0
Tuesday 21 Sep 2021 23:01
دھماکے، قتل و غارت اور فساد پھیلانے والوں کو آزاد چھوڑا گیا ہے

کرم میں بقائے امن کی ضمانت کس سے لی جائے؟

حکومت امن کی ضمانت ہمیشہ طوریوں سے طلب کرتی ہے
کرم میں بقائے امن کی ضمانت کس سے لی جائے؟
رپورٹ: ماجد کاظمی

قبائلی ضلع کرم میں قبائل کے مابین زمینی، سیاسی، سماجی اور دیگر قسم کے معمولی معمولی تنازعات اور مسائل اکثر مذہبی رنگ اختیار کرکے بہت شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے تنازعات دیگر تمام قبائلی علاقوں میں بھی ہوتے ہیں۔ تاہم وہاں ایسے مسائل فرقہ وارانہ رنگ اختیار نہیں کرتے، کیونکہ وہاں قبائل کا تعلق عموماً ایک ہی مسلک سے ہوتا ہے، جبکہ کرم میں ایک معمولی سا مسئلہ بھی فوراً مسلکی، مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ یہاں آباد قبائل میں سے نصف کا تعلق شیعہ جبکہ دیگر نصف کا تعلق سنی مسلک سے ہے۔ ایسے واقعات کی لسٹ کافی طویل ہے۔ تاریخ کی طرف ہم نہیں جاتے۔ اس حوالے سے حال ہی میں ہونے والے کچھ واقعات کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں اور اس کا مستقل حل نکالنے کا فیصلہ مقامی سول اور فوجی انتظامیہ کے علاوہ مرکزی حکومت پر چھوڑتے ہیں۔

کل پیر کو نستی کوٹ کے علاقے میں ایک معمولی سا حادثہ اس وقت رونما ہوا، جب ایک اہلسنت قبیلے (مقبل) کی شادی کی گاڑیوں کا قافلہ ڈھول باجے، ساز و آواز اور تماشے کے ساتھ شیعہ دیہات نستی کوٹ سے گزر رہا تھا، جبکہ محرم اور صفر کے مہینوں کے احترام میں اہلیان کرم پاراچنار ان دونوں مہینوں میں شادی بیاہ اور ڈھول تماشوں سے مکمل طور پر احتراز کرتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی میں موجود اس علاقے کے چند طالبعلم دوستوں سے رابطہ کرکے، معاملے کی اصل صورتحال جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ محرم اور صفر میں اس طرح کے حادثات سے بچنے کے لئے ہمارے علاقے کے مشران، مقبل مشران اور حکومت کے مابین ماضی میں مشترکہ جرگے بھی ہوچکے ہیں۔ جس میں اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ اہل سنت بھی ان ایام میں شیعوں کے جذبات کا احترام رکھیں گے۔ خصوصاً شیعہ علاقوں سے گزرتے وقت کسی ایسی حرکت سے گریز کریں گے، جس سے ان کے جذبات مجروح ہوں۔ مگر انہوں نے ہر سال اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ حتی کہ مقبل اور دیگر سنی قبائل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنی شادیوں کے لئے محرم اور صفر ہی کا انتخاب کرلیتے ہیں۔

کل رونما ہونے والے واقعے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سے دو دن قبل بھی شادی کا ایک قافلہ اونچی آواز کے ساتھ میوزک لگا کر غوزگڑھی سے صدہ کی طرف گزر گیا۔ اس وقت بھی لوگ کافی مشتعل ہوئے۔ تاہم موقع پر موجود مشران کی مداخلت سے جوانوں نے صبر کیا، جبکہ اس کے دو دن بعد، صدہ سے غوزگڑھی واپسی پر وہی قافلہ یا شاید کوئی نیا قافلہ ہو، اس علاقے سے گزر رہا تھا، تو اس مرتبہ انہوں نے مقامی طوری قبائل کی غیرت کو مزید چیلینج کرتے ہوئے میوزک کے لئے لاؤڈ سپیکرز کا سہارا لیا۔ انہوں نے کہا کہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ایک گاڑی سے قافلے کو انسٹرکشن دی جا رہی تھیں۔ انسٹرکشن کے بعد گانے اور میوزک کو سپیکر پر چلایا جاتا۔ جس کے ردعمل میں وہاں پر موجود ایک جوان نے گاڑی میں موجود ایک شخص سے میوزک بند کرنے کو کہا تو اس نے نہ صرف میوزک بند نہ کیا، بلکہ اسے ایک تھپڑ بھی لگا دیا۔

جس کے بعد وہاں پر موجود ایک اور جوان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور گاڑی میں موجود میوزک اور تماشے میں بدمست شخص کو جواباً ایک تھپڑ لگایا۔ جس پر کافی تو تو میں اور لے دے کے بعد معاملہ رفع دفع ہوا۔ تاہم پشاور یونیورسٹی سے اطلاع دینے والے ان جوانوں کے مطابق اس واقعے کے ردعمل میں صدہ کے علاقے میں اپر کرم کے شیعوں کی گاڑیوں کو روکا گیا اور انہیں نقصان بھی پہنچایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپر کرم میں دو افراد کے مابین ہونے والے ذاتی لڑائی جھگڑے، ہاتھا پائی اور ذاتی دشمنی کو ہمیشہ سے فرقہ وارانہ رنگ دیکر صدہ میں ردعمل کے طور پر مسافروں کو روک کر قتل اور ساتھ ہی مسافر بردار گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب لوئر کرم تو کیا اپر کرم کے سنی علاقوں میں اگر کہیں ذاتی دشمنی کی بنا پر مخالف فریق کے ہاتھوں کبھی طوری کا قتل ہوا ہے، تو تاریخ گواہ ہے کہ طوریوں نے کبھی بھی اسے ذاتی رنگ نہیں دیا ہے۔

گذشتہ سال اپر کرم میں کڑمان کے قریب ایک دشمن دار منگل قبیلے کے دو افراد کو ذاتی دشمنی کے شاخسانے پر اپنے دشمنوں نے قتل کیا تو اسی وقت صدہ میں روڈ بلاک کرکے متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور ساتھ ہی ایف سی کے ایک مسافر صوبیدار کو کلہاڑیوں اور چاقووں سے وار کرکے نہایت بیدردی سے قتل کیا گیا، تو حکومت نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا، جبکہ کڑمان میں واقعے سے مکمل طور پر لاتعلق درجنوں بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح اس سال محرم سے پہلے اپر کرم بوشہرہ کے شریف زمان کے قتل پر بھی صدہ میں جلوس نکالا گیا اور گاڑیوں کو روکا گیا، حالانکہ شریف زمان کے خاندان کی متعدد شیعہ اور سنی خاندانوں کے ساتھ دیرینہ دشمنی موجود ہے اور یہ کہ ابھی تک اصل دشمن کا پتہ بھی نہیں چل سکا ہے۔ تاہم حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس حادثے پر بھی متعدد شیعہ افراد کو حراست میں لیکر کئی ماہ تک جیل میں رکھ کر پوچھ گچھ کی، جبکہ نتیجہ صفر نکلا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مقامی انتظامیہ بذات خود ایک فریق بنی بیٹھی ہے، جو علاقے میں امن ہمیشہ طوری (شیعہ) قبائل سے مانگتی ہے، جبکہ امن کی گیند مخالف فریق کے کورٹ میں ہے۔ وہی چاہیں تو سب کچھ ممکن ہے، کیونکہ شیعوں نے ملک بھر میں عموماً، جبکہ کرم میں خصوصاً کبھی کوئی دھماکہ نہیں کرایا۔ کبھی خودکش حملہ یا کوئی دیگر دہشتگردانہ حملہ نہیں کیا، شیعوں نے ہمیشہ سے مخالفین کے واضح مظالم سہے ہیں، جبکہ شیعوں پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد اور ان کے مقامی سہولت کاروں کی پوری لسٹ حکومت کے پاس موجود ہے۔ چنانچہ اگر حکومت پاکستان بھر میں بالخصوص کرم میں امن کی متمنی ہے تو وہ دہشتگرد تنظیموں اور ان کے مقامی سہولت کاروں پر اپنے آہنی ہاٹھ ڈالے۔
خبر کا کوڈ : 955047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش