتی ماڈل یعنی "امارت اسلامی" کا اعلان نہیں کیا اور نگران حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ اس بات کا قومی امکان موجود ہے کہ طالبان مستقبل قریب میں اپنے حکومتی ماڈل کا اعلان کر کے اسے لاگو کر دیں گے لیکن یہ تاخیر خاص معنی کی حامل ہے اور طالبان کی اس نفسیات کو ظاہر کرتی ہے جو مختلف موضوعات میں دہرائی جائے گی۔
 
البتہ طالبان کا حکومتی ماڈل بہت زیادہ نقائص کا حامل ہے جبکہ طالبان کے مرکزی رہنماوں کے درمیان بھی حکومت کے طریقہ کار پر باہمی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لہذا طالبان اپنے مطلوبہ حکومتی ماڈل کو عملی شکل دینے میں بہت سی کمزوریوں کا شکار ہیں۔ دوسری طرف طالبان کو اس میدان میں بیرونی حقیقی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے جس کے باعث وہ اپنے اصل حکومتی ماڈل کو لاگو کرنے میں تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔ طالبان بخوبی آگاہ ہیں کہ کافی حد تک علاقائی اور بین الاقوامی معاہدوں کے انعقاد کے بغیر "امارت اسلامی" بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہو جائے گی اور حتی اس بات کا امکان بھی پایا جاتا ہے کہ ابتدا میں ہی اس کے خلاف اندر سے ایک طاقتور تحریک ابھر کر سامنے آ جائے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر انہیں تسلیم کئے جانے کیلئے علاقائی سطح پر دوستانہ ماحول بنانا بہت ضروری ہے۔
 
یوں دکھائی دیتا ہے کہ طالبان ایک علاقائی – بین الاقوامی محاذ تشکیل دینے کے درپے ہیں تاکہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی مشروعیت کے حصول کا زمینہ فراہم کر سکیں۔ یہ علاقائی – بین الاقوامی محاذ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب پر مشتمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقت ان پر تکیہ کرنے کا نتیجہ ملک کے اندر قانونی حیثیت اور مشروعیت کھو دینے اور حکومت کی بنیادیں متزلزل ہونے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ طالبان کا نظریہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے محاذ پر اعتماد نہیں کر سکتے جس کے موثر اراکین میں سے ایک امریکہ ہو کیونکہ ایسا محاذ بنیادی طور پر کابل میں ایک موثر اور خودمختار حکومت کے حق میں ہی نہیں ہے۔ طالبان کی نظر میں امریکہ سب سے زیادہ افغانستان کی نئی حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دینے کا خواہاں ہے۔
 
دوسری طرف، علاقائی سطح پر پاکستانی حکومت کا نظریہ یہ ہے کہ کابل میں ایک پشتون حکومت کا قیام، پاکستان میں پشتون طالبان کو شہ ملنے کا باعث بن سکتا ہے جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ تک ہے۔ اسی طرح پاکستان کے پشتونوں کو اشتعال دلانا طالبان کی یقینی پالیسی ہے کیونکہ ان کے پاس پاکستان کے شمال میں واقع قبائلی علاقوں کو افغانستان سے ملحق کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ حتی اگر پاکستان بظاہر زور دے کر کہے کہ ہم طالبان کی حکومت کو قبول کرتے ہیں، یقیناً اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایک اور ایسا محاذ موجود ہے جس کی طاقت امریکہ کی مرکزیت میں موجود محاذ سے زیادہ ہے۔ یہ محاذ ایران، چین، انڈیا، روس، تاجکستان، ترکمنستان اور ازبکستان پر مشتمل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 954547
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش