2
Sunday 19 Sep 2021 16:30

چہلم امام حسینؑ۔۔۔۔ کیا ہم حسینی ہیں!؟

چہلم امام حسینؑ۔۔۔۔ کیا ہم حسینی ہیں!؟
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

کیا ہم مسلمان ہیں؟ اس حوالے سے ہمارا جواب جی ہاں بھی ہے اور جی نہیں بھی۔ اگر ہمارے ناموں، داڑھیوں، تلاوتِ قرآن مجید، مساجد، عبادات اور دینی مدارس کو دیکھا جائے تو جی ہاں ہم بالکل مسلمان ہیں۔ لیکن اگر ہماری خواہشاتِ نفس، لالچ، دوغلے پن، بے رحمی، عدمِ مساوات، ملاوٹ، کرپشن اور جھوٹ وغیرہ کو دیکھا جائے تو پھر ہم میں سے بہت کم مسلمان رہ جائیں گے۔ اپنی آبادی کے اعتبار مسلمان  دنیا کی دوسری بڑی ملت ہیں لیکن دینِ اسلام کی معرفت اور عمل کے اعتبار سے ان کی آبادی بہت کم ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب آور بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے اکثر مسلمان اُس دین کی تبلیغ کرتے ہیں، جو خود اِن کے پاس بھی نہیں۔ دینِ اسلام کیلئے اس سے زیادہ ضرر رساں چیز اور کیا ہوگی کہ اس دین کی تبلیغ وہ لوگ کرتے ہیں، جو خود اس پر عمل نہیں کرتے۔

کچھ ایسا ہی حال ہمارے پاکستانی ہونے کا بھی ہے۔ اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ پاکستانی ہیں؟ تو اس حوالے سے بھی ہمارا جواب جی ہاں بھی ہے اور جی نہیں بھی۔ اگر ہمارے شناختی کارڈز، پاسپورٹس، 14 اگست و 23 مارچ کی تقریبات، اور یومِ آزادی کے حوالے سے بیانات و ریلیوں کو دیکھا جائے تو جی ہاں ہم بالکل پاکستانی ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کے حوالے سے ہماری معلومات،  بانی پاکستان کے حوالے سے ہماری تحقیق، علامہ اقبال کے حوالے سے ہماری اقبال شناسی، تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ہمارے تدبر اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے ہمارے طرزِ عمل کو دیکھا جائے تو پھر ہم میں سے بہت کم پاکستانی رہ جائیں گے۔ پاکستان  کیلئے اس سے زیادہ ضرر رساں چیز اور کیا ہوگی کہ وہ لوگ پاکستانی کہلاتے ہیں، جو خود نہیں جانتے کہ پاکستان کتنی بڑی نعمت ہے۔

بلامبالغہ یہی حالت ہمارے سُنی یا شیعہ ہونے کی بھی ہے۔ ہمارے مذہبی جوش و خروش، مساجد کی فتویٰ بازی، مولویوں کی بھرمار، ہر محلے میں فرقہ وارانہ تقسیم، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بلکہ بعض اوقات کافر ثابت کرنے کی کوششیں دیکھئے تو ہم پکے سُنی یا شیعہ ہیں لیکن اپنے ہی فرقے کے عقائد کے بارے میں ٹھوس معلومات، اپنے ہی تاریخی مسلمات سے آگاہی،  اور فراخدلی کے ساتھ حقائق کو تسلیم کرنے کی بات اگر آئے تو ہم میں سے بہت کم حقیقی اہل سنت یا شیعہ رہ جائیں گے۔ ہماری مذہبی رواداری کیلئے اس سے زیادہ ضرر رساں چیز اور کیا ہوگی کہ مذاہب کی تبلیغ وہ لوگ کرتے ہیں، جو خود مذاہب کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔

ابھی چہلمِ امام حسینؑ قریب ہے۔ یہی حال ہمارے حسینی ہونے کا بھی ہے۔ اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ حسینی ہیں؟ تو اس حوالے سے ہمارا جواب جی ہاں بھی ہے اور جی نہیں بھی۔ اگر ہمارے ناموں، نعروں، عزاداری، ماتم، لنگر، سبیل اور نوحہ خوانی کو دیکھا جائے تو جی ہاں ہم بالکل حسینی ہیں۔ لیکن اگر امام حسین ؑ کے حوالے سے ہماری معرفت، اُن کی شہادت پر تحقیق، ان کی سیرت سے آگاہی، اُن کے فرامین میں تدبر، اُن کی بصیرت سے استفادے اور اپنے اپنے عمل کو دیکھا جائے تو پھر ہم میں سے بہت کم لوگ حسینی رہ جائیں گے۔

امام حسینؑ سے منسوب محافل و مجالس اور جلسے جلوسوں کے مخاطبین عام مساجد اور دینی مدارس و سکولوں و کالجز کے مخاطبین سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان مخصوص مخاطبین کیلئے جو محتویٰ اور مواد تیار کیا جاتا ہے، وہ بھی عام منبر و مدارس سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ان محافل و مجالس کا محور و موضوع کربلا اور شہادتِ امام عالی مقام کو قرار دیا جاتا ہے۔ بظاہر امام حسین ؑ کے بارے میں تقاریر، مجالس، نوحہ خوانی، ماتم و گریہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن آیا امام حسین ؑکے عقائد، ان کا اخلاق، ان کی سیرت، ان کے اہداف اور ان کا راستہ بھی لوگوں کو بتایا جاتا ہے۔؟

امام حسینؑ کی تحریک کی ایک نمایاں خصوصیت عقائد کی شفافیت ہے۔ جہاں تک عقائد کی بات ہے تو اس میں دیکھا یہ گیا ہے کہ عموماً لوگ شفاف انداز میں امام حسینؑ کے عقائد بیان نہیں کرتے بلکہ اپنی پسند اور اپنی سوچ کے مطابق جو چاہتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان مجالس میں غلو، شرک اور انحرافات کا چلن عام ہوگیا ہے۔ ورنہ امام حسینؑ کے عقائد کا ایک بہترین اور مستند ماخذ تو دعائے عرفہ ہے۔ حسینیوں کیلئے توحید، معاد اور ایمان وہی ہے، جو امام حسینؑ نے دعائے عرفہ میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح امام عالی مقامؑ نے اپنی ساری جدوجہد کے درمیان ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ میں خلیفہ اول و دوم و سوم کے نقشِ قدم پر چلوں گا۔ آپ نے جتنی مرتبہ بھی اس حوالے سے بات کی تو یہی کہا کہ میں اپنے بابا علی ابنِ ابی طالب ؑ اور اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر عمل کروں گا۔ اس سے یہ واضح درس ملتا ہے کہ انسان کو اپنے عقائد میں غیر متزلزل ہونا چاہیئے۔

اسی طرح  امام حسینؑ کے اخلاق کے حوالے سے بھی بہت کم کچھ سننے کو ملتا ہے۔ مثلا آپ کا حُسنِ خلق، رواداری، سخاوت، بخشش، درگزر، صلہ رحمی، خوفِ خدا، انسانی ہمدردی، اطعام، انفاق، یتیم پروری، مساوات، درس و تدریس، تعلیم و تربیت، مہمان نوازی اور دیگر اخلاقی محاسن پر مجالسِ عزاداری میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔ آپ کی سیرت کا تجزیہ کرنے کے بجائے عموماً مصائب بیان کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے وہ اہداف جن پر آپ قربان ہوگئے، وہ بھی بہت کم کہیں سننے میں آتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے آج تک امام حسینؑ کے پرچم، ذوالجناح، ماتم اور غم و سوگ سمیت بہت ساری نشانیوں اور یادوں کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ ان نشانیوں میں سے ایک چہلمِ امام حسینؑ بھی ہے۔ یہ دن ہماری باطنی تبدیلی اور حقیقی توبہ  کیلئے ہے۔ وہی توبہ اور تبدیلی جو حضرت حُرؑ نے انجام دی۔ مقامِ فکر ہے کہ اگر حضرت حُر ؑ توبہ کرنے کے بجائے اپنے خیمے کا  رنگ سیاہ کر لیتے اور کالے کپڑے پہن کر بیٹھ جاتے تو کیا انہیں یہ شرف اور مقام مل جاتا۔؟

حضرت حرؑ کی توبہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ انسان جتنا بھی بڑا گنہگار ہو، اُسے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ توبہ کرنے میں کوئی تاخیر نہیں ہے۔ انسان کو جب بھی یہ احساس ہو جائے کہ وہ غلط راستے اور غلط عقیدے پر گامزن ہے تو اسے فوراً توبہ کر لینی چاہیئے۔ اگر ہم توبہ نہیں کرتے اور عزاداری امام حسین ؑکے نام پر فقط  ظاہری لباس تبدیل کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے امام حسینؑ کے پیغام کو یا تو سمجھا ہی نہیں اور یا پھر نظر انداز کر رہے ہیں۔ امام حسینؑ کی شہادت ہمیں حق النّاس کی اہمیت یاد دلاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شہادت ایک عظیم منصب ہے۔ شہید کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، لیکن دس محرم الحرام 61 ھ کو امام حسینؑ نے یہ اعلان کرایا کہ خبردار جس کی گردن پر کسی کا قرض ہے، وہ ہمارے لشکر سے دور ہو جائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حق النّاس اگر کسی کی گردن پر ہو تو اسے شہادت جیسا عظیم منصب بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اب اگر ہم امام حسینؑ کی عزاداری کے جلوسوں میں بھی ہوتے ہیں اور حق النّاس کی بھی پرواہ نہیں کرتے تو یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنا دل بہلانے اور اپنی منتیں و مرادیں مانگنے کیلئے عزاداری کی مجالس اور جلوسوں میں تو جاتے ہیں،  لیکن امام حسین ؑکی تعلیمات سے غافل ہیں۔

کاش ہم یہ سمجھ جائیں کہ امام حسینؑ کا ماتم اور غم ہمیں شعور اور آگاہی کی دعوت دیتا ہے۔ ہر بات پر اچھل پڑنا، ہر جملے پر واہ واہ کرنا اور ہر آدمی پر اعتماد کرنا باشعور لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔ ابنِ زیاد جب کوفے میں داخل ہوا  تو لوگ اسے پہچان نہیں سکے۔ لوگوں نے یہی سوچا کہ وہ امام حسین علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے بڑی  خوشی اور گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جشن کی صورت میں چلتے رہے، یہاں تک کہ ابنِ زیاد کے ہمراہیوں نے خود یہ اعلان کیا کہ یہ ابنِ زیاد ہے۔ اگر ہم اتنے سادہ اور کم عقل ہیں کہ دین کے لبادے میں منبر پر آکر جس کے جو دِل میں آتا ہے، وہ کہہ دیتا ہے اور ہم اس کا اعتبار کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے زمانے کے ابنِ زیاد کو نہیں پہچانتے۔ یعنی ہم نے کربلا سے فہم و فراست، بصیرت اور شعور حاصل نہیں کیا۔

المختصر یہ کہ امام حسینؑ کی کسی بھی نشانی کو دیکھتے ہوئے، ان کی زیارت کو جاتے ہوئے، ان کی سبیل یا لنگر سے کچھ پیتے یا کھاتے ہوئے، یا اُن کے جلوسوں و مجالس میں شرکت کرتے ہوئے ہمیں اپنے آپ سے یہ ضرور پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم حسینی ہیں؟ اگر ہیں تو کون سے حسینی؟ ہمارا شمار تعداد بڑھانے والوں میں ہوتا ہے یا عمل کرنے والوں میں۔ اگر ہمارا شمار عمل کرنے والوں میں نہیں ہوتا تو پھر فوری طور پر توبہ کری چاہیئے، وہی توبہ جو حُرؑ نے کی۔ حسین ابن علی ؑ کیلئے اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز اور کیا ہوگی کہ وہ لوگ حسینی کہلائیں، جو حسین ابن علیؑ کی تعلیمات سے غافل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 954664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش