0
Tuesday 21 Sep 2021 18:30

فرانس امریکی مفادات کا تازہ شکار

فرانس امریکی مفادات کا تازہ شکار
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ملکوں کے مفادات تعلقات پر کس قدر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اس کی تازہ ترین مثال فرانس ہے۔ ایک وقت تھا کہ دنیا میں اقدار کی بنیاد پر تعلقات کی بات کی جاتی تھی۔ اگرچہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ صرف اقدار کی بنیاد پر تعلقات ہوں، مگر پھر بھی اقدار کی بات ہوتی تھی۔ اب قومی مفادات کے نام پر ہر اصول اور ہر ضابطے سے خود کو  آزاد سمجھا جانے لگا ہے۔ فرانس اور امریکہ کے تاریخی تعلقات ہیں، فرانس اس وقت بھی امریکی اتحادی تھا، جب برطانوی استعمار امریکہ پر قابض تھا۔ صدیوں سے قائم یہ تعلقات بہت اہم سمجھے جاتے تھے اور کئی تقریبات مشترکہ کامیابیوں کی یاد میں منعقد کرتے تھے۔ بظاہر دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے دونوں ممالک کا اتحاد تھا، یہ الگ بات ہے کہ خود فرانس میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی نہیں ہے، خواتین مرضی کا لباس نہیں پہن سکتی ہیں، اسی طرح مساجد میں مینار بنانا بھی مورد سوال ہے۔

امریکہ افغانستان سے نکل گیا اور ماہرین کا یہ خیال درست ثابت ہو رہا ہے کہ اب اگلا میدان چین کے اردگرد تشکیل دیا جائے گا۔ اس کی تیاری کے لیے نئے اتحادیوں کو تیار کرنا ہوگا اور ان کو لالچ و دھمکی کا سہارا لے کر اور چین سے ڈرا کر ان ممالک کو اپنے ساتھ کھڑا کیا جائے گا۔ خطے میں نیا اتحاد امریکہ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کی صورت میں معرض وجود میں آ رہا ہے۔ انڈیا اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے اور اس نے اس اتحاد میں شامل ہونے کی کافی تگ و دو کی، مگر ابھی تک اسے اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی، مگر وہ ابھی بھی مایوس نہیں ہے اور مسلسل کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ چین اور آسٹریلیا کی چپقلش موجود ہے، اگرچہ چین اسے حد سے زیادہ نہیں ہونے دیتا، مگر اختلافات موجود ہیں، جن کو امریکہ ہوا دے کر اپنا راستہ ہموار کر رہا ہے۔

امریکہ نے آسٹریلیا اور انگلینڈ سے مل کر درپردہ چین کے خلاف اتحاد قائم کیا ہے۔ اس کا آغاز ہی خاصہ مضحکہ خیز ہوگیا ہے۔ آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان دو ہزار سولہ سے فرانسیسی آبدوزوں کے حوالے سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان کا یہ سودا ہو چکا تھا، بس معاہدے پر دستخط کرنے تھے، مگر بقول فرانس کے امریکہ نے ہماری پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا ہے۔ اربوں ڈالر کے اس معاہدے کی منسوخی نے فرانس کو آگ بگولہ کر دیا ہے اور اس نے وہ انتہائی قدم اٹھایا ہے کہ اپنے سفیر کو آسٹریلیا اور  امریکہ سے واپس بلا لیا اور امریکہ کے ساتھ مشترکہ تقریبات کو بھی منسوخ کر دیا۔ اس سے دنیا بھر میں بے اعتبار ہوتی امریکی ساخت کو مزید دھچکا لگا ہے۔ فرانس کا کہنا ہے کہ اسے اس معاہدے کے پبلک ہونے سے کچھ ہی گھنٹے پہلے بتا کر دوستانہ طریقہ کار کی نفی کی گئی ہے۔

فرانسی وزیر خارجہ لی درائین نے فرانس ٹو ٹیلی ویژن کو بتایا تھا کہ یہاں جھوٹ، دوغلا پن، بد اعتمادی اور توہین ہوئی ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کا یہ بیان دراصل امریکہ خارجہ پالیسی کے اصولوں کا عکاس ہے، جو جھوٹ، دوغلے پن، بداعتمادی اور دوسرے ممالک کی توہین پر ہی مبنی ہے۔ البتہ فرانس کو اسے سمجھنے میں ذرا تاخیر ہوئی بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ جب تک یہ دھوکہ، جھوٹ، فریب اور توہین دیگر ممالک کے ساتھ ہوتی رہی، فرانس امریکہ سے مل کر اقتصادی فوائد سمیٹتا رہا، مگر جیسے ہی اس کے ساتھ ہاتھ ہوا تو اب اسے اخلاقیات یاد آرہی ہیں۔ آسٹریلیا نے بھی فرانس کے ساتھ یہی کیا ہے اور مسلسل فرانس کو الجھاو میں رکھ کر اپنا الو کہیں اور سے سیدھا کر لیا ہے اور بڑی سادگی سے کہہ دیا کہ ہمارے قومی مفاد کے لیے یہ معاہدہ ضروری تھا۔

برطانیہ کا کردار یہاں پر بہت ہی دلچسپ ہے، اس نے بڑی چالاکی سے امریکی سرپرستی میں آسٹریلیا کے اربوں ڈالر کے معاہدے میں اپنا حصہ وصول کر لیا۔ اس پر فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ برطانیہ اس معاملے میں "تیسرا پہیہ" ہے اور لندن پر "مسلسل موقع پرستی" کا الزام لگایا ہے۔ فرانس کی یہ بات بالکل درست ہے، برطانیہ ہمیشہ موقع کی تاک میں ہوتا ہے اور اپنا حصہ ضرور وصول کرتا ہے۔ یہاں برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلق کی نوعیت کو جاننا بھی اہم ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد اب برطانیہ آزاد ہوچکا ہے، وہ اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیل رہا ہے، آبدوزوں کا معاہدہ اس کی تازہ مثال ہے۔ برطانیہ نے دیکھا کہ یہ معاہدہ ہو رہا ہے تو چھلانگ لگا کر اس میں داخل ہوگیا اور اپنا حصہ وصول کر لیا۔ اس سے برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں مزید الجھاو آئے گا۔ یہ معاملے امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں بھی دخیل ہوگا۔

جب جرمنی نے روسی گیس پائپ لائن کے معاملے میں امریکہ کی تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے مکمل کیا تھا تو اب یورپی یونین کے لیے برطانیہ کی صورت میں ایک چیلنج یورپ کے اندر ہی موجود ہے۔ یوں سمجھے لیں کہ جس طرح مشرق وسطی میں اسرائیل امریکی مفادات کی نگرانی کر رہا ہے، اسی طرح یورپ میں برطانیہ کی حیثیت بن رہی ہے۔ ابھی الجھاو ابتدائی سطح پر ہے، آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو فرانس کا معاملہ دراصل اربوں ڈالر کا تجارتی معاملہ ہے، ویسے تو بی بی سی اردو کی ہر رپورٹ مسلمان ممالک کی اسلحہ سازی کی صنعت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غربت سے جوڑ دیتی ہے، مگر یہاں ایٹمی میرینز کی خرید و فروخت کو بھی کوئی امن معاہدہ ہی سمجھا رہے ہیں۔ یہ دراصل مغربی  میڈیا کی منافقت ہے۔ آنے والے دنوں میں یورپ کو مزید اس طرح کے جھٹکے دیئے جائیں گے اور اس کے مالی مفادات کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ اندرون خانہ چین سے تجارت محدود کرنا  اور اس معاملے میں اتحادی بننے کی گرانٹیز لی جائیں گی۔ امریکہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے اس معاہدے پر چین کا ردعمل خطے ایک اور گرم ہوتے محاذ کا پتہ دے رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 955027
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش