0
Friday 24 Sep 2021 15:14

مدارس کی دنیا، کچھ اعتراضات اور انکے جوابات

مدارس کی دنیا، کچھ اعتراضات اور انکے جوابات
تحریر: ذاکر حسین میر

مدارس دین کے قلعے ہیں، جہاں صرف اور صرف دین کی بقاء اور اسے اپنی اصلی شکل میں باقی رکھنے پر کام ہوتا ہے۔ چودہ سو سال گزرنے کے باجود بھی آج اگر دین اسلام اپنی اصلی شکل میں باقی ہے اور دیگر آسمانی ادیان کی طرح تحریف کا شکار نہیں ہوا تو انہی مدارس کی انتھک محنت اور کوششوں کے مرہون منت ہے۔ مدارس ہی کی کاوشوں سے دنیا میں بڑے بڑے دین شناس پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنے علم و عمل کے ذریعے دین کے عالم گیر پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ آسمان فقہ، اصول، فلسفہ، علم فلکیات، ریاضی، منطق، حدیث، رجال، تفسیر، اخلاق، علم کلام، تاریخ، سیرت، اقتصاد، سیاست، قانون اور ادبیات کے تابناک اور تابندہ ستارے شیخ مفید، شیخ طوسی، شیخ بہائی، سید مرتضیٰ، سید رضی، شیخ انصاری، آخوند خراسانی، شہید مرتضیٰ مطہری، سید جماالدین، شہید باقر الصدر، امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای وغیرہ ایسی شخصیات ہیں، جو مدارس میں پڑھ کر مجدد اسلام، فیلسوف، محدث، محقق، مفسر اور مجتہد زمان بنے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ دین اور اس کی ضروریات سے ناآشنا بعض عناصر دینی مدارس کے اہداف، یہاں پر رائج نظام تعلیم، نصاب اور ان کی اہمیت سے مطلوبہ آگاہی نہ رکھنے کی وجہ سے مدارس کے نظام کو اپنی تنقید کا نشان بناتے ہیں۔ ان کی یہ مکروہ حرکت نہ صرف رسول اکرم ﷺ، ائمہ اطہار اور بزرگان دین کی روح کو اذیت پہنچانے کا سبب بنتی ہے بلکہ سینکڑوں عقیدت مندوں اور اس راستے میں شب و روز محنت کرنے والے لوگوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور علوم دینی و الہیٰ کی تحقیر کا باعث بھی بنتی ہے۔ جدید تعلیم کے نام پر دو چار حرف پڑھنے کے بعد یہ نام نہاد دانشور مدارس پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مدرسوں میں ادبیات عرب، فقہ و اصول اور چند دیگر غیر مفید سبجیکٹس کے علاوہ کیا پڑھایا جاتا ہے؟ یہی لوگ بعض اوقات یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مدارس میں سائنسی علوم کے لئے کوئی جگہ نہیں، یہاں انگلش کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟ کمپیوٹر سائنسز کی تعلیم کیوں نہیں دی جاتی؟ سب  سے بڑھ کر یہ اعتراض کہ اتنا بڑا سرمایہ صرف و نحو پڑھانے پر کیوں خرچ ہو رہا ہے۔

مذکورہ اعتراضات کے جوابات اور دینی مدارس کے اصلی اہداف کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی مداس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ہو۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دینی اور دنیوی علوم کا کوئی جداگانہ تصور نہیں تھا۔ جتنے بھی مفید اور انسانی معاشرے کے ضروری علوم ہوتے تھے، انہیں مدرسوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان مدرسوں سے ہی پیدا ہوئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حلقہ درس میں تقریباً چار ہزار سے زیادہ علماء شریک ہوتے تھے۔ چنانچہ جابر بن حیان جیسے صف اول کے سائنسدان پیدا ہوئے۔ لیکن اسلام اور دین کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ دشمن نے مفاد پرست مسلمان حکمرانوں کو استعمال کرتے ہوئے دین شناسی سے مربوط تمام علوم کو تعلیمی اداروں سے باہر نکال پھینک دیا اور ان اداروں کو صرف دنیوی علوم کے ساتھ مخصوص کر دیا۔

ان حالات میں یہ علمائے کرام کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ دین اور اسلامی علوم کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ترویج کے لئے الگ انتظام کر لیں اور پھر علوم میں ترقی کی وجہ علوم خود بخود مختلف شعبوں میں تقسیم ہوئے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ میڈیکل اور انجینرنگ کے الگ الگ ادارے کیوں بنے ہیں؟ یا کہا جائے کہ میڈیکل اداروں میں انجینرنگ اور انجینرنگ کے اداروں میں میڈیکل کیوں نہیں پڑھایا جاتا، انتہائی نامعقول ہے۔ چونکہ دنیوی علوم پر کام کرنے کے لئے حکومتوں کی سرپرستی میں کافی تعداد میں ادارے کام کر رہے ہیں تو پھر انہیں دوبارہ مدارس میں پڑھانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ البتہ دنیوی علوم سے مربوط سینکڑوں ادارے اب بھی علمائے کرام کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ رہی بات دینی علوم کی، اگر انہیں علمائے کرام نہ سنبھالتے تو ان کا نام نشان تک باقی نہ رہتا۔ یہ علمائے کرام اور دینی مدرسوں کا کمال ہے کہ جو طلباء سے ایک روپیہ لئے بغیر بلکہ ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے، علوم دینی کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جدید دور میں تبلیغ کی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے مدارس زمانے کی ضروریات سے بھی غافل نہیں ہیں۔ چنانچہ شاید ہی کوئی ایسا مدرسہ ہو، جہاں کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم نہ دی جاتی ہو۔

رہی یہ بات کہ مدارس میں صرف ادبیات، فقہ اور اصول پڑھانے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اتنا بڑا سرمایہ انہی چیزوں میں صرف کیا جاتا ہے، جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ہے۔ اس اعتراض کا سبب بھی دینی علوم سے درست آشنائی نہ ہونا ہے، کیونکہ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ سکولوں میں اتنا بڑا سرمایہ الف ب، ABC اور  123 پڑھانے پر کیوں صرف کیا جاتا ہے تو یقیناً اس شخص کو بےوقوف ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ علمی میدان میں آگے بڑھنے کے لئے ابتدائی طور پر ان چیزوں کا سیکھنا ضروری ہے۔ یہ چیزیں ایک بڑے مقصد تک پہنچنے کے لئے مقدمہ کے طور پر پڑھائی جاتیں ہیں۔ اسی طرح اگر مدرسوں میں عربی یا فارسی گرائمر کی تعلیم دی جاتی ہے تو کسی خاص شخص کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر نہیں بلکہ ایک بڑے ہدف تک پہنچنے کے لئے تمہید اور مقدمے کے طور پر یہ علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ اگر دین اسلام کو سمجھنے کے دو اہم منابع قرآن اور حدیث عربی زبان میں نہ ہوتے تو مدرسوں میں عربی زبان پڑھانے کی کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی طرح دیگر علوم بھی ہیں، جن کو تمہید کے طور پر پڑھانا ضروری ہے۔

آخر میں قارئیں کی آگاہی کے لئے ہم ان علوم کی ایک مختصر فہرست بیان کریں گے، جو دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ۱۔ عربی اور فارسی ادبیات ۲۔ علم منطق ۳۔ علم اصول ۴۔ علم فقہ ۵۔ بلاغت ۶۔ علم عرفان ۷۔ علم کلام ۸۔ علم اخلاق ۹۔ علوم قرآن ۱۰۔ علم تفسیر ۱۱۔ علم حدیث ۱۲۔ علم رجال ۱۳۔ علم تجوید و قرائت ۱۴۔ ایجوکیشن (تعلیم و تربیت) ۱۵۔ اقتصاد ۱۶۔ اسلامک لاء ۱۷۔ طب اسلامی  ۱۸۔ تاریخ اور سیرت     ۱۹۔ سیاست ۲۰۔ مدیریت ۲۱۔ فلسفہ۔ یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ  دیگر علوم کی مانند آج دینی علوم بھی مختلف شعبوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور ہر کوئی اپنی دلچسپی اور صلاحیت کے مطابق کسی ایک شعبے کو انتخاب کرتا ہے اور اس میں سپیلائزیشن کرتا ہے۔ صاحبان عقل و خرد خود بتائیں کہ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے ان اہم ترین علوم کو حاصل کئے بغیر ایک مسلمان کیسے تعلیم یافتہ کہلا سکتا ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ مروجہ تعلیمی اداروں کے نصاب میں یہ علوم بھی شامل کئے جائیں، وگرنہ بقول اقبال:
جدا ہو دین سیاست سے   تو رہ جاتی ہے چنگیزی
خبر کا کوڈ : 955565
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش