QR CodeQR Code

اگر ہم کربلا میں ہوتے؟

21 Sep 2021 13:30

اسلام ٹائمز: شہادت یعنی عشقِ لقائے الہیٰ، عشق کا ایسا راستہ جس کی کوئی انتہاء نہیں، جہاں سر کی بازی لگا دینا ہی عشق و وفا و اطاعت کی دلیل ہے۔ امام حسین علیہ السلام شہیدوں کے سردار ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ ہم شہادت کے مفہوم سے نا آشنا ہوں اور امام حسین علیہ السلام سے عشق کریں۔ بلاشبہ شہادت ہمارے لیے سعادت اور باعثِ افتخار ہے اور آج مدافعینِ حرم کے پاک لہو کی تاثیر ہے کہ پوری دنیا سے ہمارے جوان شہادت کے آرزومند ہیں۔


تحریر: سویرا بتول

آج جو ہم ایامِ عزإ میں امام حسین علیہ السلام کے لیے گریہ و ماتم کر رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی سوچیں کہ اگر ہم کربلا میں ہوتے تو کیا کرتے؟ آج بھی کربلا برپا ہے۔ اگر ہم پیغمبرِ اسلامﷺ، امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور امام عالی مقام کے زمانے میں ہوتے تو کیا کرتے؟ حجتِ دوراں امامِ عصر ظہور فرماٸیں گے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں اُن کے اعوان و انصار میں شامل ہونا ہے تو کیوں نہ ہم ابھی سے خود کو ظہور کے اُس عظیم معرکہ کے لیے تیار کرنا شروع کر دیں۔ امامِ زمانہ علیہ السلام کو بھی تو کسی حُر، جبیب، زہیر یا وہب کی ضرورت ہے ناں؟ امام عالی مقام نے اپنے دوست (حبیب) کو خط لکھ کر کہا [میں تنہا ہوں، حبیب آجاٶ]۔۔ آج یوسفِ زہرإء اگر کسی حبیب کو بلانا چاہیں تو کیا ہم آمادہ ہیں؟ وقتِ سفر آچکا ہے، اپنے آپ کو آزما لیں، ہم حُر ہیں یا حبیب؟ ظہورِ امام بہت نزدیک ہے۔ دعاٸے عہد کا وہ جملہ *وعجل لنا ظہورہ انھم یرونہ بعیدا و نراہ قریبا* ہمارے لیے جلد اِن کا ظہور فرما کہ لوگ اِن کو دور اور ہم انہیں نزدیک سمجھتے ہیں۔

جہاں بھی دو راستے ہوں، وہاں معیار کربلا ہے۔ ہم اپنے آپ کو قبل از وقت آزما لیں، کیونکہ آج بھی کوٸی ہے (جو پردہ غیبت میں) ہمارے جواب کا منتظر ہے۔ جب بھی وقتِ انتخاب ہو، ہمارا انتخاب کربلا ہو۔ حُر کے فیصلے نے کربلا میں یہ واضح کر دیا کہ کربلا کے مصائب اور امان نامے میں فرق کیا ہے۔ یہ اُنہی کے عشق کا طفیل ہے کہ وہ کسی مقام تک پہنچا۔ آہ!!! امام عالی مقام نے ہمارے لیے بہت زحمت و مصائب برداشت کیے ہیں۔ توجہ کی ضرورت یہاں ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی نظروں میں کس مقام پر ہیں؟ زیارتِ عاشورہ کا وہ جملہ *اللھم اجعلنی عندک وجیھاباالحسین علیہ السلام فی الدنیا والاخرة* اب ہم متوجہ ہوں کہ ہمارا مقام کیا ہے، امام عالی مقام کی بارگاہ میں اور کیا ھل من الناصر کی صدا ہمارے لیے بھی تھی یا نہیں۔؟

اِس بات کا جواب ہمیں راہِ جہاد اور شہادت کی طرف لیکر جاتا ہے۔ مجاہدانہ زندگی ایک خاص زندگی ہے۔ جب ہم تکرار کرتے ہیں *بِابِی انت و امی* میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یابن الرسول اللہ تو گویا ہم عہد کر رہے کہ ہم وقتِ ضرورت اپنی ہر عزیز چیز حتی کہ جان بھی آپ پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اگر یہ عزم و ارادہ پیدا ہوگیا تو انسان زندگی کے ہر لمحہ میں شہادت کو محسوس کریگا اور اپنے آپ کو شہادت سے نزدیک پاٸے گا اور جو کوٸی بھی شہادت کے احساس کے ساتھ زندگی کرتا ہے، اُس کے لیے ایسی نوید اور خوشخبری ہے، جس سے دوسرے محروم ہیں جیسا کہ شہید مطہری کے نزدیک شہید تاریخ کا روشن چراغ ہے اور شریعتی کے نزدیک شہید تاریخ کا قلب ہے۔

*مولاٸے کاٸنات علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام* فرماتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے شجاع ہیں کہ جن کو موت نے چیر پھاڑ ڈالا مگر وہ نہیں مرے اور کتنے ہی بزدل ایسے ہیں، جو اپنی پناہ گاہوں میں مر گٸے۔ میں اکثر گھنٹوں سوچتی ہوں کہ اگر یہ شہادتیں، عزت و شرف و خون کا سلسلہ ختم ہو جاٸے اور ہم باقی رہ جاٸیں اور خدا نہ کرے کہ کسی حادثہ یا بیماری میں مر جاٸیں تو یہ کتنا بڑا خسارہ ہے۔ یہ سوچ کر ہی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں کہ انسان کی یونہی موت واقع ہو جاٸے، بخدا یہ بہت سخت ہے۔ شہید القدس کا جملہ "ما ملتِ شہادتیم" اکثر کانوں میں گونجتا ہے، بلاشبہ شہادت ایک ھمیشگی اور الہیٰ افتخار کا میدان ہے، بہشت کے انتخاب کا میدان، مادرِ جان سیدہ زہرإء کی طرح گمنام رہنے کا فقط احساس ہی کتنا پر کیف اور باعثِ افتخار ہے۔

شہادت کا احساس کیا ہے؟ یعنی آپ دنیا کا مرکز اور اُس کی دھڑکن ہیں، یعنی اگر آپ کا دل دھڑکتا ہے تو معاشرے کی رگوں میں خون دوڑتا ہے۔ شہادت کا احساس یعنی آپ نور کا چراغ ہیں اور خود جل کر دوسروں کو راستہ تلاش کرنے کے لیے روشنی فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم شہادت کا استقبال کریں تو کوٸی بھی اَبر قدرت ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ شہادت کا راز اشکوں میں پنہاں ہے۔ شہادت یعنی عشقِ لقاٸے الہیٰ، عشق کا ایسا راستہ جس کی کوٸی انتہاء نہیں، جہاں سر کی بازی لگا دینا ہی عشق و وفا و اطاعت کی دلیل ہے۔ امام حسین علیہ السلام شہیدوں کے سردار ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ ہم شہادت کے مفہوم سے نا آشنا ہوں اور امام حسین علیہ السلام سے عشق کریں۔ بلاشبہ شہادت ہمارے لیے سعادت اور باعثِ افتخار ہے اور آج مدافعینِ حرم کے پاک لہو کی تاثیر ہے کہ پوری دنیا سے ہمارے جوان شہادت کے آرزومند ہیں۔
دین کا ثبات ہو
زیست کی نجات ہو
قوم کی حیات ہو
اے شہیدو!! تم وفا کی کاٸنات ہو


خبر کا کوڈ: 954972

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/954972/اگر-ہم-کربلا-میں-ہوتے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org